’اصلی سلطنت عمرانیہ خیبر پختونخوا میں بن گئی ہے اور اسی وجہ سے میانوالی سے اس اجلاس کو دیکھنے پشاور آیا ہوں کیونکہ یہاں عمران خان کو لوگوں نے سپورٹ کیا ہے۔‘
یہ کہنا تھا میانوالی سے تعلق رکھنے والے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایتی عاطف مراد جوئیہ کا، جو نئی خیبر پختونخوا اسمبلی کا پہلا اجلاس دیکھنے آئے تھے اور ایوان کے اندر اراکین کی نشستوں کی طرف جانے کی کوشش کر رہے تھے۔
صوبائی اسمبلی کے اہلکاروں نے انہیں بتانے کی کوشش کی کہ ایوان کے اندر اراکین کی نشستوں پر بیٹھنا اسمبلی کی عزت کی پامالی ہے لیکن عاطف مراد جوئیہ کے علاوہ پی ٹی آئی کے بہت سارے حمایتی توجہ دیے بغیر اسمبلی کے فلور پر تصاویر بناتے اور ٹک ٹاک کے لیے ویڈیوز بنانے میں مصروف رہے۔
اسمبلی ہال کی راہداری میں کھڑے ایک ملازم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 21 سالہ ملازمت میں پہلی مرتبہ اس قسم کی بدنظمی ایوان کے اندر دیکھنے میں آئی ہے۔
انہوں نے بتایا، ’صبح سے انہیں روک روک کر تھک گئے ہیں۔ ان کو بار بار ایوان کے اندر نشستوں میں جانے سے منع کیا جا رہا ہے لیکن یہ بات کو سمجھتے ہی نہیں۔‘
بظاہر بد نظمی کی بڑی وجہ حد سے زیادہ مہمانوں کو اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے انٹری پاس جاری کیا جانا تھا کیوں کہ 900 افراد کی گنجائش کے برعکس سینیئر صحافی لحاظ علی کے مطابق 4000 سے زیادہ مہمانوں کو مدعو کیا گیا تھا۔
بد نظمی کی ابتدا خیبر پختونخوا اسمبلی کے داخلی دروازے سے شروع ہو جاتی ہے۔
ہم سہ پہر تقریباً ڈھائی بجے اسمبلی کی عمارت کے داخلی دروازے پر کھڑے تھے لیکن پارکنگ کی گنجائش نہیں تھی اور ہمیں گاڑی باہر جا کر محفوظ مقام پر کھڑی کرنا پڑی۔
گاڑی محفوظ مقام پر پہنچانے کے بعد پیدل چل کر واپس آئے مرکزی گیٹ پر شدید رش دیکھا۔ وہاں موجود بعض لوگوں کے پاس ویزیٹنگ کارڈز تو موجود تھے لیکن اکثر کے پاس اِنٹری پاسز نہیں تھے اور پولیس ان کو گیٹ سے ہٹانے کی کوشش کر رہی تھی۔
شکریہ پشاور کینٹ کے ایس پی وقاص کا، جنھوں نے ہمیں پہچانتے ہوئے میرے سمیت میڈیا کے کچھ دوستوں کے لیے اسمبلی کی عمارت اندر جانے کا راستہ بنوایا۔
مرکزی گیٹ سے اندر داخل ہوئے تو کھلے احاطے میں مہمانوں کے لیے لگائی گئی ملٹی میڈیا سکرین نظر آئی، جس پر اسمبلی کی کارروائی نشر کی جا رہی تھی، جب کہ ہال کے داخلی دروازے کے پاس اتنا رش تھا کے پاؤں رکھنے کی جگہ نہیں تھی۔
ایک صحافی دوست سے پریس گیلری کے احوال کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے ہنس کر کہا کہ ’پریس گیلری تو مہمانوں نے بھر دی ہے جبکہ ہال کی دوسری تمام مخصوص گیلریز پر بھی مہمانوں کا قبضہ ہے۔‘
ایوان میں اراکین کی حلف برداری کے دوران بھی شور شرابہ اور نعرے بازی ہوتی رہی جب کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی مخصوص نشست پر کامیاب ہونے والی ثوبیہ شاہد کی جانب جوتا بھی پھینکا گیا، جس کے جواب میں وہ ان کے مخالفین کو گھڑی دکھاتی رہیں۔
اراکین کے ساتھ آنے والے مہمان ہال کے اندر تصاویر، سیلفیاں اور ویڈیوز بنا رہے تھے تاہم دلچسپ صورت حال تب بنی جب بعض نو منتخب اراکین کو بھی ہال میں جانے نہیں دیا جا رہا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس دفعہ اسمبلی میں تقریباً 67 نئے چہرے ہیں اور اسمبلی میں مامور سکیورٹی سٹاف اراکین اسمبلی اور مہمانوں میں فرق نہیں کر پا رہے تھے۔
میڈیا کے نمائندوں کو بھی اراکین اسمبلی سے انٹرویوز کرنے میں مشکل صورت حال کا سامنا تھا کیوں کہ اکثر صحافی بھی نئے ایم پی ایز کو نہیں پہنچانتے تھے۔ اکثر میڈیا پرسنز نے مبصمغ کے اندر اور باہر کئی لوگوں کو روک کر پوچھا کہ ’کیا آپ رکن اسمبلی ہیں؟‘
گذشتہ تقریبا 15 برس سے پارلیمانی رپورٹنگ کرنے والی پشاور کی صحافی انیلہ شاہین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ اسمبلی کارروائی کی رپورٹنگ کرتے ہوئے پہلی مرتبہ اتنی زیادہ بد نظمی دیکھی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ میڈیا کو کارڈز تو ایشو کیے گئے تھے لیکن پریس اور کیمرہ پرسنز کی گیلریاں بھی مہمانوں سے بھری تھیں۔
حلف برداری کے دوران اپوزیشن جماعت سے تعلق رکھنے والی ثوبیہ شاہد پر جوتا پھینکنے کے حوالے سے انیلہ شاہین نے بتایا جمہوری عمل میں ایک دوسرے کا خیال رکھا جاتا ہے لیکن آج ہم نے ایوان کی تقدس سے پامالی دیکھی ہے۔
تاہم انیلہ کے خیال میں زیادہ تر اراکین نئے ہیں تو ان کو سسٹم کو سمجھنے میں تھوڑا وقت لگے گا اور امید ہے کہ سیکھ جائیں گے۔
دلچپسپ کردار عاطف مراد جوئیہ تھے، جنہوں نے اسمبلی ہال کے اندر نہایت پرجوش انداز میں انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’میں پنجاب اسمبلی نہیں گیا کیونکہ مجھے مریم نواز کی تقریر سننے کا کوئی شوق نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا: ’سلطنت عمرانیہ‘ خیبر پختونخوا میں قائم ہوئی ہے، تو میں بھی یہاں آیا ہوں۔‘