محمد عامر کی واپسی اور توقعات

عامر کا سخت امتحان انگلینڈ کے دورے اور پھر ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں ہو گا جہاں ان کا سامنا ورلڈ کلاس تجربے کار بلے بازوں سے ہوگا۔

پاکستان کے محمد عامر 20 اپریل، 2024 کو راول پنڈی میں نیوزی لینڈ کے خلاف دوسرے ٹی ٹوئنٹی میچ میں ڈین فاکس کرافٹ کو آؤٹ کرنے کے بعد خوشی کا اظہار کر رہے ہیں (اے پی)

پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان بارش سے متاثرہ پہلے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچ میں ہمیشہ کی طرح تمام نظریں شاہین شاہ آفریدی کے پہلے اوور پر مرکوز تھیں کہ وہ اپنی عادت کے مطابق وکٹ لینے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں۔

تاہم زیادہ بے تابی سے انتظار اس بات کا تھا کہ انٹرنیشنل کرکٹ میں واپس آنے کے بعد محمد عامر کس طرح کی بولنگ کرتے ہیں؟ شاہین شاہ آفریدی نے اپنی روایت  کے مطابق پہلے ہی اوور میں وکٹ حاصل کرڈالی  لیکن ان کی دو گیندوں کے بعد بارش نے میچ کو وہیں ختم کرڈالا۔ یوں عامر ہی نہیں کسی بولر کو بولنگ کا موقع نہ مل سکا۔

دوسرے ٹی ٹوئنٹی میچ میں موسم نے کھیل کی اجازت دے دی اور عامر نے دو وکٹوں کی اطمینان بخش کارکردگی سے اپنا کم بیک کرلیا۔ ان کی انٹرنیشنل کرکٹ میں یہ دوسری واپسی ہے۔ پہلی واپسی سپاٹ فکسنگ سکینڈل میں ان کے ملوث ہونے کے بعد ہوئی تھی۔

یہ تحریر آپ کالم نگار کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں:

یہاں یہ سوال اہم ہے کہ آخر ان کو دوبارہ پاکستان ٹیم میں واپس لانے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟ یہاں یہ بات نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ ٹیم میں واپسی کے بعد وہ اسی کپتان کی کپتانی میں کھیل رہے ہیں جس پر کچھ ماہ پہلے تک باہر بیٹھ کر تنقید کر رہے تھے۔

دراصل ہمارے  کھلاڑیوں میں یہ بات عام ہے کہ وہ جب ٹیم سے باہر ہوجاتے ہیں تو پھر میڈیا میں بیٹھ کر اس طرح کے بیانات دینا شروع کردیتے ہیں کہ واپسی کا راستہ ہی کھلا نہیں رکھتے جو بعد میں خود ان کے لیے شرمندگی کا باعث بنتا ہے۔

عامر کی واپسی اس طرح ممکن ہوئی کہ انہوں نے اپنی ریٹائرمنٹ واپس لی اور خود کو سلیکشن کے لیے دستیاب کیا جس کے بعد انہیں ٹیم میں شامل کرلیا گیا۔

ان کا ٹیم میں آنا اس لیے بھی ممکن ہوا کہ اس وقت پاکستان کرکٹ ٹیم کے متعدد فاسٹ بولرز ان فٹ ہیں جن میں سرفہرست حارث رؤف ہیں۔

سلیکٹر وہاب ریاض نے بھی ٹیم کے اعلان کے موقعے پر عامر کی واپسی کے بارے میں یہی بات کہی  تھی کہ چونکہ حارث ان فٹ ہیں لہٰذا ٹیم کو ایک تجربہ کار فاسٹ بولر کی ضرورت تھی۔

عامر نے دوسرے ٹی ٹوئنٹی میں اپنی بولنگ سے یہ بات تو واضح کردی کہ وہ اب ملنے والے موقعے کو کسی صورت بھی ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتے۔

یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ جب وہ سپاٹ فکسنگ سکینڈل کے بعد واپس آئے تھے تو اس وقت سے لے کر انٹرنیشنل ریٹائرمنٹ تک کے عرصے میں انہوں نے 33 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں میں 36 وکٹیں حاصل کیں لیکن اس بات کو بھی تقریباً چار سال کا عرصہ بیت چکا ہے جب انہوں نے 2020 میں اپنا آخری ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل انگلینڈ کے خلاف کھیلا تھا جس کے بعد انہوں نے انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا تھا۔

انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ سے ایک سال قبل یعنی 2019 میں انہوں نے ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تھا جس کا سبب انہوں نے یہ بتایا تھا کہ وہ وائٹ بال کرکٹ پر توجہ دینا چاہتے ہیں۔

لیکن یہ بات بھی سب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ عامر اور وہاب ریاض کے ٹیسٹ کرکٹ سے کنارہ کش ہونے کے فیصلے پر ہیڈ کوچ مصباح الحق اور بولنگ کوچ وقار یونس نے سخت تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ آسٹریلیا کے دورے کے لیے ٹیم کو ان دونوں تجربہ کار بولرز کی ضرورت تھی لیکن ان دونوں نے آخر وقت پر یہ فیصلہ کرکے سب کو اندھیرے میں رکھا۔

اس کے بعد سے عامر کے ٹیم مینیجمنٹ سے تعلقات خوش گوار نہیں رہے۔ انہوں نے ایک ٹی وی چینل پر انٹرویو میں ٹیم مینیجمنٹ پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ انہیں ذہنی ٹارچر دے رہی ہے، انہیں جان بوجھ کر سائیڈ لائن کیا جا رہا ہے اور ان پر طنز کیا جا رہا ہے لہٰذا وہ مزید انٹرنیشنل کرکٹ نہیں کھیلنا چاہتے۔

انہوں نے انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی تمام تر توجہ فرنچائز لیگ کرکٹ پر مرکوز کرلی تھی جو وہ باقاعدگی سے کھیل رہے ہیں۔

اگر ہم ان کی فرنچائز کرکٹ میں حالیہ کارکردگی پر نظر ڈالیں تو انہوں نے گذشتہ سال کیریبئن پریمیئر لیگ میں 16 وکٹیں حاصل کیں۔

اس سال پاکستان سپر لیگ میں ان کی حاصل کردہ وکٹوں کی تعداد 10 رہی جبکہ آئی ایل ٹی ٹوئنٹی میں وہ 12 وکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے۔

نیوزی لینڈ کی ٹیم تجربہ کار بلے بازوں کی خدمات سے محروم ہے جس کی ایک جھلک ہمیں دوسرے ٹی ٹوئنٹی میں نظر آچکی ہے جہاں وہ  پاکستانی بولنگ کا مقابلہ نہیں کر پائی اور صرف 90 رنز  پر ڈھیر ہوگئی۔

تاہم عامر کا سخت امتحان انگلینڈ کے دورے اور پھر ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں ہو گا جہاں ان کا سامنا ورلڈ کلاس تجربے کار بلے بازوں سے ہوگا۔

انہوں نے سپاٹ فکسنگ سکینڈل کی وجہ سے پانچ سال ضائع کیے۔ یہ وہ وقت تھا جب ان کی بولنگ اپنے عروج پر تھی جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ صرف 14 ٹیسٹ میچوں میں51 وکٹیں حاصل کرچکے تھے۔

یہ کسی بھی بولر کا کم عمری میں 50 وکٹیں مکمل کرنے کا ریکارڈ بھی تھا۔ جس لارڈز ٹیسٹ میں وہ بدنام زمانہ نوبال کے مرتکب ہوئے تو اس میں انہوں نے چھ وکٹیں حاصل کی تھیں۔

انگلینڈ کے خلاف چار ٹیسٹ میچوں کی اس سیریز میں وہ 19 وکٹیں لے کر پاکستان کی طرف سے مین آف دی سیریز رہے تھے۔ اگر وہ سپاٹ فکسنگ سکینڈل میں ملوث نہ ہوتے تو کرکٹ میدانوں کی کھلی فضا میں سانس لے رہے ہوتے ناکہ جیل کی تنہائی میں۔

مشہور و معتبر وزڈن المانک نے انہیں یقینی طور پر پانچ بہترین کرکٹرز میں شامل کرلینا تھا۔ آج بھی اگر ہم 2011  کی وزڈن دیکھیں تو اس میں پانچ کی بجائے چار بہترین کرکٹرز کے نام موجود ہیں۔

وزڈن کے ایڈیٹر شیلڈ بیری نے لکھا تھا کہ اس فہرست میں شامل پانچواں نام پاکستانی کرکٹر کا تھا لیکن مبینہ سپاٹ فکسنگ کی وجہ سے ان کا نام شامل نہیں کیا گیا۔

اگر وہ اس معاملے میں بے گناہ پائے گئے تو ان کے نام کو شامل کرنے کے بارے میں غور کیا جا سکتا ہے لیکن ایسا نہ  ہوسکا کیونکہ عامر اس معاملے میں بے گناہ نہیں تھے۔

ان کے پہلے کم بیک میں دو شخصیات کا کردار بڑی اہمیت کا حامل رہا۔ ان میں سے ایک شہریار خان تھے جنہوں نے ان کے انگلینڈ کے ویزے کے حصول میں اہم کردار ادا کیا جو عام حالات میں کسی سزا یافتہ شخص کو ملنا ممکن نہ تھا۔

دوسرا نام نجم سیٹھی کا ہے جنہوں نے انٹرنیشنل کرکٹ میں ان کی جلد سے جلد واپسی کو فاسٹ ٹریک کے ذریعے ممکن بنایا۔

اگر ہم عامر کی سپاٹ فکسنگ سکینڈل کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی کا جائزہ لیں تو انہوں نے 22 ٹیسٹ میچوں میں 68 وکٹیں حاصل کیں۔

یہ بات محسوس کی گئی کہ سوائے ویسٹ انڈیز اور جنوبی افریقہ کے خلاف ٹیسٹ سیریز کے وہ کسی بھی سیریز میں قابل ذکر کارکردگی نہیں دکھا پائے تھے۔

جہاں تک واپسی کے بعد ون ڈے انٹرنیشنل میں ان کی کارکردگی کا تعلق ہے تو اس میں صرف دو باتیں نمایاں تھیں۔ ایک 2017 کی چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں یادگار سپیل اور پھر 2019 کے عالمی کپ میں 17 وکٹیں۔

2020 میں عامر کے انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے فیصلے کے بارے میں اب صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ اس فیصلے کی وجہ سے ان کے مزید چار سال ضائع ہوگئے۔

انہیں ٹیم مینیجمنٹ کے ساتھ جو بھی اختلافات تھے اس بارے میں پاکستان کرکٹ بورڈ سے بات کرنی چاہیے تھی اور اس کے بعد وہ کوئی بھی فیصلہ کرتے لیکن اس وقت وہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر بہت زیادہ متحرک نظر آرہے تھے۔

اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب انہیں سینٹرل کنٹریکٹ نہیں ملا اور وہ نیوزی لینڈ کے دورے سے ڈراپ ہوئے تو انہوں نے مصباح الحق کے بارے میں طنزیہ ٹوئٹ کی تھی۔

پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان موجودہ  ٹی ٹوئنٹی سیریز صرف عامر ہی نہیں بلکہ آنے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے پیش نظر چند دوسرے کھلاڑیوں کے لیے بھی اہمیت کی حامل ہے جن میں سرفہرست فخر زمان ہیں جو اگرچہ 17 رکنی سکواڈ میں جگہ بنانے میں کامیاب تو ہوئے ہیں لیکن پہلے دو میچوں میں ان کی جگہ نہیں بن پائی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فخر نیوزی لینڈ کے دورے میں پانچوں ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کھیلے تھے جن میں وہ صرف ایک نصف سنچری بنانے میں کامیاب ہو پائے تھے۔

اس سیریز میں صائم ایوب اور محمد رضوان کے اوپن کرنے اور بابر کے ون ڈاؤن پر کھیلنے کی وجہ سے فخر کو چوتھے نمبر پر کھیلنا پڑا تھا اور موجودہ سیریز میں صائم اور بابر نے اوپننگ کی ہے اور رضوان کو نمبر تین پر کیا گیا ہے۔

چوتھے نمبر پر عثمان خان کے آجانے کے بعد فخر کے لیے کم بیک کرنا یقیناً چیلنجنگ ہوگا۔

خود عثمان کے لیے بھی یہ سیریز بہت اہم ہے جنہوں نے متحدہ عرب امارات کی کرکٹ سے تعلق ختم کرکے پاکستان کی نمائندگی کرنے کا فیصلہ کیا گوکہ دوسرے میچ میں وہ محض سات رنز ہی بنا پائے لیکن ابھی انہیں مزید مواقع ملنے ہیں۔

یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ دوسرے ٹی ٹوئنٹی میں رضوان کا ون ڈاؤن پر کھیلنا دسمبر 2020 کے بعد پہلا موقع ہے کہ انہوں نے اننگز کا آغاز نہیں کیا۔

پاکستان کا پیس اٹیک شاہین شاہ آفریدی، زمان خان، نسیم شاہ اور عباس آفریدی کی موجودگی میں مضبوط دکھائی دیتا ہے۔

نسیم کی واپسی نے ٹیم میں دوبارہ جان ڈال دی ہے۔ وہ ان فٹ ہونے کے سبب ورلڈ کپ جیسے اہم ترین ایونٹ سے باہر ہوگئے تھے اور ان کی کمی شدت سے محسوس کی جا رہی تھی۔

پاکستان کے پاس سپن آپشن بھی خاصا متوازن ہے جس میں شاداب خان، اسامہ میر، ابرار احمد اور عماد وسیم موجود ہیں۔ پہلے دونوں میچوں میں ابرار کو اسامہ میر پر ترجیح دی گئی۔

دوسرے میچ میں ابرار صرف 15 رنز کے عوض دو وکٹوں کی متاثرکن کارکردگی سے اپنا کیس مضبوط کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

دوسری جانب اسامہ اس سال پی ایس ایل میں سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے والے بولر رہے ہیں۔ ظاہر ہے روٹیشن پالیسی کے تحت انہیں بھی موقع ملے گا لیکن جب ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے لیے ٹیم سلیکشن کا وقت آئے گا تو اس وقت صورت حال دلچسپ ہوگی کہ ابرار اور اسامہ میں سے قرعہ فعال کس کے نام نکلے گا۔

 21 سالہ عرفان خان نیازی نے دوسرے میچ میں پانچویں نمبر پر آکر 18 گیندوں پر 18 رنز ناٹ آؤٹ بنائے۔ ان کی سلیکشن پر بھی کافی بات ہو رہی ہے۔

عام رائے یہ ہے کہ انہیں بہت جلدی انٹرنیشنل کرکٹ میں موقع دے دیا گیا ہے۔ بہتر یہ ہوتا کہ انہیں ابھی پاکستان شاہینز کے میچز کھلائے جاتے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک باصلاحیت کرکٹر ہیں۔ وہ اس سال پی ایس ایل کے بہترین فیلڈر اور بہترین ایمرجنگ کرکٹر قرار پائے تھے۔

اپنے پہلے ہی فرسٹ کلاس سیزن میں انہوں نے فیصل آباد اور سٹیٹ بینک کی طرف سے کھیلتے ہوئے اگرچہ 800 رنز بنائے ہیں لیکن پاکستان کپ ون ڈے میں چار میچوں میں وہ محض 85 رنز اور نیشنل ٹی ٹوئنٹی میں تین میچوں میں صرف  65 رنز بنا پائے۔

پاکستان سپر لیگ کے نو میچوں میں ان کے بغیر کسی نصف سنچری کے 171 رنز تھے۔

یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ