مہابھارت کو اردو داستان کی شکل دینے والے داستان گو

پیپلی لائیو کے شریک ڈائریکٹر محمود فاروقی نے تہاڑ جیل میں مہا بھارت کی داستان کو اردو زبان میں تیار کیا اور جیل سے باہر آنے کے بعد 2018 میں انہوں نے اس داستان کو ’داستان کرن از مہا بھارت‘ کے نام سے عوام کے سامنے پیش کیا۔

محمود فاروقی کی اس اردو داستان کو کافی مقبولیت ملی جسے انہوں نے انڈیا کے مشہور زندان خانے تہاڑ جیل میں تیار کیا۔

جہاں وہ ایک امریکی خاتون کے ساتھ بدسلوکی کے الزام میں قید و بند کی سزا کاٹ رہے تھے اور پھر 2017 میں عدالت عظمٰی نے انہیں بری کردیا۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’میں ہندوستان اور بیرون ملک داستان گوئی کی وجہ سے جانا جاتا ہوں۔ میری داستان گوئی 2005 میں شروع ہوئی۔ میں نے داستان گوئی اور داستان امیر حمزہ کے بارے میں اپنے چچا شمس الرحمان فاروقی کی بہت ہی کمال کی کتاب پڑھی، تب مجھے احساس ہوا کہ یہ کتنا بڑا فن تھا کتنی بڑی روایت تھی اور اس روایت کو کیسے زندہ کیا جائے۔ کئی سال تک میں بھٹکتا رہا۔ ڈاکیومنٹری بناؤں یا اس کو کس طرح پیش کروں؟ اس کو لکھتا رہا، پھر 2005 میں پہلا شو کیا۔ وہ بہت کامیاب رہا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’اس کے بعد ہم شوز کرتے چلے گئے۔ ہم نے جدید داستانیں بنانی شروع کیں۔ تخت تال تقسیم پر داستان بنائی۔ بغاوت کے مقدمات پر داستان بنائی۔ لوک کہانیاں اٹھائیں، چوبولی کی۔ منٹویت بنائی منٹو صاحب پر۔ رامائن پر کچھ کیا اور یہ سلسلہ چلتا رہا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’کچھ سال پہلے خیال آیا کہ ہندوستان کی سب سے بڑی کہانی اور داستان مہا بھارت ہے۔ اگر آپ قصہ اور کہانی سنانے کے پیشے میں ہیں اور مہا بھارت کی داستان نہیں سنائی تو پھر کیا سنایا۔ اس لیے مہا بھارت پر کام کرنا شروع کیا۔‘

اردو میں مہا بھارت کی داستان سنانے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے فاروقی نے کہا: ’مہا بھارت کی داستان میں بھائیوں کی لڑائی ہے۔ ہندوستان میں ہندو اور مسلمان کا تنازع بھی بھائیوں کی لڑائی ہے۔ اس میں ہندی شاعری ہے، فارسی شاعری ہے۔

’یہ داستان ان سارے مسائل کے بارے میں ہے جن سے ہم جوجھ رہے ہیں کہ حق کیا ہے؟ انسان کا فرض کیا ہے؟ سماج میں کس طرح رہنا چاہیے۔ ریاست کس طرح چلانی چاہیے؟ سیاست کس طرح کرنی چاہیے؟‘

اپنے پہناوے کے حوالے سے اور اس کی خصوصیت سے متعلق محمود فاروقی نے بتایا کہ ’میں انگ رکھا اور ٹوپی پہنتا ہوں۔ ہم تخت پر بیٹھتے ہیں۔ چاندنی بچھا کر۔ دو کٹورے پانی کے ہوتے ہیں۔ دو موم بتیاں ہوتی ہیں، جسے میری بیوی انوشا نے ڈیزائن کیا۔ سفید انگ رکھے اور چوڑی مہری کے پاجامے میں بیٹھتے ہیں۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فن