مٹی کے برتنوں پر ڈیزائن بنانے کے فن کو زندہ رکھنے والی سندھی خواتین

سندھ کے ضلع تھرپارکر کے مرکزی شہر مٹھی میں کمہاروں کی چار بڑی کالونیاں واقع ہیں، جہاں مٹی کے برتن بنانے کا کام کرنے والے صرف ایک، دو گھرانے ہی باقی بچے ہیں۔

پاکستان کے صوبہ سندھ میں کمہار برادری سے تعلق رکھنے والے خاندان مٹی کے برتن بناتے ہیں اور ان کی خواتین انہی برتنوں پر چٹسالی یعنی رنگ برنگے اور خوش نما ڈیزائن بناتی ہیں۔

معاشرے میں سٹیل اور پلاسٹک کے برتنوں کے متعارف ہونے سے کمہاروں کے تیار کردہ مٹی کے کچے برتنوں کا کام نہ صرف بری طرح متاثر ہوا بلکہ آہستہ آہستہ ختم ہوتا جا رہا ہے، لیکن تمام تر مسائل اور مشکلات کے باوجود بعض کمہار اب بھی اس آبائی فن کو سینے سے لگائے ذریعہ معاش بنائے بیٹھے ہیں۔

سندھ کے ضلع تھرپارکر کے مرکزی شہر مٹھی میں کمہاروں کی چار بڑی کالونیاں واقع ہیں، جہاں مٹی کے برتن بنانے کا کام کرنے والے صرف ایک، دو گھرانے ہی باقی بچے ہیں۔

مٹھی کی حاجی کمہار کالونی سے تعلق رکھنے والی 35 سالہ نیامت کمہار بتاتی ہیں کہ ’جب ہم بچے تھے تب ہماری برادری کی ہر ماں اپنی بیٹی کو اور کچھ سکھائے نہ سکھائے دس سال کی عمر سے برتن پر چٹسالی بنانا ضرور سکھاتی تھی اور یہی وجہ ہے کہ ہماری عمر کی زیادہ عورتیں چٹسالی کام جانتی ہیں۔

’مگر ہماری برادری میں آج کل کی لڑکیوں کو چٹسالی کا کام کرنا نہیں آتا کیوں کہ آج کل مٹی سے برتن بنانے کا کام کم ہو گیا ہے۔ جو کمہار بڑے شہروں میں رہتے ہیں وہ اب یہ کام کرتے ہی نہیں ہیں۔ گاؤں میں رہنے والے پھر بھی اس کام کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔‘ 

نیامت بتاتی ہیں کہ چٹسالی کے ڈیزائنوں میں سب سے زیادہ مقبول بجورو ہے۔

’بجورو ڈیزائن ہر کمہار عورت نہیں بنا سکتی، اس لیے کہ اس میں پتلی توری (برش) استعمال ہوتی ہے۔ اس میں پڑ (ڈیزائن) بھی چھوٹا بنتا ہے اس لیے یہ بنانا مشکل ہے۔ سب سے آسان ڈیزائن ماکوڑا اور اچھڑی ہے۔‘

نیامت بتاتی ہیں کہ کچھ ایسے ڈیزائن بھی ہیں جو اب ہر کوئی بنا رہا ہے، جن میں اچھڑی، مکوڑا، بچھو، مینڈک، کنگی، لہر، پنڑی اور لکیر شامل ہیں۔

یہ ڈیزائن بنانے کے لیے جو برش استعمال ہوتے ہیں وہ مارکیٹ میں نہیں ملتے بلکہ کمہار خواتین خود بناتی ہیں اور انہیں ’توری‘ کہا جاتا ہے۔ 

نیامت نے بتایا کہ چٹسالی میں استعمال ہونے والے برش بانس کی لکڑی سے بنائے جاتے ہیں۔

’سب سے پہلے بانس کی لکڑی کو پانچ روز تک پانی میں بھگوتے ہیں، پھر اس لکڑی کو کاٹ کر برش کے سائز میں کاٹا جاتا ہے۔  چیرنے کے بعد اسے کوٹا جاتا ہے اور آخری مرحلے میں کوٹے ہوئے حصے کو چاقو کی مدد سے برش میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چٹسالی کے لیے استعمال ہونے والے برش کی تین اقسام ہیں، جن میں ’تورا‘ سے برتن پر بڑی لکیریں بنائی جاتی ہیں، جس کے بعد درمیانے سائز کے برش ’توری‘ سے ڈیزائن بنائے جاتے ہیں اور سب سے پتلے برش کی مدد سے ڈیزائنوں میں رنگ بھرے جاتے ہیں۔

نیامت کمہار نے بتایا کہ اگر برتن کو پہلے سرخ رنگ دیتے ہیں تو اس کے اوپر ہم سیاہ یا سفید رنگ سے ڈیزائن بناتے ہیں۔

’رنگوں کا بہت زیادہ خیال رکھا جاتا ہے کہ کون سا رنگ کس دوسرے رنگ کے ساتھ زیادہ خوبصورت لگے گا۔ اس کے بعد برتن پر لکیریں لگائی جاتی ہیں اور پھر ڈیزائن بنایا جاتا ہے اور آخر میں رنگ بھرے جاتے ہیں۔‘

برتنوں پر چٹسالی بنانے کے لیے عام طور پر سفید، سرخ، زرد اور سیاہ رنگ استعمال کیے جاتے ہیں۔

مٹی کے برتنوں کا کام ختم ہونے کے باعث اکثر کمہار خواتین گرم لوہے کی تار سے فوم کے ٹکڑے پر ڈیزائن بناتی ہیں اور فوم کو رنگ میں ڈبو کر برتن پر ڈیزائن ثبت کیا جاتا ہے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فن