عام انتخابات 2024 کے نتائج میں مبینہ دھاندلی کا الزام لگا کر سندھ میں مختلف جماعتوں اور با اثر سیاسی شخصیات کے انتخابی اتحاد گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) نے گذشتہ ہفتے جامشورو میں احتجاج کے بعد منگل کو مورو شہر کے قریب قومی شاہراہ پر بھی احتجاج کیا۔
حیدرآباد کے قریب جامشورو انٹر چینج کے مقام پر ایم نائن موٹروے پر 16 فروری کو ہونے والے احتجاج میں بھی بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی تھی، جس کے بعد منگل کو مورو کے قریب احتجاج کیا گیا۔
گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کب اور کیوں بنا؟
ایک گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) 1997 میں نواز شریف کی حکومت کی مخالفت میں مرحوم نصر اللہ خان نے بنایا تھا جب کہ سندھ میں بننے والا گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس حُروں کے روحانی پیشوا اور مسلم لیگ (فنکشنل) کے سربراہ پیر پگاڑا پیر صبغت اللہ شاہ راشدی نے 2018 کے الیکشن سے قبل سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کو شکست دینے کے لیے بنایا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سیاسی و انتخابی اتحاد میں مسلم لیگ (فنکشنل) کے علاوہ ایاز لطیف پلیجو کی قومی عوامی تحریک، سید زین شاہ کی سندھ یونائیٹڈ پارٹی (ایس یو پی) اور صفدر عباسی کی پاکستان پیپلز پارٹی (ورکرز) شامل ہیں۔
اس کے علاوہ جی ڈی اے میں وہ سیاسی شخصیات بھی شامل ہیں، جن کی کوئی سیاسی پارٹی نہیں بلکہ وہ اپنے اثر و رسوخ کے باعث اپنے علاقوں میں الیکشن لڑتے ہیں۔ ان میں سندھ کے دو سابق وزرائے اعلیٰ بشمول ارباب غلام رحیم اور لیاقت جتوئی بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اور ڈاکٹر فہمیدہ مرزا بھی اتحاد کا حصہ ہیں۔
2018 کے عام انتخابات کے دوران اس اتحاد کو پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان مسلم لیگ ق کی بھی حمایت حاصل رہی۔
عام انتخابات 2024 میں جی ڈی اے کے کتنے امیدواروں نے حصہ لیا؟
حالیہ عام انتخابات میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس نے ستارے کا انتخابی نشان لیا اور مختلف اضلاع میں اپنے امیدواروں کو نشان الاٹ کیے۔
انڈپینڈنٹ اردو کو ملنے والی دستاویز کے مطابق سندھ میں قومی اسمبلی کی کل 61 جنرل نشستوں میں سے جی ڈی اے کی جانب سے صرف 27 امیدوار کھڑے کیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ سندھ اسمبلی کی 130 جنرل نشستوں کے لیے جی ڈی اے کی جانب سے صرف 74 نشستوں پر امیدوار کھڑے کیے گئے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے عام انتخابات کے نتائج کے مطابق سندھ کی صوبائی اسمبلی کی 130 جنرل نشستوں میں سے جی ڈی اے صرف دو نشستیں جیت پائی جب کہ صوبے میں قومی اسمبلی کی کل 61 نشستوں پر انتخاب لڑنے والے جی ڈی اے کے تمام 27 امیدوار ہار گئے۔
جی ڈی اے تھرپارکر، سانگھڑ، بدین، لاڑکانہ اور میرپور خاص سمیت اپنے مضبوط حلقوں سے بھی کوئی سیٹ جیتنے میں ناکام رہی۔
جی ڈی اے کی بدترین شکست کی وجہ کیا بنی؟
ماضی میں سابق صدر آصف علی زرداری کے انتہائی قریب رہنے والے ساتھی اور سابق وزیر داخلہ سندھ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے 2011 میں ناراض ہو کر پاکستان پیپلز پارٹی اور آصف زرداری سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔
اس کے بعد ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے بدین سے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنا شروع کیا اور 2018 کے عام انتخابات سے قبل بننے والے جی ڈی اے میں آزاد حیثیت میں شمولیت اختیار کرلی۔
عام انتخابات 2024 میں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا، ان کی اہلیہ سابق سپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا، ان کے بیٹوں حسام مرزا اور حسنین مرزا کے کاغذات نامزدگی پر اعتراض کے باعث رد ہوگئے اور اپیل پر کاغذات کی بحالی میں وقت لگا۔
ذوالفقار مرزا کے بیٹے حسام مرزا کو تو جی ڈی اے کا انتخابی نشان ’ستارہ‘ الاٹ ہوگیا مگر کوششوں کے باوجود انہیں جی ڈی اے کا نشان نہ مل سکا اور وہ ستارے کے نشان پر الیکشن نہ لڑ سکیں۔ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا بھی اپنی انتخابی مہم میں سرگرم نظر نہیں آئے، جس کا بھرپور فائدہ پاکستان پیپلز پارٹی نے اٹھایا۔
سیاسی تجزیہ نگار اور سندھی زبان کے ٹی وی چینل ’آواز ٹی وی‘ کے اینکر پرسن فیاض نائچ کے مطابق مرزا خاندان نے 2015 میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے دوران زبردست کامیابی حاصل کی، مگر 2015 کے بعد ان کا گراف نیچے آتا گیا اور گذشتہ الیکشن کے دوران مرزا خاندان کے نامزد امیدوار پورے ضلعے میں بری طرح ہار گئے۔ یہ امیدوار ضلع بدین کی 10 ٹاؤن اور دو میونسپل کمیٹیاں کھو چکے تھے اور انہیں صرف دو وارڈز پر کامیابی ملی۔
اسی طرح سندھ کے صحرائی ضلعے تھرپارکر میں جی ڈی اے کے مضبوط امیدوار اور سابق وزیراعلیٰ سندھ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم کو بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار ڈاکٹر مہیش کمار ملانی نے مسلسل دوسری بار شکست دی۔
ڈاکٹر مہیش کمار ملانی نے 2018 کے الیکشن میں بھی ڈاکٹر ارباب غلام رحیم کو شکست دی تھی۔ اس حلقے میں پاکستان پیپلز پارٹی اور جی ڈی اے کے درمیان اچھا مقابلہ دیکھنے میں آیا ہے۔
ڈاکٹر ارباب غلام رحیم کو شکست دینے والے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار مہیش کمار ملانی مسلسل دوسری بار جنرل نشست پر جیتنے والے پاکستان کے پہلے اقلیتی رکن بن گئے۔
ضلع سانگھڑ تاریخی طور پر مسلم لیگ فنکشنل کا مضبوط سیاسی قلعہ تصور کیا جاتا رہا ہے، جہاں پیر پگاڑا کے مریدوں کی اکثریت ہے۔ عام انتخابات 2024 کے دوران این اے 209 سانگھڑ میں بھی جی ڈی اے کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اس حلقے سے جی ڈی اے کے مضبوط امیدوار محمد خان جونیجو کو شکست دے کر پاکستان پیپلز پارٹی کی امیدوار شازیہ مری نے کامیابی حاصل کی۔
لاڑکانہ میں جی ڈی اے کے مضبوط امیدوار معظم عباسی نے گذشتہ الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار جمیل سومرو کو شکست دی تھی، مگر عام انتخابات سے قبل حلقے میں ردوبدل کے باعث معظم عباسی کے ووٹر دو حلقوں میں بٹ گئے، اس لیے اس بار معظم عباسی بھی کامیاب نہ ہوسکے۔
اسی طرح سندھ میں قومی اسمبلی کی کُل 61 جنرل نشستوں میں سے جی ڈی اے کی جانب سے نامزد 27 امیدواروں میں سے کوئی بھی نہیں جیتا اور سندھ اسمبلی کی 130 جنرل نشستوں کے لیے جی ڈی اے کے نامزد 74 امیدواروں میں سے صرف دو امیدوار کامیاب ہوسکے۔
فیاض نائچ کے مطابق: ’جی ڈی اے کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ اکثریت غیر معروف شخصیات کو نامزد کرنا تھی، جن میں سے اکثریت کے پاس اپنا حلقہ ہی نہیں تھا۔ جی ڈی اے قیادت نے اس طرح اپنے امیدواروں کے لیے مہم نہیں چلائی، جس طرح بلاول بھٹو، آصفہ بھٹو، فریال تالپور اور آصف علی زرداری نے اپنے امیدواروں کی کامیابی کے لیے چلائی۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’یہ پہلا الیکشن نہیں جس میں جی ڈی اے کامیابی حاصل نہ کرسکا۔ جی ڈی اے کے اتحاد میں شامل جماعتوں یا شخصیات کو 2008، 2013 اور 2018 کے عام انتخابات میں بھی شکست ہوئی تھی۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔