رمضان سے قبل غزہ میں فائر بندی ممکن ہے: امریکی صدر بائیڈن

غزہ میں ہزاروں شہریوں کی اموات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ رمضان سے قبل غزہ میں فائر بندی ممکن ہے۔

نو مارچ، 2024 کی اس تصویر میں امریکی صدر جو بائیڈن ریاست جارجیا میں اپنی انتخابی مہم میں شریک ہیں(اے ایف پی)

امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ رمضان سے قبل غزہ میں فائر بندی ممکن ہے۔

خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق ایم ایس این بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ’یہ ہمیشہ ممکن ہے۔ رمضان سے پہلے غزہ میں فائر بندی ہو سکتی ہے‘ اور وہ اس کوشش سے دستبردار نہیں ہو رہے۔

انٹرویو کے دوران امریکی صدر کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی جانب سے جنوبی غزہ میں رفح پر حملے کی دھمکی نتن یاہو کے لیے ان کی ’ریڈ لائن‘ ہو گی۔

 لیکن فوری طور پر اپنے اس بیان سے پیچھے ہٹتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’کوئی ریڈ لائن نہیں ہے اور میں اسرائیل کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑوں گا۔‘

عام شہریوں کی مزید اموات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بائیڈن نے نتن یاہو پر زور دیا کہ وہ رفح پر اس وقت تک کوئی بڑا حملہ نہ کریں جب تک اسرائیل بڑے پیمانے پر انخلا کا منصوبہ تیار نہیں کرتا۔

غزہ کی 23 لاکھ آبادی میں سے نصف سے زیادہ نے رفح کے علاقے میں پناہ  لے رکھی ہے۔

 یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ دوبارہ اسرائیل جانا چاہیں گے، جہاں انہوں نے اکتوبر کے وسط میں اظہار یکجہتی کے لیے دورہ کیا تھا، جو بائیڈن نے جواب دیا ’ہاں‘۔ لیکن انہوں نے تفصیل بتانے سے انکار کر دیا۔

بائیڈن نے فوری طور پر جواب دیا کہ ’بہت سے فلسطینی ایسے ہیں جنہیں غیر منصفانہ طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‘

دوسری جانب غزہ پر دباؤ بڑھاتے ہوئے اسرائیل نے رفح میں 12 منزلہ رہائشی ٹاور کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں درجنوں خاندان بے گھر ہو گئے تاہم کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ہے۔

اسرائیلی فوج نے الزام عائد کیا کہ حماس اس بلاک کو اسرائیلیوں پر حملوں کی منصوبہ بندی کے لیے استعمال کر رہی تھی۔

مصر کی سرحد کے قریب واقع اس ٹاور کے 300 رہائشیوں میں سے ایک نے روئٹرز کو بتایا کہ اسرائیل نے انہیں رات کے وقت عمارت سے فرار ہونے کے لیے 30 منٹ کی وارننگ دی تھی۔

پانچ ماہ سے جاری اسرائیلی جارحیت نے غزہ کو انسانی تباہی اور بحرانی صورت حال میں دھکیل دیا ہے۔ اس پٹی کا زیادہ تر حصہ ملبے میں تبدیل ہو چکا ہے اور اس کی اکثر آبادی بے گھر ہو چکی ہے جبکہ اقوام متحدہ نے بیماریوں اور فاقہ کشی کے متعلق بھی خبردار کیا ہے۔

ماہ رمضان میں فائر بندی کی کم ہوتی امیدوں کے باوجود، اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد نے ہفتے کو کہا ہے کہ غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان فائر کے معاہدے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔

اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ موساد سربراہ ڈیوڈ بارنیا نے جمعہ کو اپنے امریکی ہم منصب سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز سے ملاقات کی جس میں قیدیوں کی رہائی کے معاہدے پر کام کرنے پر زور دیا گیا۔

مصر، امریکہ اور قطر جنوری سے فائر بندی کے مذاکرات میں ثالثی کر رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسرائیل اور حماس کے درمیان آخری معاہدہ نومبر 2023 میں ہوا تھا جس کے دوران حماس نے 100 سے زائد قیدیوں کو رہا کیا تھا اور اسرائیل نے بھی فلسطینی قیدی رہا کیے تھے۔

 حماس نے طویل فائر بندی اور غزہ میں موجود 134 قیدیوں کی رہائی کے لیے مذاکرات میں تعطل کا الزام اسرائیل پر عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ جنگ کے خاتمے یا انکلیو سے اپنی افواج کو واپس بلانے کی گارنٹی دینے سے انکار کرتا ہے۔

جبکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس رمضان کے دوران خطے میں تشدد میں اضافے کا ارادہ رکھتی ہے۔

حماس کے سربراہ اسمٰعیل ھنیہ نے اس عزم کا اظہار کیا کہ فلسطینی اس وقت تک اسرائیل کے خلاف لڑتے رہیں گے جب تک وہ آزادی اور مختاری حاصل نہیں کر لیتے۔

سات اکتوبر 2023 سے جاری غزہ پر اسرائیل کی فضائی اور زمینی جارحیت کے پانچ ماہ کے دوران غزہ کے محکمہ صحت کے مطابق تقریباً 31,000 فلسطینی جان سے جا چکے ہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا