سانحہ جلیانوالہ باغ کے بارے میں وہ سات حقائق جن سے آگاہی ضروری

جنرل ڈائر کا انتقال 23 جولائی 1927 کو ہوا جبکہ دوسرے ڈائر سر مائیکل فرانسس اوڈائر جو پنجاب کے گورنر تھے انہیں 75 سال کی عمر میں 13 مارچ 1940 کو لندن میں ایک سکھ اودھم سنگھ نے قتل کر دیا۔

جلیانوالہ باغ میں قتلِ عام کے بعد امرتسر میں مارشل لا نافذ کر دیا گیا (Alamy)

آج سے ٹھیک 105 سال قبل 13 اپریل 1919 کو جلیانوالہ باغ امرتسر میں ایک ایسا سانحہ ہوا جس نے ہندوستان میں آزادی کی شمع روشن کر دی۔

ہندوستان کی آزادی کی تحریکوں پر کام کرنے والے مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کسی ایک واقعے نے انگریزوں کے ہندوستان میں رہنے کے امکان کو ختم کر دیا تھا تو وہ امرتسر کا واقعہ تھا۔

جنگ پلاسی نے ہندوستان پر انگریزوں کے اقتدار کی مہر ثبت کر دی تھی تو جلیانوالہ باغ کے سانحہ نے اعلان کر دیا کہ انگریز کو جلد یا بدیر ہندوستان  چھوڑنا پڑے گا۔

اس واقعے کے بعد ہندوستان مکمل آزادی کی طرف گامزن ہو گیا  اور اس تحریک کی باگ ڈور گاندھی کے ہاتھ میں آگئی۔

اس سانحے کے دور رس اثرات مرتب ہو ئے۔ تاجِ برطانیہ یہ سمجھنے پر مجبور ہو گیا کہ 1857 کی جنگِ آزادی کے بعد گذشتہ 63 سالوں سے ہندوستان کو جس طرح چلایا جا رہا ہے لوگ اس سے مطمئن نہیں ہیں۔ عوام میں نفرت کا لاوا پک چکا ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔

اس کا ایک آسان حل یہ سمجھا گیا کہ وہ اپنی  طاقت کا مظاہرہ کریں تاکہ لوگوں میں ڈر اور خوف بڑھے۔ اسی مقصد کے لیے پنجاب کی باگ ڈور ایک ظالم اور جابر افسر سر مائیکل  فرانسس اوڈائر کو سونپ دی گئی۔

سانحے سے پہلے  پنجاب کی حالت کیا تھی؟

سر مائیکل فرانسس اوڈائر 1913 سے 1919 تک پنجاب کے گورنر رہے۔ انہوں نے پہلی جنگ عظیم میں چار لاکھ پنجابی نوجوانوں کی جبری بھرتیاں کیں جن کا طریقہ اتنا ظالمانہ تھا کہ جس گاؤں کے لوگ بھرتی نہیں ہوتے تھے اور بھاگ جاتے تھے ان کی عورتوں کو اٹھا لیا جاتا اور ان کی فصلوں کو لوٹ لیا جاتا تاوقتیکہ وہ بھرتی پر آمادہ نہ ہو جاتے۔

جب جنگ ختم  ہوئی تو انگریز نے اپنا فوجی خسارہ پورا کرنے  کے لیے ہندوستانی خزانے سے 10 کروڑ پونڈ کی رقم لے لی جس سے ہندوستان میں مہنگائی کا سیلاب آگیا۔

1918 کے قحط نے صورت حال مزید ابتر بنا دی۔ اسی سال انفلوئنزا اور طاعون کی وبا نے 60 لاکھ ہندوستانیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

ان حالات میں انگریز انتظامیہ نے ہندوستان کے زخموں پر مرہم رکھنے اور جنگ میں ان کی قربانیوں کا صلہ دینے کے بجائے ایک کالا قانون نافذ کر دیا جس کا مقصد اس ممکنہ بغاوت کو روکنا تھا جس کی اطلاع خفیہ ادارے دے رہے تھے۔

انگریز انتظامیہ یہ سمجھ رہی تھی کہ پنجاب میں دوبارہ 1857 جیسی بغاوت جنم لے سکتی ہے۔ پہلی جنگِ عظیم میں سلطنتِ عثمانیہ کا شیرزاہ بکھیرنے میں تاجِ برطانیہ کا جو کردار تھا مسلمان اس پر شدید مضطرب تھے۔

پنجاب میں سیاسی بیداری کی تحریکوں کی مقبولیت کی ایک جھلک غدر پارٹی نے دکھا دی تھی ۔ غدر پارٹی جس نے انگریز کے خلاف پہلی شمع جلائی:

1913 میں امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا کے شہر سٹاکٹن کے گوردوارے میں ایک سکھ ہردیال سنگھ نے پنجاب میں سکھوں کا اقتدار واپس لینے کے لیے تنظیم بنا لی۔

جس نے غدر کے نام سے ایک جریدہ شائع کرنا شروع کر دیا جو اس قدر مقبول ہوا کہ تنظیم  کی رکنیت مختصر عرصے میں پانچ ہزار تک پہنچ گئی۔

اس کی شاخیں جنوب مشرقی ایشیا کے متعدد ممالک میں قائم ہوگئیں۔ ہردیال سنگھ لوگوں کو اکسا رہے تھے کہ انگریزوں کی جرمنی کے ساتھ جنگ شروع ہونے والی ہے اس لیے سکھ ہندوستان واپس پہنچ کر اپنی آزادی کی جنگ شروع کریں۔

جیسے ہی پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی غدر پارٹی کے اراکین نے پنجاب واپس آ کر انگریزوں کے خلاف مسلح تحریک شروع کر دی جسے درپردہ جرمنی اور ترکی کی حمایت حاصل تھی۔

مئی 1914 میں کینیڈا سے واپس آنے والے سکھوں کا کلکتہ میں پولیس سے تصادم ہوا جس میں 18 سکھ مارے گئے۔

اس  واقعے سے پنجاب کے اندر حکومت کے خلاف نفرت بڑھی اور غدر پارٹی کے اراکین کی تعداد آٹھ ہزار تک پہنچ گئی جنہوں نے انگریزوں کے خلاف پرتشدد کارروائیاں کیں مگر یہ تحریک کامیاب نہیں ہو سکی۔

لاہور سازش کیس کے تحت 42 سکھوں اور مسلمانوں کو غدار قرار دے کر انہیں سخت  سزائیں دی گئیں جن میں سے 18 کو پھانسی ہوئی۔ ہردیال سنگھ خود ضمانت پر رہا ہونے کے بعد سوئٹزر لینڈ فرار ہوگیا۔ غدر کی تحریک تو ختم ہو گئی مگر اس کی کوکھ سے آزادی کی شمع ضرور روشن ہوئی اور اس کا آغاز بھی پنجاب سے ہوا۔

کالے قوانین کا نفاذ

پہلی جنگ عظیم کے شروع ہوتے ہی انگریز انتظامیہ نے ہندوستان میں کسی بھی قسم کی متوقع بغاوت کے خطرے کے پیش نظر 1915 میں ایک نیا قانون بنایا جسے  ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ کہا گیا جس کے تحت سیاسی اور قوم پرستی پر مبنی سرگرمیوں پر پابندیاں لگا دی گئیں۔

گمان تھا کہ جنگ کے خاتمے کے بعد یہ قانون ختم ہو جائے گا کیوں کہ جنگ جیتنے میں ہندوستانی عوام کا خون اور سرمایہ دونوں شامل تھے۔ پہلی جنگ عظیم میں تقریباً 15 لاکھ ہندوستانی فوجی شامل تھے جن میں سے چار لاکھ کے قریب پنجابی تھے۔

74 ہزار ہندوستانی فوجی اس جنگ میں تاج برطانیہ کی طرف سے لڑتے ہوئے ہلاک ہو گئے تھے۔ ان کی قربانیوں کا صلہ دینے کی بجائے ان پر رولٹ ایکٹ جیسا کالا قانون لاگو کر کے ہندوستان کو باقاعدہ ایک پولیس سٹیٹ بنا دیا گیا۔

پولیس جسے چاہتی سرکار مخالف سرگرمیوں میں اندر کر دیتی اور سزائیں دلواتی سزا کے خلاف اپیلوں کا حق بھی نہیں تھا۔ انڈین لیجسلیٹو کونسل کے سوائے ایک ہندوستانی رکن کے سب نے ہی اس قانون کی مخالفت کی۔

قائداعظم نے تو بطور احتجاج کونسل کی ممبر شپ سے استعفی ٰ دے دیا۔ اس قانون  پرمجلس قانون ساز میں  بحث کے وقت گاندھی بھی ہمہ وقت موجود رہے۔

جب انگریز انتظامیہ نے ہندوستانی اراکین کی بھر پور مخالفت کے باوجود 18 مارچ 1919 کو یہ قانون پاس کر لیا تو گاندھی اس عمل سے اتنے مایوس ہوئے کہ انہوں نے 30 مارچ کو ہندوستان بھر میں ہڑتال کی کال دے دی۔

یہ عوامی سطح پر پہلی مزاحمت تھی جس کے دوران جلیانوالہ باغ کا سانحہ رونما ہوا۔

بیساکھی کا دن اور خون کی ہولی

گاندھی کی کال پر پنجاب بھر میں ہڑتال ہوئی۔ ہڑتال کے دوران دہلی میں پولیس کی فائرنگ سے آٹھ افراد ہلاک ہو گئے۔ امرتسر میں  ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال  کو نظر بند کر دیا گیا مگر اس کے باوجود احتجاجی مظاہرے میں 38 ہزار لوگ شریک ہوئے۔

گاندھی دہلی سے امرتسر آ رہے تھے کہ راستے میں انہیں  ٹرین سے اتار کر بمبئی جانے والی ٹرین میں بٹھا دیا گیا۔

اس خبر سے ہندوستان بھر میں کشیدگی پھیل گئی۔ امرتسر، گجرات اور لاہور میں شدید احتجاج ہوا۔

چھ اپریل کو بیرسٹر بدر الاسلام کی قیادت میں امرتسر میں ہونے والے مظاہرے میں 50 ہزار لوگ شریک ہوئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مظاہرین ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ہندو، سکھ اور مسلمان انگریزوں کے خلاف متحد ہو چکے تھے۔ مظاہرین نعرے لگاتے ہوئے ڈپٹی کمشنر کے دفتر کی طرف جا رہے تھے کہ پولیس نے پہلے انہیں روکا اور پھر گولی چلا دی جس میں متعدد لوگ مارے گئے۔

لوگ ابھی  اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھا رہے تھے کہ فوج کو طلب کر لیا گیا جس کی گولیوں سے مزید لوگ لقمۂ اجل بن گئے۔

ردِ عمل میں مظاہرین نے سرکاری املاک اور انگریز افسروں کو نشانے پر رکھ لیا کئی یورپی مارے گئے۔

امرتسر کو فوج کے حوالے کر دیا گیا۔ برگیڈیئر ایڈورڈ ہیری ڈائر جو جالندھر میں ایک بریگیڈ کی کمانڈ کر رہے تھے  انہیں امرتسر بھیجا گیا جہاں انہوں نے پہنچتے ہی اندھا دھند گرفتاریاں شروع کر دیں اور شہر کو فوجی چھاونی میں بدل دیا۔

13 اپریل بروز اتوار سکھوں کا مقدس تہوار بیساکھی منایا جا رہا تھا۔ سکھ امرتسر کے مقدس تالاب میں نہانے کے لیے دور دراز سے آئے ہوئے تھے۔ برگیڈیئر جنرل ڈائر کو  گورنر پنجاب سر مائیکل فرانسس اوڈائر کی ہدایت تھی کہ شہر میں کسی قسم کی سیاسی سرگرمی یا اجتماع کسی قیمت پر نہ ہونے دیا جائے۔

انہوں نے ایک دن پہلے اعلانات بھی کروائے تھے کہ شہر میں کسی اجتماع کی اجازت نہیں ہو گی لیکن اس کے باوجود لوگ جلیانوالہ باغ میں ہونے والے جلسے میں پہنچ گئے جس کا مقصد انگریزوں کی سفاکیت کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کروانا تھا۔

شام چار بجے برگیڈیئر جنرل ڈائر 90 فوجیوں کے ہمراہ جلسے میں پہنچ گئے، ان کے پاس دو آرمرڈ گاڑیاں بھی تھیں جن پر مشین گنیں نصب تھیں۔

اسی دوران جلسہ گاہ پر ایک فوجی جہاز نے بھی پرواز کی۔ جنرل ڈائر نے جلسہ گاہ پہنچتے ہی بغیر کسی کو خبردار کیے فوجیوں کو فائرنگ کے احکامات دے دیے۔

جلیانوالہ باغ میں داخلے کا راستہ تنگ تھا اس لیے کسی کو بھاگنے کا موقع نہیں مل سکا۔ جنرل ڈائر کے حکم پر فائرنگ اس وقت تک جاری رہی جب تک گولیاں ختم نہیں ہوگئیں۔

مرنے والوں کی صحیح تعداد چھپائی گئی، آزاد ذرائع کے مطابق 1000 سے زائد لوگ مارے گئے۔

سینکڑوں زخمی ساری رات کراہتے رہے اور اگلے روز جا کر کہیں لوگوں کو اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھانے کی اجازت دی گئی۔ اس سانحے کے بعد پورے پنجاب میں لوگوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔

گوجرانوالہ میں سانحہ جلیانوالہ کے خلاف مظاہرین کو کچلنے کے لیے ہوائی جہازوں سے فائرنگ کروائی گئی۔

گاندھی آئے اور چھا گئے

21 برس جنوبی افریقہ میں گزارنے کے بعد گاندھی پہلی جنگ عظیم کے دوران نو جنوری 1915 کو ہندوستان واپس آ چکے تھے۔

انہوں نے آتے ہیں ہندوستانیوں میں انگریز سامراج سے آزادی حاصل کرنے کی روح پھونکنی شروع کر دی تھی اور اس کے لیے انہوں نے عدم تشدد کا طریقہ اختیار کیا۔

یہ طریقہ بظاہر ایسا تھا کہ انگریز انتظامیہ ان کے خلاف کچھ کر بھی نہیں سکتی تھی۔ پہلی جنگ ِ عظیم کے دوران انگریز نے جن کالے قوانین کو نافذ کیا تھا ان کے خلاف پنجاب  احتجاج کا مرکز بن گیا جس کا آغاز گاندھی نے کیا تھا۔

سانحہ جلیانوالہ باغ کے بعد حالات معمول پر آئے تو اکتوبر میں گاندھی لاہور آئے۔ ریلوے سٹیشن پر ان کے استقبال کرنے کے لیے عوام کا جمِ غفیر امڈ آیا۔

گاندھی ہر طبقے او رمذہب کے ماننے والوں میں ایک مشترکہ لیڈر کے طور پر ابھرے۔ درحقیقت جلیانوالہ باغ کے بعد ہندوستان کی تحریک آزادی کے باگ ڈور گاندھی کے ہاتھ میں آگئی تھی۔

انہوں نے اپنے نظریہ عدم تشدد کے ذریعے ہر جگہ انگریز کے اقتدار کو چیلنج کیا۔

سانحہ جلیانوالہ کے بعد ہندوستان نے پہلے عام انتخابات دیکھے

سانحہ جلیانوالہ باغ نے برطانیہ میں خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی۔ حکومت یہ سوچ بچار کرنے لگی کہ کیسے ہندوستانیوں کو رام کیا جائے۔ اس وقت ایڈون مانٹاگو وزیر ہند اور لارڈ چیمسفورڈ ہندوستان کے وائسرائے تھے۔

انہوں نے ہندوستانیوں کو زیادہ سے زیادہ نمائندگی دینے کے لیے اصلاحات روشناس کروائیں جنہیں مونٹاگو چیمسفورڈ اصلاحات کا نام دیا گیا۔

مسلمانوں، سکھوں اور ہندوؤں کو الگ الگ نمائندگی دی گئی تھی۔ ان اصلاحات کے تحت ہندوستانیوں کو پہلی بار ووٹ کا محدود حق ملا جس کے تحت 1920 میں ہندوستان کے پہلے عام انتخابات ہوئے۔

پہلی بار مرکز اور صوبوں میں منتخب اراکین کی تعداد نامزد اراکین سے زیادہ تھی مگر 25 رکنی  مرکزی کابینہ میں انگریز وزیروں کی تعداد 21 تھی گویا ان انتخابات کا مقصد صرف آگ پر پانی ڈالنا تھا ہندوستانیوں کو با اختیار بنانا نہیں تھا۔

گاندھی سانحہ جلیانوالہ باغ کے بعد ہندوستان کی مکمل آزادی کی تحریک شروع کر چکے تھے اس لیے انہوں نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔

جنرل ڈائر اور فرانسس ڈائر کے بارے میں ایک بڑا مغالطہ

جب بھی سانحہ جلیانولہ باغ کا ذکر آتا ہے لوگ جنرل ڈائر اور گورنر پنجاب فرانسس اوڈائر کے بارے میں مغالطے کا شکار ہوجاتے ہیں اور دونوں کو ایک ہی کردار سمجھنے لگ جاتے ہیں جس کی وجہ ان کے ناموں میں مماثلت ہے۔

سانحہ جلیانوالہ باغ کے وقت پنجاب کے گورنر سر مائیکل فرانسس اوڈائر کا تعلق انڈین سول سروس سے تھا۔

وہ 1864 میں آئر لینڈ میں پید اہوئے  تھے تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے 1882 میں انڈین سول سروس میں شمولیت اختیار کی تھی ان کی پہلی پوسٹنگ شاہ پور موجودہ سرگودھا میں ہوئی تھی۔

لارڈ ہارڈنگ جب ہندوستان کے وائسرائے بنے تو انہوں نے سر مائیکل فرانسس اوڈائر کو 1913 میں پنجاب کا گورنر نامزد کر دیا۔ ان ہی کے دور میں سانحہ جلیانوالہ باغ ہوا۔

جلیانوالہ کے مظاہرین پر فائرنگ انہوں نے نہیں بلکہ ایک انگریز جرنیل ریجنل ایڈورڈ ہنری ڈائر نے کی تھی جو نو اکتوبر 1864 کو مری میں پیدا ہوئے تھے۔

ان کے والد ایڈورڈ ڈائر مری بروری کمپنی کے مالک تھے۔ جنرل ڈائر نے ابتدائی تعلیم لارنس کالج گھوڑا گلی سے حاصل کی تھی اس کے بعد وہ انگلینڈ چلے گئے تھے جہاں انہوں نے مزید تعلیم کے بعد 1885 میں فوج میں کمیشن حاصل کیا۔

1916 میں وہ ترقی پاتے پاتے برگیڈیئر جنرل بن گئے۔ جلیانوالہ باغ کے ایک ماہ بعد انہیں تیسری اینگلو افغان جنگ میں بھیج دیا گیا جہاں جمرود میں انہوں نے پانچویں بریگیڈ کی قیادت کی۔

جولائی 1920 میں وہ ریٹائر ہوئے۔ چرچل جو اس وقت جنگ کے وزیر تھے انہوں نے جنرل ڈائر کا محاسبہ کرنے کی سفارش کی مگر آرمی کونسل نے اس کی مخالفت کی۔ برٹش پارلیمنٹ میں اس پر مباحثہ بھی ہوا مگر جنرل ڈائر کے محاسبے کی قرارداد 129 کے مقابلے پر 230 ووٹوں کی اکثریت سے رد ہو گئی۔

برطانوی اخبارات نے جنرل ڈائر کو ایک ہیرو کے طور پر پیش کیا۔ ان کے لیے برطانیہ بھر سے 26 ہزار پونڈ کے عطیات جمع ہوئے جن کی مجودہ مالیت 10 لاکھ پونڈ سے زیادہ کی ہے۔

جنرل ڈائر کا انتقال 23 جولائی 1927 کو ہوا جبکہ دوسرے ڈائر سر مائیکل فرانسس اوڈائر جو پنجاب کے گورنر تھے انہیں 75 سال کی عمر میں 13 مارچ 1940 کو لندن میں ایک سکھ اودھم سنگھ نے قتل کر دیا۔

اودھم سنگھ نے کہا کہ انہوں نے ایسا اس لیے کیا ہے کیوں کہ وہ سانحہ جلیانوالہ باغ کا بدلہ لینا چاہتے تھے۔

یہ تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ