میں نے اقتدار کی شیئرنگ کا فارمولا ٹھکرا دیا: بلاول بھٹو زرداری

’مجھے بتایا گیا کہ پہلے ہمیں تین سال کے لیے وزیر اعظم بننے دیں اور پھر آپ باقی دو سال کے لیے وزارت عظمیٰ لے سکتے ہیں۔‘

پاکستان میں عام انتخابات 2024 کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کی لائیو اپ ڈیٹس۔


18 فروری رات 11 بجکر 9 منٹ

پی ٹی آئی سے کوئی اتحاد نہیں ہوا: مولانا فضل الرحمٰن 

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ تحریک انصاف سے حکومت سازی کے لیے اتحاد ہوا نہ مستقبل قریب میں مشترکہ جدوجہد کا امکان نظر آتا ہے۔

پرائیویٹ ٹی وی چینل ’جیو نیوز‘ کے پروگرام ’جرگہ‘ میں سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت اور پی ٹی آئی کے درمیان ’پہاڑ‘حائل ہے، جسے عبور کرنا آسان نہیں ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کو سیٹیں ملنے اور انتخابی دھاندلی پر پر ان کی جماعت کے تحفظات موجود ہیں۔

انہوں نے کہا: ’سیاسی لوگ مذاکرات اور مسئلے کے حل سے انکار نہیں کرتے۔‘

جمعیت کے سربراہ سربراہ نے واضح کیا کہ پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ کسی قسم کا اتحاد ہوا نہ فوری طور پر کوئی مشترکہ جدوجہد کے امکانات نظر آتے ہیں۔

پی ٹی آئی کے وفد کا ان سے ملاقات سے متعلق مولونا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ پشتون ثقافت میں مہمانوں کو واپس نہیں بھیجا جاتا ۔

’یہ پہلا موقع نہیں کہ پی ٹی آئی کے لوگ آئے۔ وہ پہلے بھی آ چکے ہیں۔ ہم نے انہیں ہمیشہ عزت دی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ایک ’ثقافت‘ نے ترقی کی ہے جہاں دو فریقوں کے درمیان ملاقاتوں کو خود بخود ’اتحاد‘ کہا جاتا ہے۔


18 فروری دن 8 بجکر 55 منٹ

افسر دھمکیوں سے مت گھبرائیں: مریم نواز

پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے پاکستان مسلم لیگ ن کی نامزد امیدوار مریم نواز نے کہا ہے کہ ’بیوروکریسی کو قانون شکنی پر اکسانے والوں سے قانون کے مطابق نمٹیں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’بیوروکریسی کو دھمکیوں کا مطلب ریاستی نظام میں انتشار پیدا کرنا ہے جس کی کھلی چھوٹ تباہی کو دعوت دینا ہے۔‘

’افسران گھبرائیں نہ دھمکیوں سے مرعوب ہوں، قانون کے مطابق اپنے فرائض انجام دیں۔‘

مریم نواز نے مزید کہا کہ ’افسران کی سلامتی کو خطرے میں ڈالا گیا تو آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا، افسران کی سکیورٹی یقینی بنائیں گے۔‘


18 فروری دن 7 بجکر 45 منٹ

میں نے اقتدار کی شیئرنگ کا فارمولا ٹھکرا دیا: بلاول بھٹو زرداری

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ انہیں اقتدار کی شیئرنگ کا فارمولا آفر ہوا تھا۔

اتوار کو ٹھٹھہ میں جلسے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’مجھے بتایا گیا کہ پہلے ہمیں تین سال کے لیے وزیر اعظم بننے دیں اور پھر آپ باقی دو سال کے لیے وزارت عظمیٰ لے سکتے ہیں۔‘

’میں نے انکار کر دیا۔ میں نے کہا کہ میں اس طرح وزیر اعظم نہیں بننا چاہتا۔ مجھے پاکستان کے عوام وزیر اعظم بنائیں گے۔‘

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل کی کہ وہ نظام کے اندر رہیں اور ملک کی بہتری کے لیے کام کریں۔

بلاول بھٹو کے مطابق: ’لیکن اگر ہم اس طرح آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور نفرت اور تقسیم کی سیاست کرنا چاہتے ہیں، اس میں کوئی آپ کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کوئی اور آپ کو نسلی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوشش کرے گا اور کوئی اور فرقہ واریت کے ذریعے تقسیم کرنے کی کوشش کرے گا۔‘

بلاول بھٹو نے پیر پگاڑا اور مولانا فضل الرحمان کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے تمام فارم 45 لائیں اور اگر غلطی ثابت ہو گئی تو وہ اگلے ہی روز ان کے خلاف الیکشن لڑیں گے۔

’میں نے دو نشستیں جیتی ہیں اور میں ایک نشست چھوڑ دوں گا جس پر ضمنی الیکشن ہو گا۔ کیا آپ اس سیٹ پر ہمارے خلاف الیکشن لڑیں گے؟ دیکھتے ہیں آپ میں کتنا دم ہے۔‘

بلاول بھٹو زرداری نے مزید کہا کہ ان کی پارٹی نے ملک بھر سے جیالوں کی انتخابی شکایات جمع کرنے اور انہیں مناسب فورمز پر اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار کو پیپلز پارٹی کے رہنما کے خلاف جتوایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے پاس تمام فارم 45 بھی موجود ہیں اور وہ مناسب فورم سے رجوع کریں گے لیکن ‘اپنا گھر نہیں جلائیں گے یا ملک کو تقسیم نہیں کریں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ ملک کو ایک ایسی سیاسی جماعت کی ضرورت ہے جو عوام کے مسائل پر بات کرے، بڑھتے ہوئے معاشی اور سیاسی بحران نے معاشرے کو تقسیم کر دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سیاست دانوں اور تمام سیاسی جماعتوں کو ذاتی مفاد پر توجہ دینے کی  بجائے اس ملک کے عوام کے بارے میں سوچنا چاہیے۔


18 فروری دن 7 بجکر 40 منٹ
پاکستان واحد ملک جہاں حکومت پہلے بنتی ہے الیکشن بعد میں ہوتے ہیں: سراج الحق

18 فروری دن 5 بجکر 35 منٹ

کے پی میں قومی اسمبلی کی 36 نشستوں پر کامیاب امیدواروں کا نوٹیفکیشن جاری

الیکشن کمیشن نے اتوار کو خیبرپختونخوا میں قومی اسمبلی کی 36 نشستوں پر کامیاب ہونے والوں کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔

سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی کے مطابق الیکشن کمیشن نے ایک نوٹیفکیشن میں قومی اسمبلی میں آنے والے امیدواروں سے کہا ہے کہ وہ اگلے تین دن کے اندر اپنی پسند کی سیاسی جماعت سے الحاق کر لیں۔

الیکشن کمیشن کے مطابق انتخابات میں کامیاب ہونے والوں میں این اے فور اپر دیر سے صبغت اللہ، این اے 10 بونیر سے گوہر علی خان اور این اے 18 ہری پور سے عمر ایوب شامل ہیں۔

نوٹیفکیشن میں این اے 19 صوابی سے اسد قیصر کی کامیابی اور این اے 30 پشاور سے شاندانہ گلزار کی کامیابی کی تصدیق کی گئی۔ این اے 35 کوہاٹ سے شہریار آفریدی نے کامیابی حاصل کی جبکہ این اے 41 لکی مروت سے شیر افضل مروت نے کامیابی حاصل کی۔

مزید برآں، نوٹیفکیشن میں خیبر پختونخوا (کے پی) میں پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم ڈبلیو ایم کے ایک، ایک رکن کی کامیابی کا بھی بتایا گیا۔

واضح رہے کہ صوبے میں قومی اسمبلی کی مجموعی 45 نشستیں ہیں جن میں خواتین کے لیے 10 مخصوص نشستیں بھی شامل ہیں۔


18 فروری دن 4 بجکر 30 منٹ

کشمنر راولپنڈی کے الزامات: پی ٹی آئی کا تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کا مطالبہ

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے سابق کمشنر راولپنڈی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں گوہر خان کا کہنا تھا کہ ’پہلی بار ایسا ہوا کہ ایک کمشنر نے اپنے ضمیر کے مطابق پریس کانفرنس کی۔ ان کے الزامات پر جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے اور انکوائری کی جائے جس کے نتائج عام کیے جائیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات سے قبل پارٹی کو بہت سی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن ووٹرز نے عمران خان کے حق میں ووٹ ڈالا۔

گوہر خان نے دعویٰ کیا کہ ’تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کی 180 نشستیں حاصل کیں۔ پارٹی نے خیبر پختونخوا میں 42، پنجاب میں 115، سندھ میں 16 اور بلوچستان میں چار نشستیں لیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ تحریک انصاف کو بلوچستان میں چار کی بجائے ایک نشست دی گئی جب کہ سندھ میں ایک بھی نشست نہیں دی گئی، پنجاب میں پی ٹی آئی کی تقریباً 50 نشستیں ہیں۔

’پنجاب میں تحریک انصاف کی فتح کا محدود کی گئی، سندھ میں ختم اور بلوچستان میں کمزور کی گئی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ عام انتخابات کے عبوری نتائج میں تاخیر کی گئی۔

اس موقعے پر وزارت عظمیٰ کے لیے پی ٹی آئی کے نامزد امیدوار عمر ایوب خان نے کہا کہ ان کی جماعت مرکز اور صوبوں میں حکومت بنائے گی۔

 انہوں نے کہا کہ گذشتہ چند ماہ سے پارٹی کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جا رہا ہے۔ ’اب بھی پولیس ہمارے کارکنوں اور رہنماؤں کو اٹھا رہی ہے اور ان پر دباؤ ڈال رہی ہے۔ یہ کسی نگران سیٹ اپ کا کام نہیں۔ انہوں نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا۔‘

عمر ایوب خان نے بھی کشمنر راولپنڈی کے الزامات کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ آزاد جج انکوائری کریں، راولپنڈی کمشنر نے جن لوگوں کا نام لیا انہیں اس انکوائری میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا چونکہ کمشنر نے چیف جسٹس کا نام لیا ہے لہٰذا پارٹی درخواست کرے گی کہ وہ بینچ کا حصہ نہ بنیں۔

عمر ایوب نے اپنی پارٹی کے خلاف دھاندلی کو ’تمام دھاندلیوں کی ماں‘ قرار دیتے ہوئے اس کی سخت مذمت کی۔

’میں بتانا چاہتا ہوں کہ کراچی میں ہماری 18 سے 19 نشستیں ایم کیو ایم پاکستان نے چوری کیں۔ دھاندلی اسی طرح ہوئی جس طرح چٹھہ نے کل تسلیم کی تھی۔‘

عمر ایوب خان نے سیاسی جماعتوں پر زور دیا کہ وہ عوام کے مینڈیٹ کو تسلیم کریں۔ ’یہ جماعتیں جو 40 سیٹیں بھی نہیں جیت سکیں، انہیں اور ہر کسی کو یہ سننے کی ضرورت ہے کہ عوام کیا کہہ رہے ہیں، یعنی انہوں نے عمران خان کو وزیر اعظم کے طور پر قبول کیا ہے اور وہ ایک بہتر پاکستان چاہتے ہیں۔‘

انہوں نے یہ بھی کہا کہ تین کروڑ عوام نے پی ٹی آئی اور عمران خان کو ووٹ دیا کیونکہ وہی پاکستان کو اس بحران سے نکالنے اور اسے صحیح راستے پر لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔


18 فروری دن 2 بجکر 30 منٹ

سکہ نوازشریف کا ہی چلے گا: خواجہ آصف

مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف نے کہا ہے کہ وزارت عظمیٰ نہ لینے کا فیصلہ نوازشریف کا اپنا ہے تاہم سکہ پھر بھی انہیں کا چلے گا۔

سیالکوٹ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ن لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ ’سارے فیصلے اور ہدایات نوازشریف کی طرف سے آتے ہیں۔ وزارت عظمیٰ نہ لینے کی اہم وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ چونکہ سینٹر میں ایک بار پھر اتحادی حکومت کی طرف جا رہے ہیں تو میاں شہبازشریف کو اس حکومت کے ساتھ ڈیل کرنے کا تجربہ ہے تو اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔‘

انہوں نے کہا، ’مریم نواز وزیراعلیٰ ہوں گی اور قیادت نوازشریف ہی کرں گے، سکہ انہیں کا ہی چلے گا۔ پنجاب میں ن لیگ کو اچھی اکثریت ملی ہے، وہاں ن لیگ حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے اور وہاں حکومت سازی کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ جہاں تک سینٹر کا تعلق ہے تو، کہا رہا ہے کہ کل شام پیشرفت ہوئی ہے، لیکن مجھے اس کا  علم  نہیں۔‘

فضل الرحمٰن کے ساتھ  تعلقات کے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا، ’دوریاں پیدا نہیں ہوئیں، ان کے ساتھ آج بھی اچھا قابل احترام تعلق ہے۔ انہوں نے کے پی کی صورت حال کے تحت  پی ٹی آئی کے ساتھ تعاون کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے، میں صرف یہ کہوں گا کہ اگر وہاں پر دھاندلی ہوئی ہے تو جن کو دھاندلی کا فائدہ ہوا ہے، ان کے ساتھ اتحاد کرنا یا ان کے ساتھ مل کر احتجاج کرنا میرے سمجھ میں نہیں آ رہا۔‘

دھاندلی کے الزامات کے متعلق سوال کے جواب میں خواجہ آصف نے کہا کہ ’وہ آج تک اپنی کسی بات پر کھڑے نہیں رہے، یہی ان کی سیاست کا وطیرہ ہے، اس میں کوئی اصول نظر نہیں آتا، ،پی ٹی آئی نے سرکاری ملازمین اور ان کے اہل خانہ کی تصاویر سوشل میڈیا پر چڑھائی ہیں اور عوام کو اکسایا جارہا ہے کہ آپ ان کو فیزیکلی ٹارگٹ کریں، یہ ایک برا رحجان ہوگا اور ہمارے معاشرے میں تشدد کا ایک نیا عنصر متعارف ہوجائے گا، میں اس کی مذمت کرتا ہوں۔‘

ن لیگی رہنما کا کہنا تھا، ’اگر ہم نے تشدد کی طرف راہ اختیار کی تو اس ملک کا کچھ نہیں بچے گا، یہ ملک باہمی گفت وشنید اور صحت مند سیاسی ارینجمنٹ کے ساتھ بچ سکتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت سب سے اہم یہ ہے کہ سایسی برادری کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ جب تک سیاسی استحکام نہپں آئے گا اس وقت تک معاشی استحکام ایک خواب ہی رہے گا اور عوام کے معاشی حالات اسی طرح ابتری کا شکار رہیں گے۔

پیپلزپارٹی کے کابینہ میں نہ بیٹھنے کے فیصلے پر سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’یہ باتیں میرے سننے میں بھی آئی ہیں، اس قسم کے پرپوزل ڈسکس ہوئے ہیں لیکن میرا نہیں خیال کہ اس پر ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ ہوا ہے۔‘


18 فروری دن 12 بجکر 55 منٹ

انتخابی نتائج کے خلاف بلوچستان میں شٹر ڈاؤن ہڑتال، سڑکیں بند

عام انتخابات 2024 کے نتائج کے خلاف بلوچستان میں آج چار جماعتی اتحاد کی اپیل پر شٹر ڈاؤن ہڑتال کی جا رہی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار اعظم الفت کے مطابق بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی)، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کی میپ)، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی (ایچ ڈی پی) اور نیشنل پارٹی کی طرف سے الیکشن نتائج پر تحفظات پر کوئٹہ میں نو روز کے مسلسل احتجاج کے بعد گذشتہ روز ہڑتال کی کال دی گئی تھی۔

ان چار قوم پرست جماعتوں کا مشترکہ احتجاج ڈی سی کوئٹہ اور کمشنر کے دفاتر کے باہر نو فروری سے جاری ہے۔

ان جماعتوں کی ہڑتال کی اپیل پر کراچی کوئٹہ چمن قومی شاہراہ مستونگ اور بلیلی کوئٹہ سے بند کر دی گئی ہے جبکہ مکران کوسٹل ہائی وے بھی گوادر سربند کے مقام سے ہر طرح کی ٹریفک کے لیے مکمل بند ہے۔

 کوئٹہ جیکب آباد بلوچستان سندھ قومی شاہراہ پر بھی احتجاجی مظاہرے کی وجہ سے ٹریفک روانی مکمل طور پر بند ہے اور ڈیرہ مراد جمالی اور ڈیرہ الہ یار میں دور دور تک گاڑیوں کی طویل قطاریں لگ گئی ہیں۔

کوئٹہ میں نو روزکے احتجاج اور دھرنے کے بعد چار جماعتی اتحاد کی مرکزی قیادت سردار اختر جان مینگل، محمود خان اچکزئی اور ڈاکٹر عبدل مالک بلوچ کی طرف سے اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے احتجاج کے دائرہ کار کو بڑھانے اور قومی شاہراہوں کو بلاک کرنے کا اعلان مشترکہ طور پر کوئٹہ گرینڈ اجتماع میں گذشتہ روز سامنے آیا تھا۔

دوسری جانب نگران وزیراطلاعات بلوچستان جان اچکزئی کا کہنا ہے کہ ’الیکشن 2024 میں بلوچستان کے ووٹرز نے نسل پرستی، قوم پرستی کی سرداروں اور نوابوں کی سیاست کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ ووٹ نہ دینے کی سزا پورے صوبے کو دی جا رہی ہے۔‘

دوسری جانب بلوچستان میں سڑکیں بند ہونے کی وجہ سے پاکستان ایران تجارت بھی متاثر ہو رہی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار عامر باجوئی کے مطابق گوادر سے کوسٹل ہائی بھی بند ہو چکی ہے جبکہ چاغی سے پاک ایران شاہراہ بھی بند ہے۔ اس کے علاوہ کوئٹہ، خضدار اور کوئٹہ کراچی شاہراہ بھی بند ہے جبکہ سبی سے سندھ آنے والی شاہراہ کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔


18 فروری صبح 12 بجکر 5 منٹ

کمشنر راولپنڈی کے بیان کے بعد خطرناک مہم شروع ہوئی: رہنما مسلم لیگ ن

پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما ملک احمد خان کا کہنا ہے کہ جو صورت حال کل پیدا ہوئی اس کے بعد بڑی خوفناک مہم شروع ہوئی کہ مختلف ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران اور ان کے اہل خانہ  کی تصاویر لگا کر اس طرح سے پیش کی جا رہی ہیں کہ ان کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہو جائے اور اس طرح سے کیا جا رہا ہے جیسے نو مئی 2023 کو کیا گیا تھا۔ یہ لوگ اپنے انتشاری رویے سے بالکل باز نہیں آ رہے۔

کسی جماعت کا نام لیے بغیر ان کا کہنا تھا کہ 2013 کے الیکشن کے بعد بھی شور مچایا گیا تھا کہ کسی لیگل پروسیجر کی ضرورت نہیں ہے بس آپ صرف چار حلقے کھول دیں، اس وقت بھی جب 35 پنکچر کی بات کی جاتی تھی ایک کردار تھے افضل خان، جو الیکشن کمیشن سے تھے ان سے بھی ایک فبریکیٹڈ، مکمل جھوٹی کہانی منسوب ہوئی تھی۔

ملک محمد خان کا کہنا تھا کہ اس سے کافی حد تک واضح ہو گیا ہے کہ جب کسی بندے کے پاس پورے پراسس میں کوئی اختیار نہیں ہے، جن کے پاس کسی چیز پر دسترس نہیں ہے۔

انہوں نے کہا ایک سرکاری ملازم کو اور اس کی زندگی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں، آپ کہہ رہے ہیں کہ سیاسی پارٹی کے کچھ کارکنان، باہر نکلیں اور ان کے گھروں اور دفاتر پر حملے کریں۔

رہنما مسلم لیگ ن کا کہنا تھا کہ ’اس صوبے کی حکومت سے کہتا ہوں کہ اس پر ایکشن لے، اگر کارروائی نہ کی گئی تو یہ چاہتے ہیں کہ سرکاری ملازمین کی سیفٹی اور زندگی کو خطرے میں ڈال دیا جائے۔ میں حکومت وقت سے کہتا ہوں کہ آپ کو انتظار کس بات کا ہے۔


18 فروری صبح 9 بجکر 50 منٹ

پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کی ایک بڑی تعداد ہفتے کی شب اور اتوار کی صبح سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس تک رسائی حاصل نہیں کر پا رہی ہے جبکہ متعلقہ نگران ادارے نے اس بارے میں تاحال کوئی وجہ بیان نہیں کی ہے۔

لندن میں قائم سائبر سکیورٹی اور انٹرنیٹ گورننس واچ ڈاگ تنظیم نے ’قومی سطح پر‘ رکاوٹ کی تصدیق کی ہے۔

اگرچہ یہ تا حال واضح نہیں ہے کہ اس صورت حال کی وجہ کیا ہے لیکن پاکستان میں زیادہ تر سیاسی بدامنی اور انتخابات کے دوران سوشل میڈیا کی بندش کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔

انٹرنیٹ پر نظر رکھنے والے ادارے نیٹ بلاکس کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قومی سطح پر رکاوٹ ہے۔

ماضی میں، فیس بک، انسٹاگرام اور یوٹیوب جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو بھی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

پاکستان میں ڈیجیٹل ایکٹوسٹس نے اس طرح کی پیش رفت پر اعتراض کیا ہے اور اظہار رائے کی آزادی، معلومات تک رسائی اور شہری آزادیوں پر وسیع اثرات کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا ہے۔

پاکستان میں مواصلاتی رابطوں کے نگراں ادارے پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی  (پی ٹی اے) نے تاحال اس معاملے پر کوئی بیان نہیں دیا ہے نہ ہی ایکس کی بندش کی وجوجات بیان کی ہیں۔

اس سے قبل 22 جنوری 2024 کو ایک کانفرنس کے دوران پاکستان میں انٹرنیٹ کی بندش کے حوالے سے کیے جانے والے سوال پر نگران وفاقی وزیراطلاعات کا کہنا تھا کہ ’ملک میں انٹرنیٹ بند ہونے کی وجہ تکنیکی تھی اور اس بات کی ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ مستقبل میں ایسا کوئی رخنہ نہیں آئے گا۔‘

اس نیوز کنفرنس میں ان کے ساتھ موجود پی ٹی اے کے نمائندے کا کہنا تھا کہ ’سوشل میڈیا پر شیئر مواد کے باعث مستقبل میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پی ٹی اے کے پاس ایسے مواد کو بلاک کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔

’شوشل میڈیا کمپنیوں کے ساتھ ہر تین اور چھ ماہ کے درمیان ملاقات ہوتی ہے۔‘

نیوز کانفرنس میں ایف آئی اے کے نمائندے کا کہنا تھا کہ کسی کو ملکی سلامتی داؤ پر لگانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ سائبر کرائم ونگ پوری طرح چوکنا ہے۔ ایسی مہم میں ملوث اکاؤنٹس کی نگرانی کی جا رہی ہے۔ ملکی سلامتی کے خلاف کام کرنے والے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے خلاف تادیبی کارروائی کی جا رہی ہے۔


18 فروری صبح 8 بجکر 32 منٹ

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان نے کمشنر راولپنڈی کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے اعترافی بیان کے بعد شفاف تحقیقات اور عوامی مینڈیٹ پر کھلے ڈاکے میں ملوث افراد کے خلاف عدالتی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر ان کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’کمشنر راولپنڈی کا بیان ثابت کرتا ہے کہ راولپنڈی ڈویژن میں تحریک انصاف کو قومی اسمبلی کی کم ازکم 13 نشستوں سے محروم کیا گیا۔‘

ہفتے کو کمشنر راولپنڈی نے انتخابی نتائج سےچھیڑ چھاڑ کرنے کا اعترافی بیان دیا تھا جس میں انہوں نے دھندلی تسلیم کرتے ہوئے مستعفٰی ہونے کا اعلان کیا تھا۔

پی ٹی آئی کے بانی عمران خان ان دنوں اڈیالہ جیل میں قید ہیں اور انہیں توشہ خانہ، امریکی سائفر اور عدت کے دوران نکاح کرنے جیسے مقدمات میں سزا ہو چکی ہے جن کے خلاف پی ٹی آئی اپیلیں کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ بظاہر عمران خان کا یہ بیان ان کے ایکس اکاؤنٹ پر کسی اور نے پوسٹ کیا ہے۔

ایکس پر اپنے بیان میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ’کمشنر راولپنڈی کا بیان ملک بھر میں انتخابی نظام کے ساتھ کی جانے والی نہایت منظّم چھیڑ چھاڑ کی ایک ہوشربا روداد ہے۔ دھوکہ دہی سےعوام کو ان کے جائز مینڈیٹ سے محروم کیا گیا ہے۔‘

اپنے بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ملک کی ساکھ، اس کی بہتری اور سیاسی و معاشی استحکام کے لیے اپنے طرزِ عمل کا جائزہ لیا جائے اور وقت آگیا ہے کہ اپنا قبلہ درست کرتے ہوئے فارم 45 کی روشنی میں نتائج جاری کرتے ہوئے عوام کی منشا کا احترام کیا جائے۔

’پاکستان تحریک انصاف شفاف تحقیقات اور عوامی مینڈیٹ پر کھلے ڈاکے میں ملوث افراد کے خلاف مؤثر اور بامعنی عدالتی کارروائی کابھی مطالبہ کرتی ہے۔‘


17 فروری رات نو بجکر 14

پی ٹی آئی بانی اقتدار میں واپس آکر بدلہ نہیں لیں گے: علی محمد خان

پی ٹی آئی کے رہنما علی محمد خان نے ہفتے کو کہا کہ ان کی پارٹی رہنماؤں سمیت سابق وزیر اعظم عمران خان  سے ملاقات ہوئی۔

میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے عمران خان کا پیغام پہنچاتے ہوئے کہا: ’ہم ملک کو سیاسی مفاہمت کی طرف لے کر جائیں گے اور سیاسی انتقام نہیں لیں گے۔‘

علی محمد خان نے کہا کہ عمران خان نے ہدایات دی ہیں کہ جلد از جلد انٹرا پارٹی الیکشن کرائے جائیں۔

پاکستان میں عام انتخابات 2024 میں مبینہ دھاندلی کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کے زیرانتظام ملک بھر میں آج احتجاج کیا جا رہا ہے۔

اس احتجاج کا اعلان پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شیر افضل مروت نے گذشتہ روز اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران کیا تھا۔

پاکستان تحریک انصاف نے اس نیوز کانفرنس کا اہتمام بین الاقوامی میڈیا نمائندگان کے لیے کیا تھا، جنہیں عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے ’شواہد‘ دکھائے گئے۔

گذشتہ روز ہی پاکستان تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سربراہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کیا۔

پاکستان میں آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں کسی سیاسی جماعت کو واضح اکثریت نہیں ملی لیکن جیل میں قید سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے 264 میں سے 93 نشستیں حاصل کیں، جو پارلیمنٹ میں کسی بھی جماعت کی نشستوں سے زیادہ ہیں۔

بعدازاں چھ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے اتحادی حکومت بنانے پر اتفاق کیا اور مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار نامزد کیا گیا جبکہ پاکستان تحریک انصاف اپنا انتخابی نشان چھن جانے کے بعد سے مختلف آئینی و قانونی مسائل میں گھری ہوئی ہے۔

انتخابی نتائج میں تاخیر کے باعث پی ٹی آئی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے دھاندلی کے الزامات بھی سامنے آئے ہیں اور اس سلسلے میں احتجاج کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

17 فروری رات آٹھ بجکر 54

ن لیگ اور پی پی پی کا ’ایک مضبوط جمہوری حکومت‘ پر اتفاق

پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی کوآرڈینیشن کمیٹی نے ہفتے کو کہا کہ دونوں سیاسی جماعتوں میں اتفاق ہوا ہے کہ ایک مضبوط جمہوری حکومت ہی مستحکم پاکستان کی ضمانت ہے۔

مسلم لیگ ن کے اعلامیے کے مطابق جماعت کی نمائندگی سینیٹر اسحاق ڈار، سردار ایاز صادق، سینیٹر اعظم نذیر تارڑ اور ملک محمد احمد خان نے کی۔ جبکہ پیپلز پارٹی وفد سید مراد علی شاہ، قمر زمان کائرہ، سعید غنی، ندیم افضل چن، نواب ثنا اللہ زہری، شجاع خان اور سردار بہادر خان سیہڑ پر مشتمل تھا۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ دونوں فریقین نے معاملات کو حتمی شکل دینے کے لیے مزید سفارشات کے لیے پیر دوبارہ اجلاس رکھنے کا فیصلہ کیا۔


17 فروری شام سات بجکر 54

احتجاج بنیادی حق ہے لیکن تشدد پر اکسانے والوں کو معاف نہیں کیا جائے گا: نگران وزیر اعظم
پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ پرامن احتجاج اور اجتماع بنیادی حقوق ہیں لیکن کسی قسم کے تشدد میں ملوث افراد یا اس پر اکسانے والوں کو معاف نہیں کیا جائے گا۔

ہفتے کو ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ تشدد کرنے والوں کے خلاف قانون اپنا راستہ اختیار کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’عدالتیں اور انتظامیہ سب کو انصاف فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ پاکستان کی قانون سازی، عدالتیں اور انتظامی شاخیں لچکدار ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں انتخابات جمہوریت کے فروغ میں ایک قدم ہیں۔ الیکشن میں نمایاں ٹرن آؤٹ کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا گیا۔


17 فروری شام چھ بجکر 58

پرویز خٹک پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز کی چیئرمین شپ اور رکنیت  سے مستعفی

پی ٹی آئی رہنما پرویز خٹک نے ہفتے کو پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز کی چیئرمین شپ اور رکنیت سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔

سابق وفاقی وزیر اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے ایک خط کے ذریعے اپنا استعفیٰ پیش کیا جس میں انہوں نے کہا کہ صحت کے سنگین مسائل کے باعث وہ سیاسی کام کرنے سے قاصر ہیں اور ذمہ داریوں سے دستبردار ہو رہے ہیں۔


17 فروری شام چھ بجکر 40

آر اوز اٹھ کھڑے ہوں، ہم ساتھ دیں گے: علی امین گنڈاپور

پی ٹی آئی رہنما علی امین گنڈاپور نے کہا کہ آر اوز اٹھ کھڑے ہوں اور حق کا ساتھ دیں جبکہ وہ ان کا ساتھ دیں گے۔

انہوں نے پشاور میں احتجاجی جلسے سے خطاب میں کہا کہ ’آج روالپنڈی کمشنر نے دھاندلی کا اعتراف کر کے مثال قائم کی۔ جو عوام چاہتی ہے اس کو حکومت دی جائے۔‘

انہوں نے کہا جو آر او اس جرم میں شریک ہے اس کے لیے اصلاح کا وقت ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ فارم 45 کے مطابق تمام نتائج درست کیے جائیں۔


17 فروری شام پانچ بجکر 55

احتجاج کے دوران کسی کو گرفتار نہیں کیا: اسلام آباد پولیس

اسلام آباد پولیس نے ایکس پر ایک پیغام میں کہا کہ ’سیاسی جماعت کے احتجاج کے دوران کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا۔‘


17 فروری شام چار بجکر 35

سلمان اکرم راجہ سمیت حراست میں لیے گئے مظاہرین رہا: عامر میر

پنجاب وزیر اطلاعات عامر میر نے ہفتے کو ایکس پر ایک پیغام میں کہا کہ پی ٹی آئی رہنما سلمان اکرم راجہ اور دیگر کارکنان کو حراست میں لینے کے بعد رہا کر دیا گیا ہے۔


17 فروری شام چار بجکر 10

پولیس ہو نہ ہو، بانی چیئرمین کا حکم ہے احتجاج ہوگا: حماد اظہر

تحریک انصاف کے رہنما حماد اظہر نے ہفتے کو کہا کہ کارکنان احتجاج کے لیے دیے گئے مقامات پر پہنچیں۔ ’پولیس ہو یا نا ہو، آج بانی چیئرمین کا حکم ہے کہ احتجاج ہو گا۔‘


17 فروری دوپہر تین بجکر 15

لاہور سے سلمان اکرم راجہ گرفتار

پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے مبینہ دھاندلی کے معاملے پر ملک گیر احتجاج کے دوران لاہور سے پی ٹی آی رہنما سلمان اکرم راجہ کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

نامہ نگار ارشد چوہدری کے مطابق پولیس نے سلمان اکرم راجہ کو پی ٹی آئی جیل روڈ آفس کے باہر سے حراست میں لے لیا۔

پی ٹی آئی میڈیا سیل کی جانب سے جاری ویڈیو میں سلمان اکرم راجہ کو پولیس حراست میں لے رہی ہے جس دوران وہ کہتے ہیں: ’یہ مجھے غیر قانونی طور پر گرفتار کر کے لے جا رہے ہیں، میں عوام کے ساتھ ہوں، ہم حق کی آّواز بلند کرتے رہیں گے۔‘

پولیس حکام کے مطابق انتخابی دھاندلی کے احتجاج کا اجتماع کرنے پر دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر گرفتاری عمل میں لائی گئی۔


17 فروری دوپہر 12 بجکر 45

پی ٹی آئی نے نے تاحال احتجاج کے لیے کوئی درخواست نہیں دی: اسلام آباد پولیس

اسلام آباد پولیس نے جمعے کو پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج کے حوالے سے ایک بیان میں کہا کہ ’تحریک انصاف نے تاحال احتجاج کے لیے کوئی درخواست نہیں دی۔‘

پولیس کے مطابق: ’انتہائی سکیورٹی زون کے اندر کسی ریلی یا جلوس کی اجازت نہیں ہو گی اور سڑک بند کرنے اور غیر قانونی اجتماع کی صورت میں قانونی کارروائی کی جائے گی۔‘

پولیس نے یہ بھی بتایا کہ شہر میں ناکہ بندی اور چیکنگ سخت کر دی گئی ہے جبکہ ہفتے کو ممکنہ احتجاج کے حوالے سے مزید نفری طلب کر لی گئی ہے۔


17 فروری صبح نو بجکر 30

انتخابی نتائج کے خلاف کوئٹہ میں چار جماعتی اتحاد کا دھرنا نویں روز بھی جاری

عام انتخابات 2024 کے نتائج کے خلاف چار جماعتی اتحاد کا دھرنا کوئٹہ میں آر او اور ڈی آر او آفس کے سامنے آج نویں روز بھی جاری ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار اعظم الفت کے مطابق آج اس احتجاجی دھرنے سے چار جماعتی اتحاد کے قائدین خطاب کریں گے۔

انتخابی نتائج کے خلاف بننے والے بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں پر مشتمل اس چار جماعتی اتحاد میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے صدر سردار اختر مینگل، پشتونخواملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمودخان اچکزئی، نیشنل پارٹی کے صدر ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے صدر عبدالخالق ہزارہ نو روز سے جاری دھرنے سے خطاب کریں گے۔

بلوچستان کی ان قوم پرست جماعتوں کا مطالبہ ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان فارم 45 مطابق انتخابات کے شفاف نتائج کا اعلان کرے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست