راولپنڈی کی ’گاندھی گلی‘ جو ’گندی گلی‘ سے موسوم ہو گئی

راولپنڈی کے علاقے لال کُرتی میں کبھی ایک گاندھی گلی ہوا کرتی تھی مگر یہ زبان زد عام ’گندی گلی‘ کے نام سے ہو گئی۔ لوگوں نے یہ نام گاندھی گلی  سے گندی گلی انڈیا کی نفرت میں کر دیا یا پھر ویسے ہی یہ گاندھی سے گندی ہو گیا؟

راولپنڈی کے علاقے لال کُرتی کی گاندھی گلی جسے اب گندی گلی کے نام سے جانا جاتا ہے (سجاد اظہر) 

راولپنڈی کنٹونمنٹ کا علاقہ لال کُرتی، جس کی  وجہ تسمیہ کے حوالے سے دو رائے موجود ہیں۔ ایک یہ کہ رائل برٹش آرمی کی وردیوں کا رنگ لال ہوتا تھا اور اس مناسبت سے اسے لال کرتی کہا جاتا ہے۔

دوسری کہ یہ ریڈ لائٹ ایریا کو کہتے ہیں اور انگریزوں کی چھاؤنیاں جہاں جہاں موجود تھیں وہاں لال کرتی کے نام سے محلے بھی بسائے گئے، جو دراصل چھوٹی چھوٹی گلیوں پر مشتمل تھے، جہاں زندگی کی صبح سورج غروب ہونے کے بعد شروع ہوتی تھی ۔

لال کرتی کے یہ محلے آج بھی راولپنڈی کے علاوہ، پشاور، لاہور، ملتان، کانپور، انبالہ، میرٹھ اور دہلی جیسے شہروں میں موجود ہیں۔ انگریزوں نے یہ محلے اپنے ان فوجیوں کی عیاشی کے لیے بنائے تھے جو انگلستان سے ہندوستان طویل قیام کے لیے آتے تھے۔

لال کُرتی کی وہ گلی جو کبھی گاندھی گلی کہلاتی تھی  

راولپنڈی کے علاقے لال کُرتی میں کبھی ایک گاندھی گلی ہوا کرتی تھی مگر یہ زبان زد عام ’گندی گلی‘ کے نام سے ہو گئی۔ لوگوں نے یہ نام گاندھی گلی سے گندی گلی انڈیا کی نفرت میں کر دیا یا پھر ویسے ہی یہ گاندھی سے گندی ہو گیا؟

اس بارے میں تو کچھ قیاس نہیں کیا جا سکتا لیکن اس گلی کے ایک پرانے مقیم  غلام محی الدین نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ محلے کے لوگوں نے 1982 میں کنٹونمنٹ بورڈ کو ایک درخواست دی کہ ان کی گلی کا نام گاندھی گلی سے بدل کر غوثیہ سٹریٹ رکھا جائے، جس پر کنٹونمنٹ بورڈ نے یہ نام بدل دیا اور گلی میں غوثیہ سٹریٹ کا بورڈ بھی لگا دیا۔

اس گلی میں آج بھی پاکستان کے قیام سے پہلے کے مکانات موجود ہیں، جو زیادہ تر ہندوؤں کے تھے۔ گلی کے آخر پر ایک مندر بھی موجود ہے۔

خرم بٹ جو کہ راولپنڈی کے ایک ایسے فوٹو گرافر ہیں، جنہیں قدیم عمارتوں کی تصویر کشی کا جنون کی حد تک شوق ہے، ان عمارتوں سے جڑی کہانیوں کی کھوج میں بھی لگے رہتے ہیں۔

انہوں نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس گلی میں زیادہ تر ایسے ہندو آباد تھے جو کاروباری  طبقے سے وابستہ تھے اس لیے انہوں نے گاندھی کی محبت میں یہ گلی ان کے نام سے موسوم کی تھی۔

پاکستان بننے کے بعد لوگ اسے گندی گلی کے نام سے پکارنا شروع  ہو گئے، جس کی توجیح وہ اس گندے نالے کو قرار دیتے تھے، جو اس گلی کے آخر میں بہتا تھا۔ ’وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ  دراصل گاندھی گلی ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ کچھ عرصے پہلے تک لوگوں کے گھروں پر لگی تختیوں پر بھی گاندھی گلی لکھا ہوتا تھا۔

تقسیم کے بعد راولپنڈی کینٹ میں صرف گاندھی گلی کے نام ہی نہیں بدلے گئے بلکہ کئی دوسرے محلوں اور سڑکوں کے نام بھی تبدیل ہوئے۔ میو روڈ اب راشد منہاس روڈ، وائن تھامس روڈ سرور روڈ، کریگ روڈ سرسید روڈ، مکڈالا روڈ طفیل روڈ، نیپیئر روڈ افتخار جنجوعہ روڈ کہلاتے ہیں۔

اس کے علاوہ کلائیڈ روڈ عزیز بھٹی روڈ، چرچ روڈ تمیز الدین روڈ، وکٹوریہ روڈ شریف روڈ، کننگھم روڈ کشمیر روڈ، لارنس روڈ حیدر روڈ، ایجور روڈ بینک روڈ، نکلسن روڈ تیمور روڈ کہلاتی ہیں۔

یہ سب سڑکیں کنٹونمنٹ کی حدود میں واقع ہیں، جن کے نام بدلے گئے ہیں تاہم راولپنڈی شہر کی حدود میں اب بھی آریہ محلہ، نانک پورہ، موہن پورہ، مدہن پورہ، کرتار پورہ، اکال گڑھ، نرنکاری بازار، کرشن پورہ، بھابڑا بازار جیسے غیر مسلمان نام موجود ہیں، جو نجانے کب مشرف بہ اسلام ہو جائیں کچھ پتہ نہیں۔

کیا گاندھی یہاں کبھی  آئے تھے؟

یہ گلی کیوں گاندھی جی کے نام سے موسوم کی گئی؟ کیا یہاں گاندھی اپنے کسی دورے میں آئے تھے؟ اس کا جواب بھی کسی کے پا س موجود نہیں ہے۔

گاندھی دو بار راولپنڈی آئے پہلی مرتبہ اس وقت جب 1924 میں کوہاٹ میں ہندو مسلم فسادات کی وجہ سے بڑی تعداد میں ہندوؤں نے کوہاٹ چھوڑ کر راولپنڈی میں پناہ لی تھی۔ گاندھی کوہاٹ جانا چاہتے تھے مگر انگریز انتظامیہ نے حساسیت کی وجہ سے انہیں راولپنڈی میں ہی روک لیا تھا۔

گاندھی کے اس دورے کی تفصیل بھیشم ساہنی نے اپنی کتاب ’بلراج میرا بھائی‘ میں لکھی ہے۔

بلراج 60 کی دہائی میں انڈین فلم انڈسٹری کے مشہور ہیرو تھے، جن کا تعلق راولپنڈی سے تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ وہ شانتی نگر گئے جہاں بلراج زیر تعلیم  تھے۔ وہاں سرِ راہ ان کی ملاقات گاندھی سے ہو گئی۔ جب بھیشم ساہنی نے بتایا کہ وہ راولپنڈی سے ہیں تو گاندھی جی بہت خوش ہوئے اور راولپنڈی کے حوالے سے اپنی یادیں تازہ کیں۔

انہوں نے کمپنی باغ (جو اب لیاقت باغ کہلاتا ہے) کے سامنے ایک وکیل رام پیارا لال کے مکان کا بھی ذکر کیا جہاں وہ ٹھہرے تھے۔

انہوں نے راولپنڈی کے ایک مشہور وکیل بیرسٹر محمد جان کا بھی پوچھا۔ بیرسٹر جان نامی گرامی وکیل تھے، جو پاکستان بننے کے بعد ہائی کورٹ کے جج اور ریٹائرمنٹ کے بعد مغربی پاکستان کے کسٹوڈین بنائے گئے۔

انہوں نے دو شادیاں کر رکھی تھیں۔ ان کی ایک بیوی پارسی تھی۔ شاید گاندھی ان کے گھر بھی گئے تھے، جو لال کُرتی کے قریب میکڈالا روڈ پر آٹھ کنال کا ایک وسیع وعریض گھر تھا۔

گاندھی دوسری بار راولپنڈی اس وقت تشریف لائے جب وہ کشمیر کے دورے پر تھے اور ان کے ہمراہ بخشی غلام محمد بھی تھے، جن کا کشمیر میں داخلہ بند تھا اس لیے وہ راولپنڈی میں ہی رک گئے اور گاندھی یکم اگست 1947 کو بارہ مولہ میں داخل ہوئے تو ان کا استقبال سیاہ جھنڈوں سے کیا گیا۔

گاندھی کے دوسرے دورے کی تفصیلات راولپنڈی کے حوالے سے نہیں ملتیں کہ انہوں نے کشمیر جاتے یا وہاں سے واپس آتے ہوئے کتنے دن قیام کیا تھا۔

راولپنڈی، جو اس وقت تقسیم کے بدترین فسادات سے گزر رہا تھا میں، گاندھی کیوں نہیں رکے ؟ یہ ایک بڑا سوال ہے اور اگر رکے تھے تو کسی کتاب میں اس کا تذکرہ کیوں نہیں ہے۔

گاندھی پہلے شہیدِ پاکستان؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تقسیم کے  وقت متحدہ ہندوستان کے خزانے میں 400 کروڑ روپے موجود تھے۔ پارٹیشن کونسل نے پاکستان کو 75 کروڑ روپے دینے کی سفارش کی جس پر انڈیا نے 15گست 1947 کو 20 کروڑ روپے ایڈوانس میں دے دیے۔

باقی 55 کروڑ کی رقم انڈیا نے روک لی، جس پر گاندھی نے بھوک ہڑتال کر دی کہ پاکستان کے حصے کی  یہ رقم  فوراً ادا کی جائے۔

اس پر انتہا پسند جماعت آر ایس ایس  کے ایک رکن نتھورام گوڈسے نے انہیں 30 جنوری 1948 کو قتل کر دیا اور کہا کہ انہوں نے ایسا اس لیے کیا ہے کیونکہ گاندھی پاکستان کی حمایت کر رہے تھے۔

کہا جاتا ہے گاندھی فروری میں کراچی، لاہور اور راولپنڈی کا دورہ کرنے والے تھے۔

گاندھی ہندوستان کی تقسیم کے مخالف تھے تاہم جب پاکستان بن  گیا تو انہوں نے  اپنی حکومت سے پاکستان کے اثاثے نہ دینے کے عمل کی مخالفت کی۔

جس کا اثر یہ ہوا کہ انہیں اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ پاکستان میں راولپنڈی کے علاوہ کراچی اور بہاولپور میں بھی ان کی نام سے گلیاں موجود تھیں۔

کراچی میں ان کا مجسمہ سندھ ہائی کورٹ کی عمارت کے سامنے نصب تھا، جسے تقسیم کے بعد ہندوستان کے حوالے کر دیا گیا اور اب اسلام آباد کے ہندوستانی ہائی کمیشن میں نصب ہے۔

گاندھی کا دوسرا مجسمہ پاکستان مونومنٹ میوزیم اسلام آباد میں موجود ہے، جہاں انہیں قائد اعظم کے ساتھ ملاقات کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ گاندھی کے یوم پیدائش دو اکتوبر کو اقوامِ متحدہ نے عدم تشدد کا عالمی دن قرار دیا ہوا ہے۔

راولپنڈی کنٹونمنٹ کے علاقے لال کُرتی سے گاندھی سٹریٹ کا نام ہی غائب نہیں ہوا بلکہ تقسیم سے پہلے کی راولپنڈی کی ایک تاریخ مٹ گئی ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ