ٹیم کا اعلان اور کپتانی کا میوزیکل چیئر گیم

کیا ہی اچھا ہو کہ پاکستان ٹیم کپتانی کی بحث سے نکل کر ایک ہو کر کھیلے اور ہم سب کو وہ خوشی دے جس کا ہم کافی انتظار ہے۔

14 ستمبر، 2023 کو کولمبو میں ایشا کپ 2023 کے پاکستان اور سری لنکا کے مابین میچ سے قبل بارش پر بابر اعظم اور شاہین آفریدی کا ایک انداز (اے ایف پی)

نیوزی لینڈ کے خلاف پانچ میچوں کی ٹی ٹوئنٹی سیریز کے لیے پاکستان کی 18 رکنی ٹیم کا اعلان اگلے ایک دو روز میں ہونے والا ہے۔ یہ سیریز 18 سے 27 اپریل تک راولپنڈی اور لاہور میں کھیلی جائے گی۔

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے سیریز کی تیاری کے لیے کاکول میں پاکستان آرمی کے ٹرینرز کی نگرانی میں فزیکل ٹریننگ کیمپ کا انعقاد کیا جس میں 29 کھلاڑی شریک تھے۔

یہ تحریر آپ کالم نگار کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں:

کیمپ کا بنیادی مقصد اس مصروف انٹرنیشنل سیزن کے لیے کھلاڑیوں کو مکمل طور پر فٹ رکھنا تھا۔ سیزن میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے نیوزی لینڈ کے خلاف ہوم سیریز کے بعد انگلینڈ اور آئرلینڈ میں ٹی ٹوئنٹی سیریز کھیلنی ہے، جس کے بعد اس کا سب سے بڑا امتحان ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ہوگا۔

اگر ہم نیوزی لینڈ کے خلاف ہوم سیریز کے لیے ممکنہ  ٹیم پر نظر ڈالیں تو اس میں جو سب سے زیادہ دلچسپی کی بات ہو سکتی ہے وہ عماد وسیم اور محمد عامر کی واپسی ہو گی۔

یہ واپسی مجھے ہی نہیں بلکہ کسی کے لیے غیرمتوقع نہیں کیونکہ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے بعد ان دونوں نے جس طرح انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ واپس لے کر خود کو سلیکشن کے لیے دستیاب کر لیا اس کے بعد یہ بات واضح ہو گئی تھی  کہ یہ دونوں حتمی سکواڈ میں ضرور شامل کیے جائیں گے۔

ٹیم میں ایک نیا چہرہ بھی نظر آنے والا ہے اور وہ ہیں عثمان خان، لیکن اس سے قبل میں عماد اور عامر کے بارے میں بات کرنا چاہوں گا۔

سب کو اچھی طرح یاد ہوگا کہ عماد نے گذشتہ سال فرنچائز کرکٹ کو پاکستان ٹیم پر ترجیح دیتے ہوئے ریٹائرمنٹ لی تھی جبکہ عامر نے اس وقت کی ٹیم مینیجمنٹ پر ذہنی ٹارچر کا الزام عائد کرتے ہوئے پاکستان ٹیم سے راہیں جدا کرلی تھیں۔

انہوں نے اس وقت کے ہیڈ کوچ مصباح الحق اور بولنگ کوچ وقار یونس پر تنقید اور طنز کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا تھا اور ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ ہر دوسرا شخص ان پر طنز کرتا ہے اور ان کے ساتھ کھیلنا نہیں چاہتا۔

سب کو یہ بات بھی اچھی طرح یاد ہو گی کہ جب عامر کو نیوزی لینڈ کے دورے میں شامل نہیں کیا گیا تو انہوں نے مصباح کا نام لے کر ٹویٹ کیا کہ ٹیم سے باہر کیے جانے کے بارے میں آپ مصباح سے ہی پوچھیں۔

عامر سپاٹ فکسنگ میں جیل کاٹنے کے بعد جب نجم سیٹھی کی مہربانی کے نتیجے میں فاسٹ ٹریک فارمولے کے تحت انٹرنیشنل کرکٹ میں واپس آئے تو ان سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کی گئی تھیں۔

لیکن سب نے دیکھا کہ پانچ سال انٹرنیشنل کرکٹ سے دوری کے بعد ان میں پہلے جیسی بات نہیں رہی تھی۔ اگرچہ چیمپئینز ٹرافی کے فائنل میں ان کا سپیل آج بھی سب کو یاد ہے۔

اس کے علاوہ جنوبی افریقہ اور ویسٹ انڈیز میں ایک دو ٹیسٹ میچوں میں انہوں نے اچھی بولنگ کی لیکن مجموعی طور پر وہ واپسی کے بعد کوئی خاص تاثر نہیں چھوڑ پائے تھے۔

اب جب انہوں نے انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ واپس لے کر خود کو دوبارہ پاکستان ٹیم کے لیے دستیاب کیا ہے تو کچھ حلقے ان کی واپسی کو اسی داغ دار سپاٹ فکسنگ سکینڈل کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔

جیسا کہ گذشتہ دنوں رمیز راجہ نے اپنے ایک انٹرویو میں اپنا وہی پرانا مؤقف دہرایا کہ وہ کرکٹرز جو سپاٹ فکسنگ یا میچ فکسنگ میں ملوث رہے ہوں انہیں دوبارہ ملک کی نمائندگی کا حق حاصل نہیں ہونا چاہیے۔

اب سب سے اہم سوال یہ ہے کہ عامر ٹیم میں واپس آنے کے بعد کیا پہلے جیسی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے قابل ہوسکیں گے؟ کیونکہ وہ پاکستان کرکٹ کے دھارے سے باہر ہونے کے بعد سے مختلف ملکوں میں فرنچائز کرکٹ کھیلتے رہے ہیں۔

اگر ہم ان کی فرنچائز کرکٹ میں حالیہ کارکردگی پر نظر ڈالیں تو انہوں نے گذشتہ کیریبئن پریمیئر لیگ میں 16 وکٹیں حاصل کیں۔ پاکستان سپر لیگ میں ان کی حاصل کردہ وکٹوں کی تعداد 10 رہی جبکہ آئی ایل ٹی ٹوئنٹی میں وہ 12 وکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔

عماد کی واپسی کی ایک بڑی وجہ لیفٹ آرم سپنر محمد نواز کی مسلسل مایوس کن کارکردگی بھی ہے اور پھر پی ایس ایل کے چند میچوں میں عماد کی عمدہ کارکردگی نے بھی اس واپسی کو ممکن بنایا۔

یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ عماد ہوں یا عامر، ان دونوں نے سوشل میڈیا اور ٹی وی پر بیٹھ کر کپتان بابراعظم پر کھل کر تنقید کی تھی اور  کہا کہ بابر کی کپتانی کا مائنڈ سیٹ ٹیم کو متاثر کر رہا ہے۔

اب یہ دونوں اسی بابر کی کپتانی میں کھیلیں گے تو لوگوں کا یہی سوال ہے کہ اب کیا ہو گا؟ اب وہ کس طرح اپنے کپتان کا سامنا کریں گے؟

عامر اور عماد کی واپسی کو کچھ حلقوں نے پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا اور عام رائے یہی ہے کہ جب آپ کے موجودہ کھلاڑی ڈومیسٹک کرکٹ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں تو پھرانہیں موقع کیوں نہیں دیا جائے،  پیچھے پلٹ کر کیوں دیکھا جائے؟

اس ضمن میں دو باصلاحیت لیفٹ آرم سپنرز عرفات منہاس اور مہران ممتاز کی مثالیں دی جا رہی ہیں۔

اب کچھ بات کرلیتے ہیں عثمان خان کی، جنھوں نے بڑی سخت زندگی گزاری ہے اور محنت مشقت کے کام کرنے کے بعد انہوں نے متحدہ عرب امارات میں کرکٹ کھیلی اور ایمریٹس کرکٹ نے انہیں اپنے دھارے میں شامل بھی کیا۔

لیکن اب وہی ایمریٹس کرکٹ بورڈ ان سے سخت ناراض ہے کہ انھوں نے یواے ای کرکٹ کے قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کر کے خود کو پاکستان کی کرکٹ سے منسلک کر لیا جس کی وجہ سے ان پر امارات میں پانچ سال کی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

عثمان پچھلے دو سیزن سے پی ایس ایل میں اوورسیز کرکٹر کے  طور پر ملتان سلطانز کی طرف سے غیرمعمولی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں جس کی وجہ سے پاکستانی ٹیم میں ان کے لیے دروازے کھلنے والے ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات میں اپنی کشتیاں جلا کر پاکستان کی کرکٹ سے ناطہ جوڑنے والے عثمان کے لیے یہاں کیا مستقبل رہتا ہے؟ 

اب آتے ہیں بابر کی کپتانی کی جانب جنہیں شاہین شاہ آفریدی کی جگہ دوبارہ وائٹ بال کا کپتان بنایا گیا ہے۔

انہیں کپتان بنائے جانے پر سب سے پہلا اعتراض شاہد آفریدی کی طرف سے سامنے آیا جو شاہین شاہ آفریدی کے ُسسر بھی ہیں۔

انہوں نے ٹویٹ کیا کہ کپتان کی تبدیلی کا فیصلہ جو سلیکشن کمیٹی میں موجود تجربہ کار کرکٹرز نے کیا ان کے لیے حیران کن ہے۔ اگر یہ تبدیلی اتنی ہی ضروری تھی تو رضوان بہترین انتخاب ہوسکتے تھے لیکن اب چونکہ یہ فیصلہ ہوچکا ہے لہٰذا وہ بابراعظم کو مکمل سپورٹ کریں گے۔

اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ شاہد آفریدی شاہین کو کپتانی سے ہٹائے جانے کے فیصلے سے خوش نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شاہین کو جب بابر کی جگہ ٹی ٹوئنٹی کا کپتان بنایا گیا تھا تو کچھ لوگ اس فیصلے کے حق میں پیش پیش نظر آئے تھے جن میں لاہور قلندرز کے ہیڈ کوچ عاقب جاوید قابل ذکر تھے۔

بلکہ اس فیصلے سے قبل ہی ان کی طرف سے یہ بیان سامنے آیا تھا کہ چونکہ لاہور قلندرز نے شاہین کی کپتانی میں لگاتار دو پی ایس ایل جیتی ہیں لہٰذا ٹی ٹوئنٹی کا کپتان شاہین کو ہی ہونا چاہیے۔

شاہین کی کپتانی صرف نیوزی لینڈ کے دورے میں کھیلی گئی ٹی ٹوئنٹی سیریز تک ہی محدود رہی۔ وہ سیریز پاکستان ٹیم چار ایک سے ہاری تھی جس کے بعد یہ قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ شاہین کپتان برقرار رہ سکیں گے یا نہیں؟

بابر کو کپتانی سے ہٹانے کے معاملے میں سابق چیئرمین ذکا اشرف پیش پیش تھے۔

ورلڈ کپ کے بعد ناصرف بابر کو کپتانی چھوڑنی پڑی تھی بلکہ پورا کوچنگ سٹاف بھی تبدیل کردیا گیا اور ایک ایسے سابق ٹیسٹ کرکٹر کو ہیڈ کوچ بنایا گیا جو ذکا اشرف ہی کی قائم کردہ  ٹیکنیکل کمیٹی چھوڑ کر چلے گئے تھے۔

اور جب انہوں نے ہیڈ کوچ کا عہدہ چھوڑا تو ڈریسنگ روم اور ٹیم کے اندرونی معاملات کی کہانیاں وہ ٹی وی شو میں بیٹھ کر بیان کرتے رہے۔

بابر کے لیے دوبارہ کپتان بننا ایک چیلنج ہے۔ یقیناً انہیں انڈیا میں منعقدہ ورلڈ کپ کی کپتانی سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہو گا کہ ان سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں کیونکہ یہ صرف نیوزی لینڈ، انگلینڈ اور آئرلینڈ سیریز کی بات نہیں بلکہ اصل امتحان ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ہے۔

انہیں اپنے ساتھی کرکٹرز کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہو گا اور اور ایک ایسا ماحول رکھنا ہوگا جو کسی بھی ٹیم کی کامیابی کے لیے ضروری ہوتا ہے۔

بابر ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں سب سے زیادہ میچ جیتنے والے پاکستانی کپتان ہیں۔ ان کی کپتانی میں خامیاں تلاش کرنے والے یہ تو بتاتے ہیں کہ ان کی کپتانی میں پاکستان کوئی ٹائٹل نہیں جیتا۔

لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ ان کی کپتانی میں ہم ایک ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ فائنل، ایک ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سیمی فائنل اور ایک ایشیا کپ فائنل بھی کھیل چکے ہیں۔

میں اپنی بات کا اختتام اس بات پر کروں گا کہ آخر ہر ورلڈ کپ سے قبل ہی کپتانی کا معاملہ نکل کر کیوں سامنے آتا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ آصف اقبال، عمران خان اور وسیم اکرم کے علاوہ کسی بھی کرکٹر نے ایک سے زائد بار ورلڈ کپ میں کپتانی نہیں کی۔

ہر ورلڈ کپ سے قبل کپتانی کا معاملہ شہ سرخیوں میں رہا ہے۔ یہی صورت حال ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے قبل ہمیں نظر آئی ہے۔

کیا ہی اچھا ہو کہ کپتانی کے اس میوزیکل چیئر گیم کے بجائے اصل گیم پر توجہ دی جائے تاکہ ٹیم کپتانی کی بحث سے آزاد ہوکر ایک ہو کر کھیلے اور ہم سب کو وہ خوشی دے سکے جس کا ہم کافی عرصے سے انتظار کر رہے ہیں۔

یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ