ہلکی زرد رنگ کی نرم پتھروں کی شکل میں دستیاب ’ملتانی مٹی‘ سندھ میں مخصوص پہاڑوں کے دامن سے سرنگیں کھود کر نکالی جاتی ہے۔
عرصہ دراز سے اسے بال دھونے اور جلدی بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے جبکہ لکھائی کے لیے تختیاں بنانے میں بھی اس کا استعمال بہت عام رہا ہے۔
اس مٹی میں تیل اور پانی کو جذب کرنے کی بے پناہ صلاحیت ہوتی ہے، دورِ جدید میں بھی چہرے پر نکھار لانے کے لیے اس کے ماسک کا استعمال بہت عام ہے۔
پاکستان میں صوبہ سندھ کے علاقے خیرپور اور اطراف میں واقع مخصوص پہاڑوں سے یہ مٹی نکالی جاتی ہے۔
مقامی سماجی رہنما زوار حسین کاندھڑو نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ خیرپور کے زرد پہاڑوں کے سلسلے میں بیشر مقامات کے دامن میں سرنگیں کھود کر زرد مٹی نکالی جاتی ہے، جسے سندھی زبان میں ’میٹ‘ کہا جاتا ہے۔
اس مٹی میں بہت سی فائدہ مند معدنیات پائی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے اسے صنعتی اور دیگر اشیا میں استعمال میں کیا جاتا ہے جبکہ اسے ایکسپورٹ بھی کیا جاتا ہے۔
زوار کاندھڑو نے بتایا کہ محکمہ معدنیات سندھ کی جانب سے ان پہاڑوں کو لیز پر دیا جاتا ہے جسے بااثر افراد ہی حاصل کرپاتے ہیں، جو اس میٹ کو نکالنے کے لیے مقامی مزدوروں کو بہت کم اجرت پر کام دیتے ہیں جبکہ یہ مزدور بہت غیر محفوظ انداز میں کام پر مجبور ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس علاقے کی میٹ اپنی کوالٹی کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔ بقول زوار: ’ملتان کے تاجروں نے یہاں سے مٹی نکال کر بیچنا شروع کی تو اس کا نام اسی لیے ملتانی مٹی پڑ گیا ہے حالانکہ یہ ہمارے خیرپور سندھ کی معدنی مٹی ہے۔‘
مقامی نوجوان کان کن پرویز احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’پہاڑ کے دامن سے سرنگ کھودنے کے لیے 20 سے 25 افراد پورا ہفتہ روزانہ آٹھ سے دن گھنٹے محنت کرتے ہیں، اس کے بعد کم از کم دو سو سے تین سو فٹ کے بعد میٹ نکلنا شروع ہوتی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ سرنگ کے اندر روشنی کا کوئی مناسب بندوبست نہیں ہوتا، چراغ جلا کر روشنی کی جاتی ہے جبکہ گیلی مٹی کی وجہ سے بعض مقامات سے مٹی کے تودے گرتے ہیں جس سے کان کنوں کو بہت خوف محسوس ہوتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پرویز احمد نے بتایا کہ کدال سے کھود کر ٹرالیوں کی مدد سے میٹ کو باہر نکالا جاتا ہے۔
’ہم ہفتہ بھر کام کریں تو بمشکل تین سے چار ہزار روپے مزدوری بنتی ہے، کیونکہ اس کا ریٹ بہت کم ہوتا ہے، اسے چند سو روپے فی من میں بیچا جاتا ہے۔‘
مقامی صحافی سیلم رضا شیخ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’خیرپور ضلع تیل، پتھر اور دیگر معدنیات سے مالا مال ہے مگر محکمہ معدنیات سندھ اس علاقے میں توجہ دینے کے بجائے مجرمانہ چشم پوشی کر رہی ہے۔ میٹ اور دیگر پہاڑوں کو غیر مقامیوں کو لیز پر دیا جارہا ہے جو اس علاقوں میں ماحولیات کو شدید نقصان پہنچا رہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’لیز ہولڈرز نہ مزدوروں کو قواعد کے مطابق سہولیات دیتے ہیں اور نہ ہی کھدائی کے لیے کسی قسم کے ضوابط کا خیال رکھتے ہیں، جبکہ بعض مقامات پر تو لیز پر پابندی ہے مگر اس پر عملدرآمد نہیں کروایا جارہا۔‘
سکھر کے معروف ادیب اور شاعر محمد اطہر راجپوت نے ملتانی مٹی کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ تاریخ اور طب کی کتب میں اسے ملتانی مٹی ہی لکھا گیا ہے جبکہ انڈیا میں بھی اسے اسی نام سے پکارا جاتا ہے۔