آذربائیجان کا صدارتی انتخاب، الہام علیوف پانچویں بار کامیاب

بین الاقوامی مبصرین کا کہنا ہے کہ انتخابات میں ان کے خلاف کوئی مضبوط شخص کھڑا نہیں ہوا۔

آذربائیجان کے صدر کی جانب سے جاری کی گئی اس تصویر میں صدر اور صدارتی امیدوار الہام علیوف 7 فروری 2024 کو آذربائیجان کے علاقے کاراباخ کے شہر خانکینڈی میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے دوران اپنا ووٹ ڈالنے کے بعد ایک پولنگ سٹیشن کے باہر دیکھائی دے رہے ہیں (ہینڈ آؤٹ / آذربائیجان کے صدر/ اے ایف پی)

آذربائیجان کے صدارتی انتخابات کے حکام کے مطابق ملک کے صدر الہام علیوف نے 92 فیصد ووٹ حاصل کر کے مسلسل پانچویں بار کامیابی حاصل کر لی ہے۔

بین الاقوامی مبصرین کا کہنا ہے کہ انتخابات میں ان کے خلاف کوئی مضبوط شخص کھڑا نہیں ہوا۔ ملک کی بڑی اپوزیشن جماعتوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کر رکھا تھا۔

مسٹر علیوف کے سامنے چھ امیدوار کھڑے تھے۔

انتخابات 2025 میں ہونا تھے لیکن آرمینی علیحدگی پسندوں کے زیر کنٹرول علاقے پر فوج کے قبضے کے بعد انتخابات قبل از وقت کرائے گئے۔

مسٹر علیوف کے ہزاروں حامی دارالحکومت باکو کی سڑکوں پر آئے اور ان کی جیت کا جشن منایا۔

سرکاری میڈیا نے رپورٹ کیا کہ علیوف نے 93 فیصد ووٹوں میں سے 92.05 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح 76 فیصد رہی۔

علیوف عام طور پر انتخابات میں 85 فیصد ووٹ حاصل کرتے ہیں، جسے انسانی حقوق کی تنظیمیں غیر منصفانہ قرار دیتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے گدشتہ سال ناگورنو کاراباخ علاقے پر قبضے کے بعد اپنی مقبولیت میں اضافے کے بعد انتخابات کا اعلان کیا تھا۔

اس خطے کے 120,000 آرمینیائی باشندوں میں سے زیادہ تر آرمینیا فرار ہو گئے، اعلیٰ عہدے داروں کو گرفتار کر لیا گیا اور ان پر مختلف جرائم کا الزام ہے اور مقدمے کا انتظار کر رہے ہیں۔

علیوف نے ناگورنو کاراباخ کی فتح کو آذربائیجان کی تاریخ کا ایک بے مثال اہم واقعہ قرار دیا اور اس انتخابات کو ایک ’نئے دور‘ کا آغاز قرار دیا۔

ملک کی اہم اپوزیشن جماعتوں میں سے ایک عوامی محاذ کے رہنما علی کریمی نے کہا کہ ملک میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے کوئی شرائط نہیں ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'اسمبلی کی آزادی محدود ہے، میڈیا حکومت کے دباؤ میں ہے اور سیاسی اختلافات کو دبایا جاتا ہے۔‘

علیوف پہلی بار 2003 میں اپنے والد حیدر علیوف کے انتقال کے بعد اقتدار میں آئے تھے۔ ان کا خاندان 1993 میں آذربائیجان کی سوویت یونین سے آزادی کے بعد اقتدار میں آیا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ حالیہ مہینوں میں حکام نے آزاد میڈیا پر دباؤ بڑھایا ہے اور کچھ صحافیوں کو قید کیا ہے۔

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان، یوکرین کے صدر ولادی میر زیلنسکی، چین کے صدر شی جن پنگ اور ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے علیوف کو ان کی کامیابی پر مبارک باد دی ہے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا