قیدیوں کی رہائی کے بغیر مذاکرات نہیں ہوں گے: اسرائیلی وزیر اعظم

اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل غزہ میں حماس کے خلاف اس وقت تک فائر بندی پر راضی نہیں ہو گا جب تک قیدیوں کو رہا نہیں کر دیا جاتا۔

اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے اتوار کو کہا کہ اسرائیل غزہ میں حماس کے خلاف اس وقت تک فائر بندی پر راضی نہیں ہو گا جب تک قیدیوں کو رہا نہیں کر دیا جاتا۔

اتوار کو غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے چھ ماہ مکمل ہو گئے ہیں اور اسی روز اسرائیلی کابینہ کے ہفتہ وار اجلاس کے آغاز میں نتن یاہو کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا جب مصر میں فائر بندی کے مذاکرات کا ایک نیا دور شروع ہونے والا ہے۔

نتن یاہو نے کہا کہ بڑھتے ہوئے بین الاقوامی دباؤ کے باوجود اسرائیل حماس کے ’انتہائی‘ مطالبات کو تسلیم نہیں کرے گا۔

دوسری طرف امریکہ کے خیال میں جنوبی غزہ میں اسرائیلی فوجوں کی کمی ایک مثبت اشارہ ہے۔

وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے اتوار کو اے بی سی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ جنوبی غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج کی کمی بظاہر ایک ’آرام اور اصلاح‘ ہے اور یہ ضروری نہیں کہ کسی نئی کارروائی کا اشارہ ہو۔

’جیسا کہ ہم اسے سمجھتے ہیں اور ان کے عوامی اعلانات کے ذریعے یہ واقعی ان فوجیوں کے لیے آرام اور بحالی کے بارے میں ہے... اور ضروری نہیں کہ ہم ان فوجیوں کے لیے آنے والے کسی نئے آپریشن کا اشارہ دے سکیں۔‘

اس سے قبل اسرائیلی فوج نے کہا کہ جنوبی غزہ میں اس کی فوج کی کمی سے وہاں صرف ایک بریگیڈ رہ گئی ہے۔

غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے چھ ماہ بعد فائر بندی کے لیے مذاکرات کا نیا دور آج قاہرہ میں شروع ہو رہا ہے جبکہ برطانوی وزیراعطم رشی سونک نے تنازعے کے خاتمے پر زور دیا ہے۔

 خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق حماس نے بیان میں کہا کہ غزہ میں اس گروپ کے نائب سربراہ خلیل الحیا کی سربراہی میں ایک وفد مصری ثالثوں کی دعوت پر غزہ فائر بندی کی غرض سے مذاکرات کے لیے سات اپریل کو قاہرہ جائے گا۔

قاہرہ ہوائی اڈے پر روئٹرز کے ذرائع کے مطابق امریکی سی آئی اے کے ڈائریکٹر بل برنز مذاکرات میں شرکت کے لیے ہفتے کی شام قاہرہ پہنچے۔

مصر کی القاہرہ نیوز نے ہفتے کو بتایا کہ قطری وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمٰن الثانی اور ایک اسرائیلی وفد کی بھی مذاکرات میں شرکت متوقع ہے۔

حماس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 25 مارچ کو منظور ہونے والی غزہ پٹی میں فائر بندی کا مطالبہ کرنے والی قرارداد سے قبل 14 مارچ کو جاری کردہ اپنے مطالبات دہرائے ہیں۔

ان مطالبات میں مستقل فائر بندی، غزہ سے اسرائیلی افواج کا انخلا، بے گھر افراد کی واپسی اور غزہ میں قید اسرائیلی قیدیوں کے بدلے فلسطینی قیدیوں کے ’سنجیدہ‘ تبادلے کا معاہدہ شامل ہے۔

مذاکرات کی گردش کرتی ان خبروں کے دوران برطانوی وزیراعظم رشی سونک نے بیان دیا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری ’خوفناک‘ جنگ ’ختم ہونی چاہیے۔‘

فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق انہوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ہم حماس کے دہشت گردوں کے خطرے کو شکست دینے اور اپنی سلامتی کا دفاع کرنے کے اسرائیل کے حق کے ساتھ کھڑے ہیں۔ لیکن پورا برطانیہ اس خونریزی سے صدمے میں ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ خوفناک تنازع ختم ہونا چاہیے. قیدیوں کو رہا کیا جانا چاہیے۔ یہ امداد جسے ہم زمینی، فضائی اور سمندری راستے سے پہنچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں، اسے فوری طور پر جانے دیا جائے۔‘

غزہ کے اب تک کے سب سے خونریز تنازعے کا آغاز سات اکتوبر 2023 کو اس وقت ہوا جب حماس کے جنگجوؤں کی جانب سے اسرائیل پر حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں جنوبی اسرائیل میں 1170 افراد مارے گئے۔

تقریباً 250 اسرائیلی اور غیر ملکی افراد کو قیدی بنا لیا گیا تھا، جن میں سے تقریباً 130 غزہ میں موجود ہیں، جن میں سے 30 سے زیادہ اسرائیلی فوج کے مطابق مارے جا چکے ہیں۔

رشی سونک نے کہا کہ ’آج سات اکتوبر کو ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے چھ ماہ مکمل ہو رہے ہیں جو اسرائیل کی تاریخ کا سب سے خوفناک حملہ ہے جو دوسری عالمی جنگ کے بعد یہودیوں کا بدترین جانی نقصان ہے۔

ان کے مطابق ’چھ ماہ بعد بھی اسرائیلی زخموں کو بھرا نہیں جا سکا۔ خاندان اب بھی سوگ میں ہیں اور قیدی اب بھی حماس کے پاس قید ہیں۔‘

سونک نے کہا کہ غزہ کے بچوں کو فوری طور پر ’انسانی بنیادوں پر تعطل کی ضرورت ہے جس کے نتیجے میں طویل مدتی پائیدار فائر بندی ہو۔

’ قیدیوں کو باہر نکالنے اور مدد اندر لے جانے اور لڑائی اور جانی نقصان کو روکنے کا یہ تیز ترین طریقہ ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ ہم اسرائیلیوں اور فلسطینیوں دونوں کے لیے امن، وقار اور سلامتی کے حصول کے لیے کام کرتے رہیں گے کیونکہ وہ سب اس کے مستحق ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

برطانوی حکومت نے غزہ کی پٹی میں سات امدادی کارکنوں کی موت کے معاملے میں ’انتہائی شفافیت‘ اور ’مکمل طور پر آزادانہ جائزہ‘ لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

پیر کی شام اسرائیلی فضائی حملے میں مرنے والے ورلڈ سینٹرل کچن کے سات ملازمین میں سے تین برطانوی تھے۔

ان اموات نے برطانوی حکومت پر دباؤ بڑھا دیا ہے کہ وہ اسرائیل کو اسلحے کی برآمد کے لائسنس معطل کرے۔

اسلحے پر قابو پانے والے گروپوں کے مطابق لندن نے 2015 سے اب تک اسرائیل کو 48 کروڑ 70 لاکھ پاؤنڈ (61 کروڑ 40 لاکھ ڈالر) سے زیادہ کے ہتھیاروں کی فروخت کی منظوری دی ہے۔

دریں اثنا برطانوی حکومت نے کہا ہے کہ غزہ کی مزید امداد کے لیے رائل نیوی کا ایک جہاز تعینات کیا جائے گا۔

جہاز کی تعیناتی ساتھ ساتھ برطانیہ نے قبرص اور غزہ کے درمیان مشرقی بحیرہ روم میں انسانی راہداری کے لیے امدادی سامان کی فراہمی، لاجسٹک مہارت اور سازوسامان کی مدد کے لیے 97 لاکھ پاؤنڈ کے پیکج کا بھی اعلان کیا ہے۔

برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون نے کہا ہے کہ برطانیہ اور اس کے اتحادیوں اس علاقے میں دنیا کے سب سے زیادہ کمزور لوگوں کی مدد کے لیے سمندری اور فضائی ترسیل پر غور کرنا چاہیے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا