مصری اخبار اور ٹی وی چینل القاہرہ نے پیر کو خبر نشر کی ہے کہ غزہ کی پٹی میں فائر بندی کے لیے حماس اور اسرائیل کے درمیان قاہرہ میں ہونے والے مذاکرات میں ’اہم پیش رفت‘ ہوئی ہے۔
فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مصر کی حکومت سے منسلک اس ادارے نے ایک اعلیٰ سطح کے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ’معاہدے کے کئی متنازع نکات پر اہم پیش رفت ہوئی ہے۔‘
مصر، قطر اور اسرائیل کے اہم اتحادی امریکہ نے مذاکرات کے گذشتہ دور میں ثالثی کی ہے، لیکن چھ ماہ سے جاری اسرائیلی جارحیت کے خاتمے کے لیے کوئی قابل عمل معاہدہ ابھی تک ممکن نہیں ہو سکا۔
امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز کی ہفتہ کو مصر آمد کے بعد اسرائیل اور حماس نے چھ ماہ کے تنازعے میں ممکنہ فائر بندی پر تازہ بات چیت کے لیے اتوار کو وفود مصر بھیجے تھے۔
القاہرہ نے خبر نشر کی ہے کہ قطر اور حماس کے وفود قاہرہ سے روانہ ہو چکے ہیں اور توقع ہے کہ وہ ’معاہدے کی شرائط کو حتمی شکل دینے کے لیے دو دن کے اندر‘ واپس آ جائیں گے۔
نشریاتی ادارے کے مطابق امریکی اور اسرائیلی وفود نے ’اگلے چند گھنٹوں‘ میں مصر کے دارالحکومت سے روانہ ہونا تھا اور توقع ہے کہ اگلے 48 گھنٹوں کے دوران مشاورت جاری رہے گی۔
برطانوی خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق حماس کی جانب سے فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا اور قاہرہ مذاکرات میں پیش رفت کے متعلق فریقین میں سے کسی نے بھی القاہرہ کی رپورٹ کی تصدیق نہیں کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسرائیل کے وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے اتوار کو کہا تھا کہ تل ابیب قیدیوں کی رہائی کے بغیر فائر بندی پر راضی نہیں ہوگا، جب کہ حماس نے اپنے مطالبات کو دہرایا تھا۔
حماس کے مطالبات میں مستقل فائر بندی، غزہ سے اسرائیلی افواج کا انخلا اور بے گھر افراد کی واپسی شامل ہیں۔
نتن یاہو نے کہا کہ بڑھتے ہوئے بین الاقوامی دباؤ کے باوجود اسرائیل غزہ کے اسلام پسند حکمران حماس کے ’انتہائی‘ مطالبات کو تسلیم نہیں کرے گا۔
دوسری جانب جنگ کے تقریباً چھ ماہ بعد، اسرائیلی وزیراعظم کو اندرون ملک احتجاج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس میں حماس سے قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
مغربی ممالک نے بھی حماس کو تباہ کرنے کی اسرائیلی مہم کے دوران غزہ میں فلسطینی شہریوں کی اموات اور انسانی بحران پر غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔
اسرائیل کو اس جنگ کے خلاف عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی مخالفت کا سامنا ہے اور یکم اپریل کو ایک اسرائیلی ڈرون حملے میں سات امدادی کارکنوں کی موت کے بعد احتجاج شدت اختیار کر گیا ہے۔ ان امدادی کارکنوں میں اکثریت مغربی شہریوں کی ہے۔
اسرائیلی اعداد و شمار کے مطابق سات اکتوبر کو حماس کے غیر معمولی حملے کے نتیجے میں 1170 افراد مارے گئے تھے۔
حماس اور اسلامی جہاد کے عسکریت پسندوں نے 250 سے زائد اسرائیلی اور غیر ملکیوں کو قیدی بھی بنا لیا تھا ، جن میں سے 129 غزہ میں موجود ہیں، جن میں سے 34 کے بارے میں فوج کا کہنا ہے کہ وہ مارے گئے ہیں۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کی جارحیت کے نتیجے میں غزہ میں کم از کم 33 ہزار افراد جان سے گئے جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔