بلوچستان: کنوؤں میں پھنسے لوگوں کو بچانے والے رضاکار

عبدالرزاق كہتے ہیں كہ انہوں نے اپنی چھوٹی سی گاڑی کے کیمرے اور 300 میٹر لمبے تار کی مدد سے ابھی تک 15 سے زائد ایسے افراد جو بُور (كنویں) میں پھنسے ہوئے تھے، ریسكیو كیے ہیں۔

بلوچستان کے علاقے لورالائی كے رہائشی عبدالرزاق خروٹی پچھلے 10 سالوں سے میوزک پلیئر اور گاڑیوں کے پیچھے لگے حفاظتی كیمروں كی مرمت كا كام كرتے ہیں تاہم اس کے ساتھ وہ ایک انتہائی مہارت سے رضاکارانہ طور پر لوگوں کو بچانے کا کام بھی سر انجام دیتے ہیں۔

عبدالرزاق كہتے ہیں كہ سات سال قبل جب ان كے ایک گاہک نے انہیں بتایا كہ كیسے پانی كے لیے كھودے گئے كنویں میں ایک بچہ گر گیا تھا اور اسے نہ بچایا جاسکا جبکہ مرنے كے بعد اس كی جسم میں كُنڈا لگا كر باہر نكالنے میں بھی مشكلات پیش آئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس قصے کو سننے کے بعد انہوں نے سوچا كہ كیوں نہ كیمرے كی مدد سے سینكڑوں میٹر زمین كے اندر پھنسے زندہ انسانوں كی وہ مدد کریں جس سے اس طرح کے ریسکیو آپریشن میں سہولت ہو۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’جب میں نے سنا كہ وہ بچہ بچ نہ سكا تو میں نے سوچا كیوں نہ میں گاڑی كے كیمرے كو كام میں لا كر نیچے اتاروں جس سے بور میں پھنسے انسانوں كا آسانی سے جائزہ لیا جاسكتا ہے اور بچانے كے وقت كُنڈے کو كسی ایسی جگہ پھنسایا جائے جہاں یہ انسان كو اور تكلیف نہ ہو۔‘

عبدالرزاق كہتے ہیں كہ انہوں نے اپنی چھوٹی سی گاڑی کے کیمرے اور 300 میٹر لمبے تار کی مدد سے ابھی تک 15 سے زائد ایسے افراد جو بُور (كنویں) میں پھنسے ہوئے تھے، ریسكیو كیے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ان میں تین كیسز میں انہیں پوری كامیابی ملی کہ بچوں كو زمین كے سینكڑوں میٹر اندر سے واپس زندہ نكالا گیا۔

عبدالرزاق كہتے ہیں كہ وہ بلوچستان بھر میں بغیر كسی فیس اور معاوضے كے رضاكارانہ طور پر ریسكیو كے ان آپریشنز میں انسانی ہمدردی كے طور پر حصہ لیتے ہیں۔

عبدالرزاق نے بتایا كہ ’بوقت ضرورت جب متعلقہ حكام اور یا پھر عام لوگ مدد مانگتے ہیں تب میں اپنی دكان بند كر كے سینكڑوں میل دور حادثے والی جگہ جلد از جلد پہنچنے كی كوشش كرنے میں لگ جاتا ہوں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا کہ ’جب كوئی مجھے اس كام كے لیے فون كرتا ہے چاہے وہ كتنا ہی دور كیوں نہ ہوں تب میری حالت ایسی ہوتی ہے كہ میں ایک پرندے كی طرح اُڑ كر وہاں جلد از جلد پہنچ سكوں۔

’میں اسی وقت دكان كا شٹر بند كرتا ہوں اور گاڑی نكال كر سفر پر نكل جاتا ہوں، پھر چاہے مجھے دن لگے یا ہفتہ میں كام روزگار چھوڑ كر صرف وہی ریسكیو آپریشن میں لگا رہتا ہوں اور نہ ہی مجھے كسی نے اس كام كا ابھی تک كوئی معاوضہ دیا ہے اور نہ ہی میں كسی قسم كا كوئی معاوضہ لیتا ہوں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اب تو پولیس اور لیویز كے ساتھ ساتھ پروینشنل ڈزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) والے بھی ضرورت كے وقت رابطہ كر لیتے ہیں اور میں موقعے پر پہنچ جاتا ہوں۔‘

بلوچستان سمیت پاكستان كے كسی بھی صوبے اور علاقے میں كھودے گئے بورنگ ٹیوب ویلز كی صحیح تعداد اب تک نہ ہی حكومتی اداروں اور نہ ہی كسی غیر سركاری تنظیم كو معلوم ہے۔

تاہم 1999 سے دبئی میں قائم زرعی تحقیقاتی ادارے ’انٹرنیشنل سینٹر فار بائیو سیلائن ایگری کلچر‘ میں آبپاشی کے سائنسدان ڈاکٹر اسد قریشی کے تحقیقی مقالے کے مطابق تقریباً چھ دہائیوں (1960 سے 2018) میں پاكستان بھر میں ٹیوب ویلوں کی تعداد 30 ہزار سے بڑھ کر 12 لاکھ ہوگئی ہے۔

ڈاكٹر اسد قریشی كی تحقیق كے مطابق پاکستان زیر زمین پانی استعمال کرنے والا  دنیا كا تیسرا بڑا ملک ہے، جو دنیا میں زیر زمین سے نکلنے والا نو فیصد پانی استعمال کرتا ہے۔

زیر زمین پانی كے لیے كھودے گئے  کنوے آنے والے سالوں میں دوسرے موسمیاتی خطرات كے ساتھ ساتھ بلوچستان جیسے غیر ترقی یافتہ صوبے میں سوكھے ہوئے ان كنوں میں سالانہ جانوروں كے ساتھ انسان خاصوصی طور پر بچے بھی گر جاتے ہیں۔

پی ڈی ایم اے کے ترجمان مقبول جعفر نے بتایا کہ سال 2023 میں بلوچستان میں ٹیوب ویل یا بور کی کھدائی کے دوران بچوں کے گرنے کے واقعات میں اضافے ہوا تھا، جس کے سبب پی ڈی ایم اے نے بلوچستان کے تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو خط لکھ کر سفارش كی تھی کہ زمینداروں کو ٹیوب ویل یا بور لگانے کے لیے باقاعدہ اجازت لینے کا پابند کیا جائے اور ٹیوب ویل یا بور کھودنے کے وقت اور بعد میں اس کو مکمل بند رکھا جائے۔

تاہم خشک سالی كے سبب زیر زمین پانی کی سطح نیچھے گرنے اور بالكل ختم ہونے كی وجہ سے زیادہ تر علاقوں میں كھودے گئے كنوے اب بالکل ناكارہ بھ ہو چکے ہیں۔

اب بھی نہ تو ان كنوں كی دوبارہ بھرائی كی جاتی ہے اور نہ ہی اسے مستقل طور پر بند كیا جاتا ہے، جس كے سبب ملک بھر میں وقتاً فوقتاً كنوؤں میں بچوں كے گرنے اور اموات کی خبریں آتی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی