16 سال پہلے زرداری اور نواز شریف اتحاد کیوں نہیں چل سکا؟

اس سے قبل دونوں جماعتوں کا چند ہفتے ہی چل پایا تھا، کیا اس بار صورتِ حال مختلف ہو گی؟

اسلام آباد میں نو مارچ 2024 کو وزیراعظم شہباز شریف نے نومنتخب صدر آصف علی زرداری کا زرداری ہاؤس میں استقبال کیا (پی آئی ڈی/اے ایف پی)

مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت بن چکی ہے۔ شہباز شریف وزیراعظم اور آصف زرداری صدر بن چکے ہیں، لیکن اس کے باوجود دونوں جماعتوں کے مستقبل کے بارے میں قیاس آرائیاں جاری ہیں۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب مرکز میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اتحادی ہیں۔ اس سے پہلے 2008 کے انتخابات کے بعد بننے والی یوسف رضا گیلانی کی حکومت میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ اتحادی تھیں لیکن یہ اتحاد صرف ڈیڑھ ماہ بعد ہی ٹوٹ گیا تھا۔ اگلا ایک سال تو بھر پور سیاسی ہیجان لیے ہوئے تھا۔ اس وقت دونوں جماعتوں پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں اختلافات کی وجہ کیا تھی آصف زرداری اپنے وعدوں سے کیوں مکر گئے تھے؟

ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں اتحاد کی شرائط کیا تھیں؟

2008 کے عام انتخابات میں بھی کوئی بھی جماعت واضح اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ثابت نہیں ہوئی تھی۔ 342 کے ایوان میں مخصوص نشستیں ملا کر پیپلز پارٹی کی 113، ن لیگ کی 84، ق لیگ کی 55، اے این پی کی 14، ایم کیو ایم کی 25، ایم ایم اے کی سات، فنکشنل لیگ کی پانچ اور آزاد و دیگر کی 34 نشستیں تھیں، جب کہ تین نشستوں پر انتخاب اور ایک پر نتیجہ ملتوی ہو گیا تھا۔

پیپلز پارٹی کو حکومت بنانے کے لیے دیگر جماعتوں کی مدد کی ضرورت تھی۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی قیادت مری میں اکٹھی ہوئی، جہاں شراکت اقتدار کے لیے نو مارچ کو ’اعلانِ مری‘ جاری کیا گیا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت کی تشکیل کے 30 دن کے اندر اندر تین نومبر 2007 کو معزول کیے جانے والے ججوں کو بحال کر دیا جائے گا۔

24 مارچ کو یوسف رضا گیلانی 264 ووٹوں کے ساتھ وزیراعظم بنے۔ ان کے مد مقابل ق لیگ کے پرویز الٰہی کو 42 ووٹ مل سکے۔ 29 مارچ کو بننے والی 24 رکنی کابینہ میں ن لیگ کے نو وزرا شامل تھے جن میں سے چوہدری نثار علی خان کو سینیئر وزیر کا درجہ دیا گیا تھا۔

سندھ میں پیپلز پارٹی، خیبر پختونخوا میں اے این پی اور پنجاب میں ن لیگ کی حکومت بنی۔ اعلانِ مری کے تحت 29 اپریل تک معزول ججوں کو بحال کیا جانا تھا لیکن اس سےپہلے آصف زرداری نے یہ بیان دے کر کہ ’اعلانِ مری کوئی قرآن و حدیث نہیں‘ حکومتی اتحاد میں دراڑ ڈال دی۔

اس کے نتیجے میں ن لیگ صرف ڈیڑھ ماہ بعد ہی 13 مئی کو وفاقی حکومت سے مستعفی ہو گئی، لیکن ساتھ ہی یہ کہا کہ وہ اپوزیشن کے بنچوں پر نہیں بیٹھے گی بلکہ حکومت کی حمایت جاری رکھے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 دو بار وعدوں کے باوجود زرداری عدلیہ کی بحالی سے مکر گئے

2008 کے سیاسی منظر نامے میں عدلیہ بحالی تحریک زوروں پر تھی۔ پرویز مشرف بدستور صدر تھے جو کسی صورت عدلیہ کی بحالی نہیں چاہتے تھے۔ پیپلز پارٹی کے وزیرِ دفاع احمد مختار پرویز مشرف کو قومی اثاثہ قرار دے رہے تھے۔ اس لیے پہلے تو حکومتی اتحاد میں یہ الجھن پیدا ہوئی کہ معزول ججوں کی بحالی کے لیے صرف ایک قرارداد کافی ہو گی یا اس کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت ہو گی۔ آصف زرادری نے کہا کہ وہ آٹھ سال جیل میں رہے مگر انہیں ججوں نے انصاف فراہم نہیں کیا۔

دوسری طرف اس وقت کے چیف جسٹس عبد الحمید ڈوگر آصف زرداری کے قریب ہو گئے۔ مقدمات میں آصف زرداری کو ریلیف ملنا شروع ہو گیا اور یہ تاثر پروان چڑھا کہ پیپلز پارٹی اور مشرف دونوں نہیں چاہتے کہ معزول ججوں کو بحال کیا جائے، جس پر وکلا تحریک نے ن لیگ کی حمایت سے نو جون کو اسلام آباد میں لانگ مارچ کا اعلان کر دیا۔

اس وقت ایک اندازے کے مطابق اڑھائی لاکھ لوگ اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے سامنے اکٹھے ہوئے جنہوں نے دھرنا دینے کی بجائے تقریریں کر کے لانگ مارچ ختم کر دیا۔ اس وقت دہشت گردی زوروں پر تھی شاید اسی خطرے کے پیش نظر دھرنا نہیں دیا گیا۔

 آصف زرداری کی نظریں ایوانِ صدر پر تھیں، انہوں نے ایک بار پھر نواز شریف کو قائل کر لیا کہ مشرف کو نکالے بغیر معزول ججوں کی بحالی ممکن نہیں۔ سات اگست کو دونوں رہنماؤں کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس میں مطالبہ کیا گیا کہ مشرف مستعفی ہوں یا پھر مواخذے کی کارروائی کا سامنا کریں۔

اس مقصد کے لیے چاروں صوبائی اسمبلیوں کے اجلاس بلائے گئے جن میں قراردادوں کے ذریعے مطالبہ کیا گیا کہ مشرف اعتماد کا ووٹ حاصل کریں یا اپنا عہدہ چھوڑ دیں۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے 16 اگست کو بیان دیا کہ مشرف کے پاس عہدہ چھوڑنے کے لیے دو دن کا وقت ہے، بصورت دیگر ان کے خلاف مواخذے کی کارروائی شروع کر دی جائے گی۔

چنانچہ مشرف نے 18 اگست کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔ آصف زرداری ایک بار پھر ججوں کی بحالی سے پیچھے ہٹ گئے اور انہوں نے صدارتی انتخاب لڑنے کا اعلان کر دیا۔

مسلم لیگ نے ان کے مقابلے میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان سعید الزمان صدیقی کو اور ق لیگ نے مشاہد حسین سید کو صدارتی امیدوار نامزد کر دیا۔ آصف زرداری یہاں سب پر بھاری ثابت ہوئے اور وہ چھ ستمبر کو صدر منتخب ہو گئے۔

ججوں کی بحالی کے لیے نو مارچ 2009 کو ایک اور لانگ مارچ کا علان کیا گیا جس کی مسلم لیگ ن نے مکمل حمایت کا اعلان کر دیا۔ اس میں جماعت اسلامی اور عمران خان بھی وکلا کے شانہ بشانہ تھے۔

لانگ مارچ کی تیاریاں زورو شور سے جاری تھیں کہ 25 فروری کو آصف زرداری نے پنجاب میں گورنر راج لگاتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 234 کے تحت شہباز شریف حکومت کو ختم کر دیا جس کا مقصد لانگ مارچ کو ناکام بنانا تھا۔ اس کے باوجود حکومت لانگ مارچ کنٹرول کرنے میں ناکام ثابت ہوئی۔ لاہور سے قافلے تمام رکاوٹیں توڑتے ہوئے اسلام آباد کی جانب روانہ ہو گئے۔ راولپنڈی میں لانگ مارچ کے شرکا اور پولیس میں جھڑپیں ہوئیں۔

اسی دوران وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے 16 مارچ 2009 کو خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ تمام معزول ججوں بشمول افتخار چوہدری کو بحال کیا جاتا ہے، تاہم افتخار چوہدری 22 مارچ کو چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالیں گے کیونکہ عبدالحمید ڈوگر 21 مارچ کو ریٹائر ہو جائیں گے۔ 31 مارچ 2009 کو سپریم کورٹ کے ایک پانچ رکنی بینچ نے پنجاب میں گورنر راج کا خاتمہ کرتے ہوئے شہباز شریف حکومت کو بحال کر دیا۔

ایک زرداری سب پر بھاری

آصف زرداری نے پچھلے دورِ حکومت میں اپنے پتے نہایت کامیابی کے ساتھ کھیلے۔ انہوں نے وفاقی حکومت کے بننے کے بعد 30 دنوں کے اندر اندر معزول ججوں کی بحالی کا وعدہ کیا اور جب حکومت بنا لی تو اپنے وعدے سے پیچھے ہٹ گئے اور اس وقت تک یہ وعدہ ایفا نہ کیا جب تک ان کے پسندیدہ چیف جسٹس عبد الحمید ڈوگر ریٹائرمنٹ کی مدت تک نہیں پہنچے۔

وہ درپردہ نوز شریف کو قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ معزول ججوں کی بحالی میں وہ نہیں صدر مشرف رکاوٹ ہیں، اس لیے پہلے مشرف کو نکالا جائے پھر معزول جج بحال ہوں گے۔

چنانچہ انہوں نے مشرف کے مواخذے کے لیے سیاسی رہنماؤں کو ہم خیال بنا لیا۔ جب وہ مشرف سے استعفیٰ لینے میں کامیاب ہو گئے تو وہ خود صدر بن گئے۔ انہوں نے سیاسی جماعتوں کو اس بات پر قائل کر لیا کہ 1973 کے دستور میں فوجی آمروں جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کی جانب سے آٹھویں اور 17ہویں ترمیم کے ذریعے جو سنگین تبدیلیاں کی گئی ہیں انہیں ختم کیا جائے۔

اس مقصد کے لیے سینیٹر رضا ربانی کی قیادت میں پارلیمنٹ کی ایک 27 رکنی کمیٹی بنائی گئی جس نے آئین کے 97 آرٹیکلز میں ترامیم تجویز کیں جو دو تہائی اکثریت سے 18ویں ترمیم کی صورت منظور کر لی گئیں۔

جنرل اشفاق پرویز کیانی، جنہیں مشرف نے چیف آف دی آرمی سٹاف بنایا تھا، انہیں 21 جولائی 2010 کو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اگلے دورانیے کے لیے توسیع دے دی۔ یوں یہ تاثر پروان چڑھا کہ آصف زرداری طاقت کے تمام ایوانوں کو اپنے حق میں کرنے میں کامیاب ثابت ہوئے ہیں۔

تاہم میمو گیٹ سکینڈل اور یوسف رضا گیلانی حکومت کی برطرفی نے یہ ثابت کیا کہ طاقت کے ایوان آصف زرداری سے خوش نہیں تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ معاملات ان کے ہاتھ سے نکلتے گئے۔

2013 کے بعد وہ تقریباً11 سال بعد ایوان ِ صدر میں لوٹے ہیں۔ جب وہ صدر منتخب ہوئے تو ایک بار پھر یہ گونج سنائی دی کہ ’ایک زرداری سب پر بھاری!‘

اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مرتبہ وہ کیسے ثابت کرتے ہیں کہ وہ واقعی سب پر بھاری ہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ