افغانستان میں لفظ پارٹی یا جماعت کا استعمال ایک جرم ہے: طالبان

طالبان کے قائم مقام وزیر انصاف کا کہنا ہے کہ پارٹی کا لفظ وزارت انصاف کے نظام کے تحت گذشہ برس ہی غیرقانونی قرار پایا تھا۔

افغانستان کی قائم مقام وزارت انصاف نے اعلان کیا ہے کہ ملک میں لفظ ’پارٹی یا جماعت‘ کا استعمال ایک ’جرم‘ ہے۔

افغان وزیر انصاف نے پہلے کہا تھا کہ شرعی قانون میں سیاسی جماعتوں کے وجود کی کوئی بنیاد نہیں ہے اور ان کی سرگرمیاں عوام کے مفاد میں نہیں ہیں۔

افغانستان کے قائم مقام وزیر انصاف عبدالحکیم شرعی نے کابل میں ایک پریس کانفرنس میں اسلامک پارٹی کے رہنما گلبدین حکمت یار کی رہائش گاہ سے متعلق وضاحت دیتے ہوئے زور دیا کہ افغانستان میں سیاسی جماعتوں پر پابندی ہے اور ’پارٹی‘ کا لفظ استعمال کرنا بھی طالبان قانون کے تحت جرم ہے۔

اس خطاب کی ویڈیو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر بھی جاری کی گئی جس میں ان کا کہنا تھا کہ ’یہ لفظ (جماعت) وزارت انصاف کے نظام سے گذشہ برس ہی غیرقانون قرار پایا تھا۔ پارٹیوں کی اس نظام میں کوئی جگہ نہیں ہے۔

’قانونی اعتبار سے سیاسی جماعت یا حزب کا نام لینا ایک جرم ہے۔ جب فتح آئی تو جس کو نظام اچھا لگا رک گیا جسے پسند نہیں آیا وہ مختلف راستوں سے نکل گیا۔ اگر پسند نہیں تھا تو چلے جاتے؟ جب اس نظام کو تسلیم کر لیا تو اب اس کے اصول اور قانون بھی مانیں گے۔ اب ایسی بات نہیں کریں گے کہ ہماری حیثیت ایسی ہے۔ حیثیت ختم ہوچکی ہے۔‘

انہوں نے گذشتہ سال اگست میں ملک میں سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں پر پابندی کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا ان پارٹیوں کی کوئی جائز بنیاد نہیں ہے۔ ’تجربے نے ثابت کیا ہے کہ افغانستان کی موجودہ بدقسمتی ان سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں کی وجہ سے ہے۔‘

امریکی ریڈیو آزادی کے مطابق طالبان کی جانب سے جماعتوں کو دبانے اور ختم کرنے کی کوششوں پر رد عمل بھی سامنے آیا ہے۔ مثال کے طور پر افغانستان میں نیشنل موومنٹ فار پیس اینڈ ڈیموکریسی کے چیئرمین کے نائب معاون شاہ محمود میاخیل نے اپنے ردعمل میں کہا کہ افغان وزارت انصاف کے نئے بیانات برسر اقتدار حکمرانوں کو برقرار رکھنے کے لیے افغانستان میں پارٹی سرگرمیوں میں رکاوٹ پیدا کر رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

طالبان نے 15 اگست 2021 کو افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے ساتھ ہی افغانستان میں اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا۔ ابتدا میں طالبان نے اپنا نقطہ نظر تبدیل کرنے اور رواداری کا مظاہرہ کرنے کا وعدہ کیا تاہم جلد ہی انہوں نے ذاتی اور سیاسی آزادیوں کا دائرہ تنگ کرنا شروع کر دیا۔

اس کے بعد افغان طالبان نے گذشتہ برس اگست میں افغانستان کی سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کی تھی۔  نگران وزیر انصاف شیخ مولوی عبدالحکیم شرعی نے کہا تھا کہ افغانستان میں سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں پر مکمل پابندی ہے۔

اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغان طالبان ایک تحریک کے طور پر اقتدار پر اپنا کنٹرول رکھنا چاہتے ہیں اور ملک میں سیاسی کثرتیت کی اجازت دینے کا ان کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

افغان طالبان زیادہ جامع حکومت کی تشکیل کے لیے بین الاقوامی دباؤ کی مخالفت کرتے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان کی 'عبوری حکومت' میں تمام نسلوں اور قبائل کے نمائندے شامل ہیں اور یہ وسیع البنیاد ہے۔

افغان طالبان نے سابق حکومت کے بقول اس کے ’بدنام اور کٹھ پتلی سیاست دانوں‘ کو اقتدار میں شامل کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی شرکت غیر ملکی قابض افواج اور ان کے ’کٹھ پتلیوں‘ کے خلاف ان کی طویل جدوجہد کے ساتھ غداری ہوگی۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا