سکھر میں دریائے سندھ پر 134 سالہ قدیم فولادی لینس ڈاؤن برج کو سندھ ہائی کورٹ نے قومی ورثہ قرار دے رکھا ہے۔
حال ہی میں اس پل کی مرمت اور اسے تفریحی مقام میں تبدیل کرنے کے منصوبے پر کام شروع ہو چکا ہے۔
برطانوی دور میں سندھ کے جُڑواں شہروں سکھر اور روہڑی کو ملانے والے لینس ڈاؤن برج کی تعمیر 1890 میں مکمل ہوئی۔
یہ پُل انیسوی صدی میں انجینیئرنگ کا نادر نمونہ سمجھا جاتا تھا۔ 240 میٹر طویل یہ پل ’کینٹی لیور‘ طرز پر تعمیر کیا گیا، جس کے تحت پل کا وزن اس کے کونوں پر مرکوز ہے اور پل کے نیچے کوئی سہارا نہیں۔
یہ پل ٹرین چلانے کے لیے بنایا گیا تھا، جس پر 73 سال تک ٹرینیں چلتی رہیں مگر بعد میں پُل کی خستہ حالی کے باعث ٹرینوں کی آمد و رفت بند کر دی گئی۔
نومبر 2023 میں ایک مقامی وکیل کی درخواست پر سندھ ہائی کورٹ نے نہ صرف پُل کو قومی ورثہ قرار دیا بلکہ اس کی مرمت کر کے محفوظ بنانے کا بھی حکم دیا۔
اب اس کی مرمت کا کام شروع ہو گیا ہے۔ بہت جلد یہ اثاثہ اپنی اصل شکل میں بحال ہو گا اور سیاحتی سرگرمیوں کے فروغ کا باعث بنے گا۔
پل کی بحالی کے لیے مقدمہ لڑنے والے وکیل سہیل میمن نے بتایا کہ ان کا تعلق بنیادی طور ہر روہڑی سے ہے اور وہ بچپن سے اسے دیکھ رہے ہیں۔
’اس سے خاصی انسیت ہے۔ جب پاکستان سے باہر جاتے ہیں تو وہاں مختلف قومی اثاثوں کو دیکھتے ہیں کہ کس ذمہ داری اورخوبصورتی سے ان کی دیکھ بھال کی جاتی ہے، مگر ہمارے ہاں ایسا نہیں ہو پاتا۔‘
ان کے مطابق: ’بدقسمتی سے ایک قومی ورثہ انتظامی لاپرواہی کی وجہ سے مسلسل تباہی سے دوچار رہا، جس پر 2000 میں سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی۔
’محکمہ ریلوے نے فنڈز کی کمی کی وجہ سے دیکھ بھال سے معذرت کی تو مختلف محکموں سے مسلسل خط و کتابت کے بعد 2023 میں سندھ ہائی کورٹ نے اسے قومی ورثہ قرار دے کر حکومت سندھ کے محکمہ ثقافت کو اس کی تزین وآرائش کے احکامات صادر کیے۔‘
سہیل کے مطابق پہلے مرحلے میں پل پر سے کَئی فٹ مٹی، گرد و غبار اور کچرہ صاف کرنے کا کام جاری ہے۔
’پل کے دونوں اطراف پیدل چلنے کی گزر گاہوں پر عرصہ دراز سے مختلف کمپنیوں نے بہت بھونڈے انداز میں اپنے فولادی پائپ گزارے تھے جس سے ایک تو یہ راستہ عوام کے لیے ناقابل استعمال ہو گیا بلکہ اس سے لکڑی کے تختے بھی بوسیدہ ہو گئے۔‘
انہوں نے بتایا کہ دوسرے مرحلے میں اس کی مرمت کا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے۔
’فٹ پاتھ پر اور دیگر حصوں کی مرمت کی جائے گی، جس کے بعد اس کے رنگ و روغن کا مرحلہ آئے گا۔ وہ بھی جلد شروع کیا جائے گا۔
’اس منصوبے کی تکمیل سے یہ قومی اثاثہ محفوظ ہوگا بلکہ سیاحتی سرگرمیوں کو بھی فروغ ملے گا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’جب اس پل کے بوسیدہ تختوں سے ایک 14 سالہ بچہ جو اپنی ماں کے ساتھ گزر رہا تھا دریا میں گر گیا تو اس وقت میِں نے تہیہ کیا کہ اس حوالے سے کچھ کرنا چاہیے۔
محقق اور تاریخ دان سید امداد علی شاہ نے بتایا کہ ’اس پل کو سر الیگزینڈر میڈوز رینڈل نے ڈیزائن کیا۔ یہ پل 1889 میں مکمل ہونے پر دنیا کا سب سے بڑا کینٹی لیور پل تھا۔ اس فولادی پل کی تیاری میں 3,300 ٹن فولاد استعمال ہوا۔‘
’لندن میں ویسٹ ووڈ، بیلی کی فرم نے تیار کیا تھا اور اسے ایف ای رابرٹسن اور ہیکیٹ نے تعمیر کیا۔
’پل سے سندھ اور بلوچستان کے درمیان ریل رابطہ باآسانی ممکن ہوا۔ اس پل کا نام ہندوستان کے وائس رائے لارڈ لینس ڈاؤن کے نام سے موسوم کیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’پل کا افتتاح 28 مارچ، 1889 کو بمبئی کے گورنر لارڈ رے نے کیا۔
’تقریب میں پل کے آہنی دروازوں پر لگا آرائشی تالہ کھولا گیا (جس کا ڈیزائن جے ایل کپلنگ، سی آئی ای، لاہور کے میو سکول آف آرٹ کے پرنسپل اور مشہور شاعر اور مصنف جوزف روڈیارڈ کے والد نے کیا تھا) جو اب بھی وہاں محفوظ ہے۔‘
امداد علی نے مزید بتایا کہ اس پل پر تالے اور اس کے آرکیٹیکٹ کے ہاتھ کاٹ دینے، اور ٹرین گزارنے پر ہوجمالو گانے سے متعلق بہت سی من گھڑت کہانیاں ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔‘
’پل کی تعمیر کے دوران چھ مزدوروں کی جانیں گئیں۔ چار آدمی چکرا کر بلندیوں سے گرے اور دو بھاری اوزار گرنے سے جان سے گئے۔ اس پل کی تعمیر کی لاگت اس وقت برطانوی کرنسی میں 21 ہزار 42 پاؤنڈز بتائی جاتی ہے۔‘
روہڑی پریس کلب کے صدر مجاہد بزدار نے بتایا کہ ’دیر سے شروع ہوا مگر بہت اچھا منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل سے علاقے میں سیاحتی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا۔ اس کے علاوہ علاقے کی خوبصورتی میں بھی اضافہ ہو گا۔
’پل سے بھاری ٹریفک کے گزرنے پر بھی پابندی پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے کیونکہ یہاں ٹریفک کا جام رہنا معمول ہے۔
’یہاں آنے والے ملکی اور اور غیر ملکی سیاح اس خوبصورت مقام کے باوجود یہاں سہولیات نہ ہونے کا شکوہ کرتے رہے ہیں۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔