نواز شریف کا انتظامی اجلاسوں کی صدارت قانونی ہے یا نہیں؟

ایڈوکیٹ ندیم سرور کی دائر کردہ درخواست پر پر سماعت لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مزمل اختر شبیر جمعرات کو کریں گے۔

نو فروری 2024 کی اس تصویر میں سابق وزیر اعظم نواز شریف اپنی بیٹی مریم  نواز کے ساتھ انتخابات کے ایک دن بعد لاہور میں حامیوں کے ساتھ ایک اجتماع میں شریک ہیں (اے ایف پی)

پنجاب حکومت کے ایک انتظامی اجلاس کے پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی صدارت میں منعقد کیے جانے کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔

ایڈوکیٹ ندیم سرور کی دائر کردہ درخواست پر پر سماعت لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مزمل اختر شبیر جمعرات کو کریں گے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے 18 مارچ کو اپنے والد اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے ساتھ مل کر ٹرانسپورٹ سیکٹر کے منصوبے کے جائزہ اجلاس کی مشترکہ صدارت کی تھی۔

بعدازاں صوبائی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری  نے میڈیا کو بتایا تھا کہ اجلاس میں میاں نواز شریف نے طلبا کے لیے موٹر سائیکلوں کی تعداد بڑھانے اور قرض کی ماہانہ قسط کم سے کم رکھنے کے علاوہ بسوں کے کرائے بھی کم سے کم مقرر کرنے کی ہدایات دی تھیں۔

ایڈوکیٹ ندیم سرور نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ میاں نواز شریف اب تک متعدد انتظامی اجلاسوں کی صدارت کر چکے ہیں، جب کہ وہ وزیر ہیں نہ وزیر اعلیٰ اور نہ ان کے پاس دوسرا کوئی حکومتی عہدہ ہے۔

’آئین کے آرٹیکل 129 کے تحت انتظامی امور کے حوالے سے فیصلے کرنا کابینہ یا وزیر اعلیٰ کا کام ہے لیکن میاں نواز شریف نہ کابینہ کا حصہ ہیں اور نہ ہی وزیر اعظم ہیں اور نہ ہی یہ مریم نواز کے سپیشل اسسٹنٹ ہیں۔‘

آئین پاکستان کے آرٹیکل 129 کے مطابق: ’1۔آئین کے تابع، صوبے کا انتظامی اختیار گورنر کے نام پر صوبائی حکومت استعمال کرے گی، جو وزیر اعلیٰ اور صوبائی وزرا پر مشتمل ہے، جو وزیر اعلیٰ کے ذریعے کام کرے گی۔ 2۔ آئین کے تحت اپنے فرائض کی انجام دہی میں وزیر اعلیٰ براہ راست یا صوبائی وزرا کے ذریعے کام کر سکتا ہے۔‘

 ایڈوکیٹ ندیم سرور کا مزید کہنا تھا: ’مریم نواز کو ان سے انتظامی امور پر مشورے لینے ہیں تو انہیں اپنا سپیشل اسسٹنٹ بنا لیں یا پھر وہ انہیں چھ ماہ کے لیے کسی محکمے کا وزیر بنا لیتیں کیونکہ اس کی اجازت آئین بھی دیتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میاں نواز شریف نے کوئی حلف نہیں اٹھایا اور اسی لیے وہ جو بھی مشورہ یا ہدایات جاری کریں گے اس پر ان کا احتساب نہیں ہو سکے گا۔

انڈپینڈنٹ اردو نے صوبائی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری سے متعدد بار رابطہ کیا لیکن خبر چھپنے تک ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

تاہم وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز جس دن صوبے کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ منتخب ہوئیں انہوں نے ایوان میں اپنی پہلی تقریر کے دوران کہا تھا: ’میری خوش قسمتی ہے کہ میاں نواز شریف کی رہنمائی مجھے حاصل ہے اور انہوں نے میرا ہاتھ تھاما ہوا ہے۔‘

مریم نواز نے یہ بھی کہا تھا: ’جس دن سے میری بطور وزیر اعلیٰ پنجاب نامزدگی ہوئی نواز شریف نے میرے ساتھ بیٹھ کر اگلے پانچ سال کے منصوبے ترتیب دیے۔ انہوں نے میٹنگز کی قیادت کی۔ انہوں نے ہر روز مجھے قیمتی مشورے دیے اور اپنے تجربے سے پورا فائدہ اٹھانے کا موقع دیا جو میں شاید 100 سال بھی کام کرتی تو وہ تجربہ حاصل نہ کر پاتی۔‘

سیاسی تجزیہ نگار اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب حسن عسکری کے خیال  میں اگر نواز شریف سے کسی اجلاس کی صدارت کروانی تھی تو اس کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب ایک کمیٹی بناتیں اور اس کی سربراہی میاں نواز شریف کو دی جاتی۔

’اس کے علاوہ انتظامی اجلاس کی صدارت وزیر اعلیٰ کر سکتا ہے لیکن جو کابینہ کا رکن نہیں ہے وہ آئینی طور پر صدارت نہیں کر سکتا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حسن عسکری کا کہنا تھا: ’مریم نواز کا میاں نواز شریف کے ساتھ رشتہ ہے اس کے تحت کسی سٹاف کے رکن میں اتنی ہمت نہیں ہوئی ہو گی کہ انہیں بتاتا کہ اس طرح صدارت کروانے میں آئینی ایشو کھڑا ہو سکتا ہے۔‘

میاں شہباز شریف بھی بحیثیت وزیر اعظم میاں نواز شریف سے مشورے لینے اکثر لندن جایا کرتے تھے۔

اس حوالے سے حسن عسکری کا کہنا تھا کہ مشورہ لینا الگ ہے۔ وہ لیے جا سکتے ہیں۔ ان پر آپ سیاسی اعتراض تو اٹھا سکتے ہیں لیکن کوئی قانونی اعتراض نہیں اٹھایا جا سکتا۔

’ایک فارمل سٹرکچر کے اندر انہیں شامل کرنا الگ بات ہے۔ اس کا ایک طریقہ کار ہے جس پر انہوں نے عمل نہیں کیا اسی لیے ان کے خلاف عدالت سے رجوع کیا گیا ہے۔‘

تجزیہ نگار و کالم نویس وجاحت مسعود کا خیال ہے کہ ’حذب اختلاف نے تنگ کرنا ہے۔ حکومت کو چلنے نہیں دینا۔ اس لیے وہ کوئی نہ کوئی مسئلہ تو نکالیں گے۔ لیکن بات یہ ہے کہ ہمیں عادت نہیں ہے کہ پارٹی کی قیادت اور جن کو پبلک آفس میں لے کر آنا ہے ان میں فرق ہو سکتا ہے۔

’کیا قائد اعظم لیاقت علی کی موجودگی میں صدرات نہیں فرماتے تھے۔ وہ تو گورنر جنرل تھے۔ ہیڈ آف دی سٹیٹ تھے۔ جب تک وہ زندہ رہے کوئی ایسا کابینہ کا اجلاس ہے جس کی صدارت لیاقت علی خان نے کی ہو؟ ایسا نہیں ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’ہم نے چونکہ یہ روایت قائم کرنا ہے کہ پارٹی کے سربراہ کو آؤٹ کرنا ہے انہیں جلا وطن کرنا ہے، ان کو مارنا ہے ان کو قتل کرنا ہے تو ہمیں اس کا نتیجہ بھی بھگتنا پڑے گا۔

’میں اصولی طور پرسمجھتا ہوں کہ میاں نواز شریف کو وہاں نہیں بیٹھنا چاہیے تھا کیونکہ انہوں نے حلف نہیں اٹھایا ہوا۔ پارٹی معاملات کی بات ہے تو کہیں اور جا کر صدارت کرتے۔ لیکن دوسرا رخ یہ ہے کہ ہم نے میاں نواز شریف کو سیاست سے زبردستی آؤٹ کیا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست