اسلام آباد ہائی کورٹ میں بلوچ طلبہ کی بازیابی کے مقدمے میں نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کو آئندہ سماعت پر دوبارہ طلب کر لیا گیا ہے۔
پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ’آئندہ سماعت پر نگران وزیر اعظم حاضری یقینی بنائیں، نگران وزیراعظم عدالت آنے کو اپنی توہین نہ سمجھیں۔‘
جسٹس محسن اختر کیانی نے پیر کو مقدمے کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان عدالت میں پیش ہوئے تو جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ’اپنے ملک کے شہریوں کو بازیاب کرنے کے لیے دو سال لگے، ان کے خلاف لڑائی جھگڑے، منشیات سمیت کسی قسم کا کوئی کیس نہیں، لاپتہ افراد کے اور بھی حساس کیسز سنتے ہیں، 24 ماہ میں ابھی تک تمام بچوں کو بازیاب نہیں کر سکے، لاپتہ 12 طلبہ ابھی بھی بازیاب نہیں ہوئے؟‘
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ’میری معلومات کے مطابق آٹھ طلبہ ابھی بازیاب نہیں ہوئے۔‘
جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ ’نگراں وزرا، سیکریٹری دفاع ، سیکریٹری داخلہ کدھر ہیں؟ دوسری دفعہ وزیر اعظم نہیں آئے، سیکریٹری دفاع کیوں نہیں آئے؟‘
سیکریٹری داخلہ آفتاب درانی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ’نگران وزیراعظم سے پوچھ لیں، ان کو اس لیے بلایا تھا کیوں کہ وہ جوابدہ ہیں، یہاں کوئی قانون سے بالاتر نہیں، یا آپ ان افراد کے خلاف کریمنل کیسز کی تفصیل بتائیں، یا پھر ریاستی ادارے جبری گمشدگیوں کے ذمہ دار ہیں، یا پھر یہ لوگ خود بھاگ گئے یا کسی تیسرے نے انہیں اغوا کر لیا ہے لیکن اس صورت میں پھر ریاستی اداروں کی ناکامی ہے، ہر ماہ کی تاریخ ملا کر 24 تاریخیں ہو چکی ہیں، جو شہری بازیاب ہوئے ان کے خلاف کوئی کیس ریکارڈ پر نہیں، ان لاپتہ بچوں کی مائیں بہنیں ہوں گی وہ ڈھونڈ رہی ہوں گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جسٹس محسن اختر کیانی نے مزید کہا کہ ’اسلام آباد ایف سکس سے بغیر ایف آئی آر ایک شہری کو اٹھا لیے گئے، سیکریٹری دفاع، سیکریٹری داخلہ، ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی ایم آئی سرکاری ملازم ہیں، یہ سب افسران جواب دہ ہیں کوئی قانون سے بالاتر نہیں، تین حکومتیں ابھی تک لاپتہ بلوچ سٹوڈنٹس کی بازیابی کا کچھ نہیں کر سکیں، ابھی نگران حکومت ہے، اس سے پہلے 16 ماہ کی حکومت تھی، اس سے پہلے والی حکومت بھی مسنگ پرسنز کے ایشو پر کچھ نہ کر سکی۔‘
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’تینوں اداروں کے سربراہوں کی کمیٹی بنا کر ان سے رپورٹ مانگ لیتے ہیں، ہم کیوں وزیراعظم کو بلائیں؟ جن پر الزام ہے ان ہی اداروں کے لوگوں پر مشتمل کمیٹی بنا دیتے ہیں۔‘
اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ ’نئی حکومت آئے گی، انہیں پالیسی بنانے کا وقت دے دیں۔‘
جسٹس محسن اختر کیانی نے جواباً کہا کہ ’وہ کیا کہیں گے کہ کیا جبری گمشدگیاں ہونی چاہئیں؟ کچھ اداروں کو جو استثنا ملا ہوا ہے وہ نہیں ملنا چاہیے، ڈپٹی کمشنر اسلام آباد ایم پی او آرڈرز کو غلط استعمال کرتے رہے ہیں، اب عدالتی فیصلے کے بعد وہ توہین عدالت کیس کا سامنا کر رہے ہیں، جو کچھ ہو رہا ہے سارے نظام کو پتہ ہے جج کو بھی پتہ ہے لیکن سب خاموش ہیں، اگر ریاست کے ادارے یہ کریں گے تو چوروں اور ڈاکووں سے شہریوں کی حفاظت کون کرے گا؟‘
عدالت نے سیکریٹری داخلہ سے کہا کہ ’اپنے آئی جی کو بتا دیں کہ اسلام آباد میں کوئی اغوا ہوا تو ایف آئی آر آئی جی کے خلاف ہو گی، ساری دنیا دیکھ رہی ہے، یہاں تمام ممالک کے سفارت خانے ہیں، وہ دیکھ رہے ہوں گے کہ وہ کیسے دارالحکومت میں رہتے ہیں؟‘
وزیر اعظم ہوتے تو دیکھتے کہ یہاں کس طرح کام ہو رہے ہیں، سیکریٹری داخلہ آپ دیکھ لیں کسی دن اپنےگھر آنے والے کو کوئی مزاحمت میں آگے سے گولی مارے گا، آپ ڈریں اس وقت سے جب قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف کوئی اٹھ کھڑا ہو۔‘
عدالت نے کیس کی سماعت 28 فروری 2024 تک ملتوی کر دی۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔