خیبر پختونخوا اسمبلی: 92 سالہ ایوان تاریخ کے آئینے میں

خیبر پختونخوا، جسے 2010 تک این ڈبلیو ایف پی یعنی شمالی مغربی سرحدی صوبہ یا صوبہ سرحد کہا جاتا تھا، کو باقاعدہ صوبے کا درجہ سال 1932 میں دیا گیا اور 1937 میں اس کی قانون ساز اسمبلی وجود میں آئی۔

پشاور کے خیبر روڈ پر واقع خیبر پختونخوا اسمبلی کی عمارت (انڈپینڈنٹ اردو)

 نومنتخب 55 نئے چہروں پر مشتمل خیبرپختونخوا اسمبلی کا اجلاس 28 فروری کو منعقد ہونے جا رہا ہے۔ نگراں وزیر اعلی جسٹس (ر) سید ارشد حسین شاہ کی جانب سے ارسال کردہ سمری پر گورنر خیبر پختونخوا حاجی غلام علی نے دستخط کر دیے اور اس حوالے سے 24 فروری بروز ہفتہ کو  باقاعدہ اعلامیہ بھی جاری کر دیا گیا۔

اجلاس میں نومنتخب اراکین اسمبلی سپیکر مشتاق احمد غنی کے ہاتھ سے حلف اٹھائے گے۔

صوبہ خیبر پختونخوا، جسے 2010 تک این ڈبلیو ایف پی یعنی شمالی مغربی سرحدی صوبہ یا صوبہ سرحد کہا جاتا تھا، کو باقاعدہ صوبے کا درجہ سال 1932 میں دیا گیا تھا۔ اس سے قبل 1901 میں این ڈبلیو ایف پی کو چیف کمشنر صوبہ کا درجہ حاصل تھا، جس کا سربراہ چیف کمشنر ہوتا تھا۔ تاہم 31 سال بعد اسے باقاعدہ صوبے کا درجہ دیا گیا۔

سال 1937 میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 نافذ کیا گیا اور این ڈبلیو ایف پی کی قانون ساز اسمبلی وجود میں لائی گئی، جب کہ صوبہ کے عوام کو 1935 انڈین ایکٹ کے تحت الیکشن کے ذریعے اپنے نمائندے منتخب کرنے کی اجازت دی گئی اور یوں 1937 میں انڈین ایکٹ 1935 کے تحت پہلے انتخابات منعقد کیے گئے۔

1937 میں ہونے والے صوبے کے پہلے انتخابات کے نتیجے میں سر صاحبزادہ عبدالقیوم خان،جو  تاریخی درسگاہ اسلامیہ کالج کے خالق بھی تھے، خبیر پختونخوا یعنی اس وقت کے  این ڈبلیو ایف پی کے پہلے وزیراعلی بنے، جب کہ ملک خدا بخش خان 15 اپریل 1937 کو اس اسمبلی کے پہلے سپیکر اور محمد سرور خان ڈپٹی سپیکر منتخب ہوئے۔

پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد  مسلم لیگی لیڈر اور تحریک پاکستان کے سرکردہ رہنما خان عبدالقیوم خان کو 23 اگست 1947 کو صوبہ کا وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔ لیگی لیڈر پیشے سے وکیل تھے اور ان کا شمار نامور وکلا میں ہوتا تھا۔

خیبر پختونخوا کی موجود اسمبلی کی پر شکوہ عمارت کو 1937 میں تعمیر کیا گیا جو 86 سال بعد بھی بڑی شان و شوکت سے کھڑی ہے۔

تاج برطانیہ کے دور میں تعمیر کردہ اسمبلی کی عمارت آج بھی پشاور کی خوبصورت عمارتوں میں شمار کی جاتی ہے۔ اس عمارت میں اراکین بڑھنے کے پیش نظر توسیع کی جاتی رہی گئی ہے اور بعض تبدیلیاں بھی کی گئیں۔

سال 2010 میں جب صوبے کا نام تبدیل کر کے خیبر پختونخوا رکھا گیا تو اسمبلی کو بھی خیبر پختونخوا اسمبلی کہا جانے لگا۔

خیبر پختونخوا اسمبلی، جو صوبہ کے لیے قانون سازی کرتی ہے، کا قیام آئین پاکستان کے آرٹیکل 106 کے تحت عمل میں لایا گیا ہے۔

خیبر پختونخوا میں قبائلی علاقوں کے انضمام سے صوبائی اسمبلی میں قبائلی اضلاع کے لیے 16 عام، خواتین کی چار اور غیر مسلموں کے لیے ایک نشست رکھی گئی ہے، جس سے خیبر پختونخوا اسمبلی میں جنرل نشستوں کی تعداد 115، خواتین کی نشستوں کی تعداد 26 اور غیر مسلموں کی نشستوں کی تعداد چار تک بڑھ گئی اور یوں یہ اسمبلی اب کل 145 ارکان پر مشتمل ہے۔

خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے فاٹا کے علاقوں میں مہمند ایجنسی، باجوڑ ایجنسی، شمالی و جنوبی وزیرستان ایجنسیاں، خیبر ایجنسی، کرم ایجنسی اور اورکزئی ایجنسی سمیت ایف آر پشاور، ایف آر بنوں، ایف آر کوہاٹ، ایف آر لکی مروت، ایف آر ڈیرہ اسماعیل خان اور ایف آر ٹانک کے علاقے شامل ہیں، جب کہ صوبے کا حصہ بننے والے پاٹا کے زیر انتظام علاقوں  میں چترال، دیر، سوات، کوہستان، مالاکنڈ اور مانسہرہ سے منسلک قبائلی علاقے شامل ہیں۔

قیام پاکستان سے قبل اسمبلی کے ارکان کی تعداد 50 تھی، جسے سال 1951 میں بڑھا کر 58 کر دیا گیا۔

پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد صوبہ خیبر پختونخوا کی قانون ساز اسمبلی میں پہلے انتخابات 15 دسمبر 1951 کو منعقد ہوئے، جن کے نتیجے میں نوابزادہ اللہ نواز خان کو اسمبلی کا سپیکر جب کہ محمد فرید خان کو ڈپٹی سپیکر منتخب کیا گیا۔

سال 1955 میں تین اکتوبر کو ون یونٹ قرار دینے کے بعد پاکستان کے دو صوبے بنا دیے گئے۔  موجود پاکستان کو مغربی پاکستان اور آج کے بنگلہ دیش کو مشرقی پاکستان کہا جاتا تھا۔ مغربی پاکستان کا دارالحکومت لاہور کو بنایا گیا تو اس قانون ساز اسمبلی کو پشاور کی عدالت عالیہ قرار دے دیا گیا اور یوں اسمبلی کو ختم کر دیا گیا۔ تاہم جب مغربی پاکستان کو ایک بار پھر تقسیم کیا گیا تو خیبر پختونخوا کی اسمبلی بھی بحال کر دی گئی۔

اسمبلی کی بحالی کے بعد جب صوبے میں انتخابات منعقد ہوئے تو اس وقت اسمبلی اراکین کی تعداد 43 تھی، جن میں دو خواتین اور ایک اقلیتی رکن تھے۔ اس اسمبلی کا پہلا اجلاس دو مئی 1972 کو پاکستان کے ادارہ برائے دیہی ترقی  کے ہال میں منعقد کیا گیا۔ کرک سے تعلق رکھنے والے  محمد اسلم خٹک کو اس وقت کی اسمبلی کا سپیکر اور پشاور سے تعلق رکھنےو الے ارباب سیف الرحمن کو ڈپٹی سپیکر منتخب کیا گیا۔

اس اسمبلی اور حکومت کو  جولائی 1977 کو مارشل لا نافذ ہونے پر تحلیل کر دیا گیا۔ تاہم 28 فروری 1985 کو جب غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات ہوئے اور 12 مارچ 1985 کو حلف برادری کے لیے اجلاس منعقد کیا گیا۔ 14 مارچ 1985 کو راجہ امان اللہ خان کو سپیکر اور احمد حسن کو ڈپٹی اسپیکر منتخب کیا گیا۔  1987 میں اسمبلی کی عمارت کو دیہی ترقیاتی ادارے سے یہاں منتقل کیا گیا۔ 

 ملک بھر کی طرح خیبر پختونخوا میں بھی 1988، 1990، 1993، 1997، 2002، 2008، 2013، 2018 میں عام انتخابات ہوئے اور مخلتف حکومتیں تشکیل دی گئیں، جب کہ حالیہ انتخابات آٹھ فروری 2024 کو منعقد ہوئے۔

اسمبلی کے نومنتخب اراکین کی حلف براداری کے لیے  28 فروری کو اجلاس طلب کیا گیا ہے، جس کے اگلے روز اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب عمل میں لایا جائے گا۔

خیبر پختونخوا اسمبلی کے لیے آٹھ فروری 2024 کے انتخابات میں ماضی کے برعکس کئی نئے رحجانات بھی دیکھنے کو ملے۔ ان الیکشنز میں پہلی بار پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کی اکثریت کو واضح کامیابی ملی۔ اور ان کے مقابلے میں مقبول الیکٹیبلز بری طرح ناکام ہوئے۔

جن میں سرفہرست سابق وفاقی وزیر دفاع اور سابق وزیر اعلی خیِبر پختونخوا پرویز خٹک ہیں، جو نہ صرف خود ضلع نوشہرہ سے دو صوبائی اسمبلی کی نشستوں سے ہارے بلکہ ان کے دو بیٹے اور ایک داماد بھی خیبر پختونخوا اسمبلی کے لیے منتخب نہ ہو سکے۔ اسی طرح  سابق وفاقی وزیر اور سابق وزیر اعلی آفتاب احمد خان شیرپاؤ کے بیٹے سکندر حیات شیرپاؤ اپنے آبائی ضلع چارسدہ سے صوبائی اسمبلی کی نشست پر الیکشن میں ناکام ہوئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پشاور سے معروف سیاسی خاندان بلور فیملی کی بہو ثمر بلور بھی آزاد امیدوار مینا خان سے ہار گئیں، جب کہ سوات سے سابق وزیر اعلی محمود خان بھی بری طرح شکست کھا کر ناکام ہوئے اور کے پی اسمبلی کے لیے منتخب نہ ہو سکے۔

موجودہ صوبائی اسمبلی میں خیبر پختونخوا کی تاریخ میں پہلی بار آٹھ فروری کے انتخابات کے نتیجے میں 55 نئے چہرے کامیابی سے ہمکنار ہو کر منتخب ہوئے ہیں۔ کامیاب ہونے والے نئے چہروں میں پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ 44 آزاد امیدوار شامل ہیں۔ ن لیگ کے تین، جمعیت علمائے اسلام کے چار جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کا ایک ایک نیا چہرہ کامیاب ہو کر اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔ اسی طرح  مظلوم اولسی تحریک کا بھی ایک نیا امیدوار کامیاب ہوا ہے۔

موجودہ الیکشن میں  جہاں نئے چہرے متعارف ہوئے وہیں اس الیکشن میں پہلی بار خیبر پختونخوا اسمبلی کے لیے  ہندو برادری سے تعلق رکھنے والی خاتون ڈاکٹر سویرا پرکاش نے ضلع بونیر سے پی کے 25 کی جنرل نشست پر  میدان میں اتریں۔ گو وہ الیکشن میں کامیاب تو نہ ہو سکی لیکن ان کا الیکشن میں حصہ لینا اور پذیرائی ملنا اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ مستقبل میں خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی کے لیے خواتین امیدوار بھی جنرل نشستوں پر سامنے آئیں گی۔ خیبر پختونخوا کے پختون معاشرہ بالخصوص قبائلی اضلاع اور دوردراز پسماندہ علاقوں سے خواتین کا الیکشن اور وہ بھی جنرل نشستوں پر انتخابات میں حصہ لینے کو کوئی زیادہ اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ تاہم اب صورتحال بڑی تیزی سے بدل رہی ہے۔

اسی طرح صوبائی اسمبلی کے لیے اس مرتبہ ایک خواجہ سرا نے بھی الیکشن میں حصہ لیا۔ پی کے 81 سے خواجہ سرا صوبیہ بلال گو کامیابی سے ہمکنار تو نہ ہو سکیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ ان کی برادری کو معاشرے میں نظرانداز کیا جاتا ہے اور انھیں ان گنت مسائل سے دو چار ہونا پڑتا ہے جس کے حل کے لیے وہ اسمبلی کی رکن بننا چاہتی تھیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ