دو لاہور: ایک روٹی کھانے والا، ایک کھلانے والا

ہفتے کے سات دنوں میں ہر دو طرح کے لاہوریے مشغول رہتے ہیں اور شہر کے بازاروں کے ساتھ ساتھ ہسپتالوں، درزی خانوں اور جم، سب پہ رونق لگی رہتی ہے۔

سات اکتوبر 2017 کو ایک پاکستانی شیف پاکستان کے تاریخی اور ثقافتی شہر لاہور کی رنگا رنگ فوڈ سٹریٹ پر سیاحوں کے لیے بھنا گوشت تیار کر رہا ہے (اے ایف پی)

ہم لاہوریوں میں دو طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جن کا نعرہ ہے ’روٹی کھوا،‘ دوسرے جن کا نظریہ ہے ’آ جا روٹی کھا لے۔‘

ان دو جملوں کے درمیان لاہور کی تمام تر، سماجیات، عمرانیات، معیشت اور ثقافت سمٹی ہوئی ہے۔

لاہوریے دو طرح کے ہوتے ہیں: ایک دائمی مہمان اور دوسرے دائمی میزبان۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ دونوں طرح کے لاہوریے خدا کے عطا کردہ اپنے اپنے اس کردار سے اتنے مطمئن ہوتے ہیں کہ انہیں اپنے کردار ’سوائپ‘ کرنے کا بھولے سے بھی خیال نہیں آتا۔

دائمی مہمان ہر اپنے پرائے کو ہر خوشی غمی کے موقعے پہ ایک ہی جملہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں، ’اوئے، پاس ہو گیا؟ روٹی کھوا۔‘ ’اوئے سپلی آ گئی؟ روٹی کھوا۔‘ ’بڑا افسوس ہوا آنٹی جی گزر گئے، روٹی کون دے رہا ہے؟‘ ’اوئے بیٹا ہوا ہے؟ کنجوسا! روٹی کھوا۔‘

اس جملے کے علاوہ ان کی باقی گفتگو بھی روٹی کے گرد ہی گھومتی ہے۔ اب اس روٹی سے مراد آپ گیہوں کی پکی، عام سادہ روٹی نہ لے لیجیے گا۔ یہ وہ روٹی نہیں، جو بندہ کھا جاتی ہے۔ یہ روٹی وہ روٹی ہے جس کے گرد لاہور کی سماجی زندگی گھومتی ہے۔

اس روٹی سے مراد ایک پرتکلف دعوت ہوتی ہے جس کے شرکا بھی یہ دائمی مہمان خود ہی منتخب کرتے ہیں اور وہ زیادہ تر مہمان صاحب کے وہ دوست احباب ہوتے ہیں جو اس قسم کی وارداتوں میں انہیں مدعو کروانا کبھی نہیں بھولتے۔

اس روٹی کا مینیو، بھی مہمان خود بتاتا ہے۔ ’یار( زیادہ جذباتی ہو تو ’یاڑ‘) ’بھابھی سے کہہ کر کریلے گوشت تو کھلا دیں، ہیں؟ ایک ہی تو دیور ہوں ان کا، ساتھ بکرے کی مچھلیوں کا کالی مرچ والا روسٹ اور توا قیمہ، کلیجی تو تُو بھی بھون لیتا ہے اور تھوڑا سا مغز، روٹی گھر میں نہ پکوانا، گرمی ہے، بھاگ کے ادھر کشمیر نان شاپ سے لے آئیں گے۔‘

میزبان سوائے پلکیں جھپکانے کے کچھ نہیں کر سکتا۔ ساتھ ہی ساتھ مزید مہمانوں کو بھی بلا لیا جاتا ہے اور اس دوران کسی دوسرے شکار کا تذکرہ کیا جاتا ہے جو اگلے روز ’روٹی‘ کھلانے والا ہوتا ہے۔

دائمی میزبان بھی عجیب لوگ ہوتے ہیں۔ گھر سے نکلتے ہیں تو گوشت، مچھلی اور پھل کی دکانوں کو اس نیت سے دیکھتے ہیں کہ کیا کیا خرید کے گھر لے جا سکیں اور ایسی روٹی کھلوائیں کہ بے جا بے جا ہو جائے۔ (یہ ’بے جا بے جا‘ بھی لاہوری ہی کرا سکتے ہیں)

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان دائمی میزبانوں کے چہرے پہ ایک دائمی شرمندگی پائی جاتی ہے کیونکہ ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے مہمانوں کی شان کے شایان روٹی مہیا نہیں کر پائے۔ یہ مہمان دعوت کا جواز تراشنے میں ماہر ہوتے ہیں۔

مجھے اکثر ایسے دعوت نامے موصول ہوتے ہیں جن میں کسی مشترکہ دوست کی مری سے بخیر و عافیت واپسی کی خوشی میں دوستوں کو کھانے پہ بلایا جا رہا ہوتا ہے۔ یا کسی دوست کے فیس بک سٹیٹس پہ 20 لائیک آنے کے بعد کسی تھکی ہوئی ویب سائٹ نے اسے بطور تحریر چھاپ دیا ہوتا ہے۔

ان دعوتوں میں دیسی مرغی، نہاری، پائے، مچھلی، ہریسہ، پاسٹا، چائنیز اور کورین کھانے، کنا، مغز، باربی کیو، قسم قسم کی سلادیں سب اس طرح سجی ہوئی ہوتی ہیں کہ بدنیتی کی بھی توبہ ہو جاتی ہے۔ چکھتے چکھتے سیر ہو جائیں تو دائمی میزبان اپنی جان کی قسم دے دے کر دوبارہ پلیٹ بھر دیتے ہیں۔

اسی پر بس نہیں، اگر غلطی سے کسی کھانے کی تعریف کر دی جائے تو اسی وقت ڈبہ منگوا کر وہ ڈش پارسل کر دی جاتی ہے۔ لاہور کی روزمرہ میں اسے ’چکواں روٹی‘ کہتے ہیں۔

ہفتے کے سات دنوں میں ہر دوطرح کے لاہوریے اسی کام پہ مستعد رہتے ہیں اور لاہور کے بازار آباد رہتے ہیں، طبیبوں کے مطب، درزی خانے، جم، سب پہ رونق لگی رہتی ہے۔

لاہور آئیے تو دعا کیجیے آپ کا واسطہ دائمی میزبانوں سے پڑے۔ اگر ایسا نہ ہو تو کوشش کر کے اسلام آباد منتقل ہو جائیے کہ وہاں نہ کوئی مہمان ہوتا ہے نہ میزبان۔

یہ تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر