عماد و عامر: کیا ریٹائرڈ کرکٹرز کو دوبارہ موقع دینا چاہیے؟

عماد وسیم اور محمد عامر کو اگر قومی ٹیم میں شامل کرنا مقصود ہے تو پہلے انہیں ڈومیسٹک کرکٹ میں حصہ لینا چاہیے اور اپنی اہلیت ثابت کرنی چاہیے۔

کیا پی سی بی سمجھ سکتی ہے کہ جب کھلاڑی قومی ٹیم کو اہمیت نہ دیں اور اپنی مرضی کے فارمیٹ منتخب کریں تو ان کے ساتھ رعایت نہیں برتی جاتی بلکہ سزا دی جاتی ہے (اے ایف پی)

پاکستان کرکٹ کے معاملے میں بھی وہ ملک بن گیا ہے جس نے قومی سیاست کو بھی مات دے دی ہے۔

یہاں جب جب جس جس کا دل چاہتا ہے وہ قومی ٹیم میں شامل ہو جاتا ہے اور جب دل کرتا ہے لات مار کر چلا جاتا ہے۔ اور اس دوران جتنا وہ غرور اور گھمنڈ کا مظاہرہ کرتا ہے اتنا ہی پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) اس کے سامنے جھکتا چلا جاتا ہے۔

وہ اس کی ہر جائز ناجائز خواہش کو پورا کرتا ہے حتی کہ کپتانی بھی چھین کر ان کے حوالے کر دیتا ہے، چاہے ان کی کارکردگی قابل ذکر ہو یا نہ ہو۔

عماد وسیم اس کی تازہ ترین مثال ہیں جنھوں نے دبئی لیگ کو کھیلنے کے لیے قومی ٹیم کو الوداع کہا اور پیسوں کی ریل پیل سے بھری دبئی لیگ پہنچ گئے جہاں ان کے ایک اور ساتھی محمد عامر ان کا انتظار کر رہے تھے۔

عماد وسیم کو پی سی بی سے شکایت تھی کہ اس نے قومی ٹیم سے انہیں ڈراپ کر دیا اور سال بھر کوئی میچ نہیں کھیلنے دیا۔ عماد نے گذشتہ سال اپریل میں بورڈ کو سخت الفاظ میں دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر انہیں کسی وجہ کے بغیر ڈراپ کیا گیا تو وہ سخت ایکشن لیں گے۔

ان کا یہ انداز حیران کن تھا!

عماد وسیم نے آخری سیریز پاکستان کی طرف سے نیوزی لینڈ کے خلاف 2023 میں کھیلی تھی جس میں انہوں نے پانچ میچوں میں آٹھ وکٹ لیے اور 52 رنز بنائے۔ اس سیریز کے بعد چونکہ پاکستان کی کوئی ٹی ٹوئنٹی سیریز نہیں ہوئی لہدا انہیں موقع نہ مل سکا۔

عماد وسیم کو شکوہ یہ تھا کہ انہیں ون ڈے ٹیم میں نہیں شامل کیا گیا۔ جس کی بنیاد پر وہ ورلڈکپ کے لیے بھی منتخب نہ ہوسکے۔

بورڈ سے اختلافات اور ریٹائرمنٹ

عماد وسیم نے اس دوران کیریبین اور دبئی لیگز میں حصہ لیا۔ دبئی لیگ کی این او سی نہ ملنے پر وہ سیخ پا ہوئے اور بورڈ کے خلاف سخت بیانات دیے۔

دبئی لیگ کے پی سی بی کے ساتھ اختلافات کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔  اور پی سی بی کی ذکا اشرف انتظامیہ ہر پاکستانی کھلاڑی کا دبئی لیگ میں راستہ روکنا چاہتی تھی۔ یہی ایک وجہ تھی جس کے باعث عماد وسیم کو این او سی نہیں دیا گیا۔

البتہ اس دوران عماد وسیم کو کہا گیا کہ وہ ڈومیسٹک کرکٹ میں حصہ لیں لیکن ایک ٹی وی چینل پر انہوں نے واضح انداز میں اعلان کیا کہ وہ اس نچلے درجے کی ڈومیسٹک کرکٹ میں حصہ نہیں لیں گے۔

بورڈ سے کھرا جواب ملنے پر عماد وسیم نے انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا جس کے بعد ان پر پی سی بی کی پابندیوں کا اطلاق نہیں ہوسکتا تھا۔

ریٹائرمنٹ کا مشروط خاتمہ

اگرچہ حالیہ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں ان کی کارکردگی بہت زیادہ متاثر کن نہیں تھی لیکن آخری تین پلے آف میچوں میں فتح کی حامل پرفارمنس نے انہیں ایک دم زیرو سے ہیرو بنا دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کرکٹ سے نابلد سیاسی اینکروں نے ان کو قومی ٹیم کا جزو لاینفک قرار دے کر بورڈ پر دباؤ ڈال دیا۔ پھر کیا تھا کل تک منتیں سماجتیں کرنے والے عماد وسیم اب ایک خودمختار کھلاڑی بن گئے اور بورڈ کو دھمکیاں دینے لگے کہ اگر ٹیم میں کھلاؤگے تو ریٹائرمنٹ واپس لوں گا۔

بورڈ نے بھی خفیہ طریقے سے سب کچھ مان لیا اور اپنے ہی اصولوں کو توڑ دیا۔  حالانکہ عماد وسیم میڈیا میں اکثر بابر اعظم، شاہین آفریدی سمیت دیگر کھلاڑیوں پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا ان کی واپسی سے ڈریسنگ روم کا ماحول خراب نہیں ہوگا؟

اوسط درجے کے کیرئیر کے حامل عماد وسیم جنہوں نے 66 میچوں میں 65 وکٹ اور 486 رنز بنائے ہیں۔ جو کسی بھی طرح کسی اعلی معیار کے آل راؤنڈر کی عکاسی نہیں کرتے۔ ان کی موجودہ ٹیم میں جگہ بننا مشکل ہے لیکن وہ  اب پی سی بی کے چیئرمین سے زیادہ اختیارات کے مالک بن چکے ہیں۔ شاید اب کپتان بھی ان کی مرضی سے بنے گا اور لگتا ہے کہ جو وہ کہیں گے وہ پتھر کی لکیر ہوگا۔

پی سی بی نے جس معصومیت سے ان کی تمام شرائط کو مان کر سر پر بٹھا لیا ہے اس میں عماد سے محبت سے زیادہ ایک سیلکٹر کی بابر اعظم سے مخاصمت نظر آتی ہے جو ہر صورت میں بابر گروپ کو توڑنا چاہتے ہیں۔

محمد عامر بھی واپس

لارڈز میں بدنام زمانہ فکسنگ سکینڈل کے بعد محمد عامر خوش قسمت رہے کہ انہیں پابندی ختم ہونے کے بعد قومی ٹیم میں دوبارہ جگہ مل گئی۔ ورنہ ان کے باقی دو ساتھی تو ایڑیاں رگڑتے رہے مگر کنواں نہ مل سکا۔

اپنے ابتدائی دور میں بجلی کی کڑک کی طرح چمکنے والے محمد عامر کے بارے میں سب کی متفقہ رائے تھی کہ وہ پاکستان کے دوسرے وسیم اکرم ہوں گے لیکن بظاہر پیسے کی چمک دمک انہیں منفی راستے پر لے گئی۔

اپنے کیرئیر کے دوسرے حصے میں ان کی بولنگ کی وہ کاٹ اور چابکدستی عنقا ہوگئی جس نے کبھی مہان بلے بازوں کو پریشان کیا تھا۔ عامر کی بولنگ کا ایک ہی نظارہ پھر دیکھنے کو ملا تھا جب انہوں نے 2017 میں چیمپئینز ٹرافی کے فائنل میں انڈیا کی پہلی تین وکٹ لے کر کمر توڑ دی تھی۔

عامر اس کے بعد پھر کوئی خاص کارکردگی نہ دکھا سکے۔ 2019 کے ورلڈ کپ میں ان پر بہت زیادہ دارو مدار تھا لیکن وہ یکسر ناکام رہے اور ٹیم کی جیت میں کوئی کردار ادا نہ کرسکے۔ اپنی حراب ہوتی ہوئی کارکردگی کے باعث انہوں نے ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے لی۔

وہ 2020 میں انگلینڈ کے دورہ پر پاکستانی ٹیم کا حصہ تھے لیکن کارکردگی خراب ہونے کے بنا پر وہ تینوں ٹی ٹوئنٹی میچ نہ کھیل سکے۔ دورہ سے واپسی پر وہ فرنچایز لیگز کھیلنا چاہتے تھے لیکن بورڈ سے این او سی نہ ملنے پر وہ ناراض ہوگئے۔ انہوں نے بورڈ کے انکار کو ذہنی اذیت کا سبب قرار دے کر انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا تھا۔

انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ فرنچائز لیگز میں حصہ لیتے رہے لیکن کوئی قابل ذکر کارکردگی سامنے نہ آسکی۔ ویسے بھی زیادہ تر لیگز ریٹائرڈ اور کم معیار کے کھلاڑیوں پر مشتمل تھی۔

حالیہ پی ایس ایل میں وہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کا حصہ بنے لیکن کسی ایک میچ میں بھی قابل ذکر بولنگ نہ کرسکے۔ ان کی کارکردگی اوسط درجے سے بھی کم رہی۔

البتہ بعض مواقع پر ان کا جارحانہ رویہ ان کی پہچان بن گیا۔

کیا پی ایس ایل ہی قومی ٹیم کا معیار ہے؟

پاکستان کرکٹ میں کسی کو بھی کسی وقت اچانک ہیروز بنا دیا جاتا ہے۔ پی ایس ایل کی ایک آدھ اننگز پر قومی ٹیم میں شامل کر لیا جاتا ہے۔ ماضی میں شرجیل خان، اعظم خان، صائم ایوب، احسان اللہ عباس آفریدی وغیرہ اچانک ایک دو پرفارمنس پر قومی ٹیم کا حصہ بن گئے۔

لیکن انٹرنیشنل کرکٹ کا معیار اور ماحول پی ایس ایل سے بہت اونچا اور مشکل ہوتا ہے۔ وہاں ایک منظم اور اعلی معیار کی کرکٹ کھیلنا پڑتی ہے اس لیے یہ کھلاڑی بری طرح ناکام ہوگئے۔

پی ایس ایل کو معیار بناکر اب پھر چند کھلاڑیوں کو قومی ٹیم کا حصہ بنانے پر زور دیا جارہا ہے لیکن نئی سلیکشن کمیٹی کو جس میں پرانے چہرے ہی ہیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ پی ایس ایل اور ورلڈ کپ کے معیار کا کوئی مقابلہ ہے نہ مثال۔

انٹرنیشنل کرکٹ میں دباؤ برداشت بھی کرنا پڑتا ہے اور خود کو سو فیصد کارکردگی کے لیے تیار رکھنا پڑتا ہے جبکہ پی ایس ایل میں مسابقت اور دباؤ میں کرکٹ بالکل نظر نہیں آتی ہے۔ مختصر گراؤنڈز، غیر معیاری فیلڈنگ نے اوسط درجے کے کھلاڑی بھی مین آف دا میچ بنوا دیے۔ کچھ بلے بازوں کی اننگز میں ان کی اہلیت سے زیادہ مخالف ٹیم کی بدترین فیلڈنگ معاون رہی۔

کیا ریٹائرڈ کھلاڑیوں کو واپس آنا چاہیے؟

اگرچہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں اور کوئی بھی کھلاڑی قومی ٹیم کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ اس کی کارکردگی، فٹنس، سٹمنا بہتر ہے اور اس کی جگہ بنتی ہے تو شامل کرلینا عقل سے بالاتر نہیں ہوگا۔ لیکن کسی بھی کھلاڑی کو اس کی شرائط اور مطالبات پر شامل کیا جاتا ہے تو اس سے اس کھلاڑی کی خودسری میں صرف اضافہ نہیں ہوگا بلکہ ٹیم کا ماحول بھی خراب ہوگا۔

متعدد کھلاڑی لیگز کو این او سی نہ ملنے کے باعث انکار کرچکے ہیں جن میں بابر اعظم سر فہرست ہیں۔ کیا وہ بھی وقتی ریٹائرمنٹ لے کر کروڑوں روپے سمیٹتے اور پھر واپس آجاتے؟

عماد وسیم اور محمد عامر نے اپنی خواہشات پوری نہ ہونے کے باعث ریٹائرمنٹ لی تھی اور جب انہیں ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنا چاہیے تھا تو وہ فرنچائز لیگز کھیل رہے تھے۔ 

پی سی بی کے ذمہ داران کو سوچنا ہوگا کہ کیا کسی بھی کھلاڑی کا یہ عمل قابل تعریف ہے کہ وہ جب چاہے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دے اور جب چاہے ٹیم میں اپنی شرائط پر واپس آجائے۔ پھر بورڈ بھی اس کا استقبال اس طرح کرے کہ آیئے سرکار! ہم تو آپ کی راہوں میں آنکھیں بچھائے بیٹھے ہیں۔ آپ جب چاہے آئیں جب چاہے جائیں۔

عماد وسیم اور محمد عامر کی کارکردگی فی الحال کسی بھی طرح قومی ٹیم میں شمولیت کی بنیاد نہیں بن سکتی لیکن ان کو اگر قومی ٹیم میں شامل کرنا مقصود ہے تو پہلے انہیں ڈومیسٹک کرکٹ میں حصہ لینا چاہیے اور اپنی اہلیت ثابت کرنی چاہیے۔

اگر ان کی پیراشوٹ شمولیت کی گئی تو پی سی بی کو اپنے وہ تمام قواعد وضوابط منسوخ کردینا چاہیے جو اس نے قومی ٹیم تک پہنچنے کے لیے مقرر کیے ہیں۔

انگلینڈ، آسٹریلیا اور دوسرے ممالک میں قومی ٹیم میں شمولیت کا پیمانہ ڈومیسٹک کرکٹ ہوتی ہے اور سلیکشن کے وقت کسی بھی فرنچائز لیگ کی کارکردگی کو سامنے نہیں رکھا جاتا۔ اگر کوئی کھلاڑی ایک دفعہ ریٹائرمنٹ لے لے تو اسے پھر دوبارہ لیا نہیں جاتا۔

انگلینڈ کے جیسن رائے کی مثال ہمارے سامنے ہے جب انہوں نے بنگلہ دیش کے دورہ پر امریکی لیگ جو ترجیح دی تو سیلیکٹرز نے ورلڈ کپ جیسے اہم معرکہ کے لیے ان کے نام پر غور نہیں کیا حالانکہ وہ بہت اچھی فارم میں تھے۔

کیا پی سی بی کے سربراہ محسن نقوی اس مثال سے کچھ سمجھ سکتے ہیں کہ جب کھلاڑی قومی ٹیم کو اہمیت نہ دیں اور اپنی مرضی کے فارمیٹ منتخب کریں تو ان کے ساتھ رعایت نہیں برتی جاتی بلکہ ان کو سزا دی جاتی ہے۔

لیکن پاکستان میں ایسی روایت ہے اور نہ حکمت عملی کیونکہ انتظامیہ سے لے کر کھلاڑیوں تک گروپنگ اور پاور شئیرنگ نے مفادات کا اسیر اور اصولوں سے چشم پوش بنا دیا ہے۔

فٹنس کیمپ کے لیے 29  کھلاڑیوں میں دونوں شامل

پاکستان کرکٹ بورڈ نے جن 29 کھلاڑی کے منگل سے کاکول، ایبٹ آباد میں منعقدہ فٹنس کیمپ میں حصہ لینے کے لیے ناموں کا اعلان کیا ہے ان میں عماد وسیم اور محمد عامر شامل ہیں۔

پاکستان کرکٹ بورڈ  یہ کیمپ  پاکستان آرمی کے تعاون سے منعقد کررہا ہے جس میں  ایک خاص حکمت عملی کے مطابق کھلاڑیوں کو آنے والی سیریز اور ٹورنامنٹ کے لیے تیار کیا جائے گا  جس میں نیوزی لینڈ کے خلاف ہوم ٹی ٹوئنٹی سیریز آئرلینڈ اور انگلینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز اور امریکہ، ویسٹ انڈیز میں منعقدہ آئندہ آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ شامل ہے۔

کیمپ 8 اپریل کو اختتام پذیر ہوگا۔ کیمپ میں شامل کھلاڑی بابر اعظم، محمد رضوان، صائم ایوب، فخر زمان، صاحبزادہ فرحان، حسیب اللہ، سعود شکیل، عثمان خان، محمد حارث، سلمان علی آغا، اعظم خان، افتخار احمد، عرفان خان نیازی، شاداب خان، عماد وسیم، اسامہ میر، محمد نواز، مہران ممتاز، ابرار احمد، شاہین شاہ آفریدی، نسیم شاہ، محمد عباس آفریدی، حسن علی، محمد علی، زمان خان، وسیم جونئیر، عامر جمال، حارث رؤف اور محمد عامر ہیں۔

نوٹ: یہ تجزیہ مصنف کی رائے پر مبنی ہے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ