افغان طالبان دہشت گردی کے خلاف اپنے وعدے پورے کریں: امریکہ

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھو ملر کا کہنا ہے کہ ہم یقینی بنائیں گے افغانستان میں دہشت گردوں کو کوئی محفوظ پناہ گاہ نہ ملے۔

28 مارچ، 2024 کی اس تصویر میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھو ملر ایک نیوز کانفرنس کے دوران(سکرین گریب: امریکی محکمہ خارجہ یوٹیوب)

امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ پرعزم ہے کہ افغانستان دوبارہ کبھی دہشت گردی کا مرکز نہ بن پائے اور طالبان پر دباؤ ڈالتا رہے گا کہ وہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف اپنے تمام وعدے پورے کریں۔

جمعرات کو امریکی محکمہ خارجہ میں صحافیوں کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھو ملر نے مزید کہا کہ ہم یقینی بنائیں گے افغانستان میں دہشت گردوں کو کوئی محفوظ پناہ گاہ نہ ملے۔

افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانے اور ان کو نشانہ بنانے کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر ترجمان نے کہا کہ ’ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہیں کہ افغانستان دوبارہ کبھی دہشت گردی کا مرکز نہ بن پائے اور ہم طالبان پر دباؤ ڈالتے رہیں گے کہ وہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف کیے گئے اپنے تمام وعدوں کو پورا کریں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم نے طالبان پر واضح کر دیا ہے کہ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ دہشت گردوں کو کوئی محفوظ پناہ گاہ نہ دیں چاہے وہ القاعدہ ہو یا داعش خراسان یا کوئی اور دہشت گرد تنظیم۔‘

میتھو ملر کا کہا تھا کہ ’ہم ان دہشت گرد گروہوں کے بڑھتے ہوئے خطرے کے خلاف چوکس رہتے ہیں اور داعش کو شکست دینے کے لیے ہمارا عالمی اتحاد اور سی فائیو پلس ون خطے سے دہشت گردی کے خطرات کی نگرانی کرنے، دہشت گردوں کی جانب سے فنڈز اکٹھا کرنے، سفر کرنے اور پروپیگنڈا پھیلانے کی صلاحیت کو روکنے کے لیے ہماری کوششوں کو تیز کرنے میں مدد گار ہے۔

جب محکمہ خارجہ کے ترجمان سے داعش کی طرف سے مغرب کو لاحق خطرات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: ’ہم داعش خراسان سمیت دہشت گرد گروہوں کی طرف سے لاحق بڑھتے ہوئے خطرے کے خلاف چوکنا رہتے ہیں۔

’تین سال قبل صدر (جو بائیڈن) کے عہدہ سنبھالنے کے بعد سے ہم نے دہشت گردی پر غیر متزلزل توجہ مرکوز رکھی ہے، دنیا بھر میں خطرات کو کامیابی سے روکنے اور داعش کو شکست دینے کے لیے یکطرفہ طور پر اور اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کیا ہے۔‘

ان کے بقول: ’اس کے علاوہ فروری 2022 میں صدر بائیڈن کے حکم پر کام کرتے ہوئے امریکی فوجی دستوں نے اسی سال کے آخر میں داعش کے سربراہ حاجی عبداللہ کو کامیابی سے نشانہ بنایا۔

’صدر کی ہدایت پر امریکہ نے کامیابی کے ساتھ کابل میں ایک فضائی حملہ کیا جس میں ایک مختلف دہشت گرد گروپ یعنی القاعدہ کے امیر ایمن الظواہری کو مارا گیا۔ اور ہم داعش کو اس کے اقدامات کے لیے جوابدہ بنانے اور امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے خلاف دہشت گردانہ حملوں کو روکنے کے لیے کام جاری رکھیں گے۔‘

افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد سے پاکستان کی جانب سے کئی بار یہ کہا گیا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے عناصر کو افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں میسر ہیں۔

پاکستان نے 16 مارچ 2024 کو قبائلی ضلعے شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے حملے میں سات فوج اہلکاروں کی موت کے بعد افغانستان میں موجود عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر حملے کیے تھے۔

جبکہ گذشتہ ہفتے پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا تھا کہ پاکستان نے 18 مارچ کو افغانستان میں عسکریت پسندوں کی پناہ گاہوں پر فضائی حملے کیے جبکہ افغان عوام یا فوج پر کوئی حملہ نہیں کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستانی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں مزید کہا تھا کہ ’پاکستان افغانستان کے عوام کا بہت احترام کرتا ہے۔ تاہم افغانستان میں برسراقتدار لوگوں میں سے بعض عناصر فعال طور پر ٹی ٹی پی کی سرپرستی کر رہے ہیں اور اسے پاکستان کے خلاف پراکسی کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔‘           

’ایک ایسے برادر ملک کے خلاف اس طرح کا رویہ، جو ہر مشکل وقت میں افغانستان کے عوام کے ساتھ کھڑا رہا، یہ ظاہر کرتا ہے کہ تنگ نظر سے کام لیا جا رہا ہے اور پاکستان کی جانب سے گذشتہ کئی دہائیوں کے دوران افغانستان کے عوام کی حمایت کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔

’ہم (افغانستان میں) برسراقتدار عناصر پر زور دیتے ہیں کہ وہ بے گناہ پاکستانی شہریوں کا خون بہانے والے خوارج دہشت گردوں کا ساتھ دینے کی پالیسی پر نظرثانی کریں اور پاکستان کے عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کا واضح انتخاب کریں۔‘

افغان طالبان کا ردعمل

افغان وزارت خارجہ نے صوبه پکتیکا اور خوست میں پاکستانی فوج کے ’حملوں کے نتیجے میں خواتین اور بچوں کی اموات‘ پر ردعمل میں کابل میں پاکستانی سفارت خانے کے سربراہ کو طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کروایا تھا۔

دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافے کے بعد واشنگٹن نے پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کرے اور کابل سے مطالبہ کرے کہ وہ عسکریت پسندوں کو سرحد پار حملے کرنے سے روکے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا