آصف علی زرداری نے ایک دفعہ پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ واقعی کمال کے سیاست دان ہیں۔
ان کے ہاتھ میں اگر کارڈز بہت اچھے نہ بھی ہوں تو وہ اپنی چالوں سے مخالفین کو ایسی مات دے سکتے ہیں جس کی سمجھ بھی انہیں نہ آئے۔
آٹھ فروری کے انتخابات میں کوئی سیاسی جماعت ایسی نہیں جس کو توقع کے مطابق نتائج ملے ہوں۔ ن لیگ سادہ اکثریت کی خواہش لے کر میدان میں اتری لیکن ان کے لیے نتائج مایوس کن تھے۔
تحریک انصاف کے نتائج کی کیا بات کریں ان کا تو دعویٰ ہے کہ انہیں عوام نے دو تہائی اکثریت دے دی تھی لیکن فارم 47 آڑے آ گیا، بہرحال انہیں کامیابی ملی نہیں یا ان کی کامیابی روک دی گئی، تلخ حقیقت یہی ہے کہ ان کی صرف ایک ہی صوبے میں حکومت بن پائی ہے۔
اب اگر بات کریں پیپلز پارٹی کی تو زرداری صاحب کی کامیاب حکمت عملی نے ان کی جماعت کو دوبارہ ایک وفاقی جماعت بنا دیا ہے جو کہ 2013 کے بعد سکڑ کر سندھ تک محدود ہو گئی تھی۔ بلوچستان اور سندھ میں حکومت، پنجاب اور پختونخوا میں گورنر، چیئرمین سینٹ اور پھر ایوان صدر میں صدر آصف علی زرداری کے قدم پڑنے کے بعد یہ کہنا بجا ہو گا کہ آٹھ فروری کے انتخابات میں اگر کسی کی جیت ہوئی ہے تو وہ پاکستان پیپلز پارٹی ہے۔
ایوان صدر کا ’نعرہ بھٹو جیے بھٹو‘ اور ’خطروں کا کھلاڑی زرداری‘ اور ’ایک زرداری سب پر بھاری‘ سے گونجنا یقینی طور پیپلز پارٹی کی قیادت اور ان کے جیالوں کے لیے ایک جذباتی لمحہ تھا لیکن چند لمحوں پر مشتمل یہ وقت اب تھم چکا ہے اور بطور صدر آصف علی زرداری کے امتحان کا آغاز ہو چکا ہے۔
اس وقت ملک کو درپیش خطرات میں صدر مملکت کو اپنا کردار ادا کرنا ہے، چاہے وہ ملکی معیشت اور آئی ایم ایف سے معاملات طے کرنے میں ان کا اور ان کی جماعت کا رول ہو یا شدید منقسم معاشرے کو مزید تقسیم در تقسیم سے بچانا ہو، زرداری صاحب کو اب اپنی پارٹی نہیں بلکہ وفاق کی علامت کی حیثیت سے اس نعرے پر پورا اترنا ہو گا کہ ’خطروں کا کھلاڑی زرداری۔‘
زرداری صاحب کو مفاہمت کا داعی اور گرو سمجھا جاتا ہے، ان کی سیاست مفاہمت سے شروع ہو کر مفاہمت پر ہی ختم ہوتی ہے، جس کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ جس پرویز الہٰی پر بے نظیر بھٹو کے قتل کی سازش میں ملوث ہونے کے الزامات لگے انہی پرویز الہٰی کو زرداری صاحب نے اپنا ڈپٹی وزیراعظم بنا دیا۔
اس وقت پاکستان کو میثاق مفاہمت کی ضرورت ہے جس کی پیشکش وزیراعظم شہباز شریف کر چکے ہیں اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو اس تجویز سے مکمل اتفاق کر چکے ہیں اور اس میثاق کے بارے میں اگر ان دونوں کی تجویز واقعی سنجیدگی پر مبنی ہے تو اس عمل کا آغاز ایوان صدر سے ہی ہو سکتا ہے اور ہونا بھی چاہیے۔
تحریک انصاف بیٹھنا چاہے یا نہ بیٹھنا چاہے، وہ مانیں یا نہ مانیں لیکن زرداری صاحب کا تو کمال ہی ماننا اور منوانا ہے، اسی لیے تو انہیں مفاہمت کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک زرداری اپنی پارٹی کے لیے تو باقی سب پر بھاری ثابت ہوئے اور بار بار ہوئے لیکن اب انہیں بطور صدر مملکت پاکستان کے لیے یہ ثابت کرنا ہے کہ ’ایک زرداری سب پر بھاری۔‘
اب بات ہو جائے نئی نویلی وفاقی کابینہ کی، جس کے پاس ہنی مون کا بھی ٹائم نہیں، مسائل گھمبیر ہیں، بے تحاشا قرضے چکانے ہیں اور ملک کو چلانے کے لیے مزید قرضے لینے ہیں۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ شاید کابینہ کو آتے ہی جن مسائل اور چیلنجز کا سامنا ہے ایسے ہم نے اپنی تاریخ میں کم ہی دیکھے ہیں۔
کابینہ کے سرتاج شہباز شریف جو کہ اب دوسری مرتبہ وزیراعظم منتخب ہو چکے ہیں موجودہ حالات سے ملک کو نکالنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں لیکن ان کو اب اپنی پارٹی کی بجائے ملک کو سنبھالنا ہے اور ایک قومی رہنما کی حیثیت سے پاکستان کو آگے کی طرف لے کر جانا ہے۔
وہ اپنے طرز سیاست سے پارٹی کو دوبارہ اقتدار میں لائے اور دوسری مرتبہ وزیراعظم بنے اور اسی لیے ان کی پارٹی کے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ’شہباز تیری پرواز سے جلتا ہے زمانہ۔‘ لیکن اب وہ ن لیگ نہیں بلکہ پاکستان کے وزیراعظم ہیں اور صرف اپنی کارکردگی سے شہباز شریف صرف ن لیگ نہیں بلکہ پاکستان کو یہ کہنے پر مجبور کر سکتے ہیں کہ ’شہباز تیری پرواز سے جلتا ہے زمانہ۔‘
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔