شاہین اور حارث کی ماند پڑتی چمک اور حفیظ کے انکشافات

لاہور قلندرز کی ٹیم شاہین آفریدی کی قیادت میں نہ صرف اپنے پہلے تین میچ ہار چکی ہے بلکہ شاہین آفریدی خود بھی اپنا رنگ جمانے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔

سابق کرکٹر محمد حفیظ کو آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی سیریز کے لیے پاکستان ٹیم کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا تھا (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

دیکھنے والوں کے لیے وہ مناظر نہ بھولنے والے رہے ہیں جب شاہین شاہ آفریدی کا جادو پہلے ہی اوور میں سر چڑھ کر بولتا ہے اور وہ حریف بیٹسمین کو پویلین کی راہ دکھانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ہر کسی کو بس اسی منظر کا انتظار رہتا ہے۔

یہ تحریر مصنف کی زبانی یہاں سنیے:

لیکن اس پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں ابھی تک شائقین کو یہ سب کچھ دیکھنے کو نہیں مل سکا ہے۔ لاہور قلندرز کی ٹیم شاہین آفریدی کی قیادت میں نہ صرف اپنے پہلے تین میچ ہار چکی ہے بلکہ شاہین آفریدی خود بھی اپنا رنگ جمانے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔

یہی نہیں ان کے ساتھ بولنگ کرنے والے حارث رؤف اور زمان خان کے رنگ بھی پھیکے نظر آئے ہیں۔

اگر ہم اعداد و شمار کے لحاظ سے شاہین آفریدی کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو تین میچوں میں ان کی صرف تین وکٹیں ہیں اور ان میں سے بھی دو وکٹیں صرف ایک میچ میں ملتان کے خلاف رہی ہیں جن میں سے ایک وکٹ انہوں نے اپنے دوسرے اوور میں حاصل کی۔

کوئٹہ کے خلاف انہیں 38 رنز کے عوض ایک وکٹ مل سکی جبکہ اسلام آباد یونائیٹڈ کے خلاف وہ 31 رنز دے کر ایک وکٹ بھی نہ لے سکے۔

اگر ہم اس سال تمام ٹی ٹوئنٹی میچوں میں شاہین آفریدی کی کارکردگی پر نظر ڈالیں تو 13 میچوں میں وہ 18 وکٹیں حاصل کرسکے ہیں۔ ان 13 میچوں میں وہ پاور پلے کے چھ اوورز میں صرف آٹھ وکٹیں حاصل کر پائے ہیں اور ان کی گیندوں پر 23 چوکے اور سات چھکے لگے ہیں۔

12 سے 16 اوورز میں ان کے ہاتھ صرف ایک وکٹ لگی ہے اس میں انہیں چار چھکے اور نو چوکے لگے ہیں، جبکہ ڈیتھ اوورز میں انہوں نے نو وکٹیں حاصل کی ہیں اور ان کی بولنگ پر چھ چھکے اور11 چوکے لگے ہیں۔

شاہین آفریدی نے نیوزی لینڈ کے خلاف پانچ میچوں کی ٹی ٹوئنٹی سیریز میں 19.22 کی اوسط سے نو وکٹیں حاصل کی تھیں جن میں سے دو میچوں میں وہ اپنے پہلے اوور میں وکٹ لینے میں کامیاب رہے تھے جبکہ پانچویں میچ میں ان کی دو وکٹوں نے پاکستان کو 134 رنز کے معمولی سکور کا کامیابی سے دفاع کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

اس کے بعد یو اے ای میں ہونے والی آئی ایل ٹی ٹوئنٹی لیگ کے پانچ میچوں میں وہ 28.83 کی اوسط سے چھ وکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے۔

اس وقت سابق ٹیسٹ کرکٹر کا موضوع گفتگو یہی ہے کہ شاہین آفریدی کی رفتار میں کمی آئی ہے جس کی وجہ سے وہ پہلے جیسے مؤثر نہیں رہے ہیں اور ان کی کپتانی بھی ایکسپوز ہوئی ہے۔

لاہور قلندرز کی قوت اس کی بولنگ رہی ہے لیکن اس مرتبہ یہی قوت کمزوری بن کر سامنے آئی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ لیگ سپنر راشد خان کی غیرموجودگی ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ شاہین آفریدی کے ساتھ ساتھ حارث رؤف اور زمان خان بھی مہنگے ثابت ہوئے ہیں اور یہ اٹیک تینوں میچوں میں ہدف کا دفاع کرنے میں کامیاب نہیں ہو پایا ہے۔

اگر ہم حارث رؤف کی کارکردگی پر نظر ڈالیں تو حالات ان کے لیے اچھے نظر نہیں آرہے ہیں۔ ایک جانب پاکستان کرکٹ بورڈ نے ان کا سینٹرل کانٹریکٹ ختم کر دیا ہے تو دوسری جانب وہ اسی فارمیٹ میں بری طرح ناکام اور مایوسی کا شکار دکھائی دیتے ہیں جو ان کی پہچان رہا ہے، اور اب تو انجری کے باعث وہ پی ایس ایل کے بقیہ میچوں سے بھی باہر ہو گئے ہیں۔

اگر ہم ان کی حالیہ کارکردگی دیکھیں تو نیوزی لینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز سے قبل انڈیا میں منعقدہ ورلڈ کپ میں وہ 16 وکٹیں لینے میں کامیاب رہے تھے لیکن وہ کوئی خاص تاثر چھوڑنے میں کامیاب نہیں رہے تھے۔

نیوزی لینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز میں وہ چار میچوں میں 23 کی اوسط سے سات وکٹیں لینے میں کامیاب ہوسکے۔ ایک میچ میں انہوں نے 60 رنز چار اوورز میں دے ڈالے تھے جس میں انہیں چھ چھکے اور تین چوکے لگے تھے۔

اس سیریز سے قبل وہ بگ بیش کے چار میچوں میں چھ وکٹیں لے پائے تھے۔

پہلے تین میچوں میں شکست نے یقیناً شاہین آفریدی کو بحیثیت کپتان دباؤ میں مبتلا کر دیا ہوگا اور وہ یقیناً یہی چاہیں گے کہ مزید ناکامیوں سے بچتے ہوئے لاہور قلندرز جو پی ایس ایل کی دفاعی چیمپئن ہے اپنی پوزیشن بہتر کرنے کی کوشش کرے لیکن اس کے لیے اسے نہ صرف اپنی بولنگ بلکہ بیٹنگ اور خاص کر فیلڈنگ میں بہتری لانی ہوگی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لاہور قلندرز ہی نہیں بلکہ اس لیگ میں دوسری ٹیمیں بھی خراب فیلڈنگ کی وجہ سے ایکسپوز ہوچکی ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے کیچز گرانے کا مقابلہ ہو رہا ہو۔

اس پی ایس ایل کی سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ پچھلے سال آخری نمبر پر آنے والی ٹیم کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے اس بار شاندار آغاز کرتے ہوئے اپنے پہلے تینوں میچ جیت لیے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ کپتان اور ہیڈ کوچ کی تبدیلی اسے راس آگئی ہے۔

اب کچھ بات کر لیتے ہیں محمد حفیظ کی جو پاکستان ٹیم کے عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد ایک بار پھر ٹی وی پر ایکسپرٹ کے روپ میں نظر آرہے ہیں۔

محمد حفیظ اے سپورٹس کے پروگرام دی پویلین میں وسیم اکرم، مصباح الحق اور اظہرعلی کے ساتھ بیٹھے ہیں۔

محمد حفیظ کے بارے میں سب سے بڑا اعتراض یہ آیا ہے کہ وہ اس شو میں پاکستانی ٹیم کے دورۂ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے بارے میں بہت زیادہ بات کررہے ہیں اور ان میں متعدد باتیں وہ ہیں جو عام طور پر پبلک میں ڈسکس نہیں ہوا کرتیں اور کانفیڈینشل ہوتی ہیں جنہیں عام طور پر ٹیم مینیجر یا ہیڈ کوچ اپنی رپورٹ کی صورت میں کرکٹ بورڈ کو دے دیتے ہیں۔

عام رائے یہ ہے کہ یہ شو پاکستان سپر لیگ کی ٹرانسمیشن کا حصہ ہے اگر یہ کسی انٹرنیشنل سیریز یا ٹورنامنٹ کا شو ہوتا تو پاکستانی ٹیم کی کارکردگی بہت زیادہ تفصیل سے زیر بحث آتی لیکن اس میں بھی بعض حدوں کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا لیکن اس پی ایس ایل شو میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی کے زیادہ چرچے ہو رہے ہیں۔

محمد حفیظ کی اس بات کو سوشل میڈیا پر پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا گیا ہے جس میں انہوں نے بابراعظم اور مکی آرتھر پر الزام عائد کیا کہ ان دونوں نے ٹیم میں ڈسپلن کلچر تباہ کیا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ بات انہوں نے دورے سے واپس آنے کے بعد اپنی ٹور رپورٹ میں شامل کی یا صرف ٹی وی پر بیٹھ کر باتیں کرنے میں ہی وہ اسے موزوں سمجھتے ہیں؟

محمد حفیظ کی اس شو میں گفتگو سے یہ بات ظاہر ہو رہی ہے کہ وہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں پاکستانی ٹیم کی شکست کا سارا ملبہ کھلاڑیوں پر ڈال کر خود ہاتھ صاف کرتے نظر آ رہے ہیں حالانکہ اس شکست میں وہ بھی اتنے ہی ذمہ دار ہیں جتنے کھلاڑی۔

یہ بات سبھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ذکا اشرف نے جہاں کئی غلط فیصلے کیے ان میں ایک غلط فیصلہ محمد حفیظ کو کوچنگ کا کوئی تجربہ نہ ہونے کے باوجود ٹیم ڈائریکٹر بنانا تھا۔

میری اطلاعات یہ ہیں کہ محمد حفیظ کے یوں بڑھ چڑھ کر تبصرے کرنے پر اے سپورٹس اور پاکستان کرکٹ بورڈ دونوں خوش نہیں ہیں۔

پاکستان سپر لیگ میں اگرچہ اس وقت بڑے نام نظر نہیں آ رہے ہیں لیکن اس کے باوجود شائقین کا جوش و خروش کم نہیں ہوا ہے جس کا اندازہ قذافی سٹیڈیم اور ملتان سٹیڈیم میں بڑی تعداد میں شائقین کی موجودگی سے لگایا جاسکتا ہے۔

اسی طرح ٹی وی اور لائیو سٹریمنگ پر بھی میچز دیکھنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن یہ بات سب ہی نے محسوس کی ہے کہ سرکاری ٹیلی وژن یعنی پی ٹی وی پاکستان سپر لیگ کے میچز نہیں دکھا رہا ہے۔

عام طور پر پاکستان میں جب بھی انٹرنیشنل سیریز ہوتی ہے تو پی ٹی وی سرکاری ٹی وی ہونے کے ناتے وہ سیریز ضرور دکھاتا ہے لیکن چونکہ پی ایس ایل ایک ڈومیسٹک ایونٹ ہے لہذا پی ٹی وی اس لیگ کو نہیں دکھا پا رہا ہے۔

پاکستان سپر لیگ کے میچوں کے نشریاتی حقوق اے آر وائی کے چینل اے سپورٹس نے حاصل کیے ہیں تاہم پاکستان ٹیلی وژن کی ایمپلائز یونین اے سپورٹس کو یہ نشریاتی حقوق دینے کے فیصلے کے خلاف عدالت میں چلی گئی ہے اور یہ معاملہ اب لاہور ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اور جسٹس شاہد بلال حسن نے اس ضمن میں پاکستان کرکٹ بورڈ سے جواب مانگا ہے۔

پی ٹی وی یونین نے عدالت میں یہ استدعا کی ہے کہ اے سپورٹس کو بیس پرائز سے بھی کم پر یہ حقوق دیے گئے ہیں۔

ہم ماضی میں بھی پاکستان کی کرکٹ کے نشریاتی حقوق کے معاملات عدالتوں میں جاتے ہوئے دیکھ چکے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ اس مرتبہ عدالت کا کیا فیصلہ آتا ہے اور اس کا اثر اس پی ایس ایل پر کتنا پڑتا ہے؟

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر