طالبان حکومت نے مشرقی افغانستان کے صوبہ خوست میں تین ریڈیو سٹیشنوں کے رپورٹروں کو موسیقی بجانے اور خواتین سامعین سے رابطہ کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے۔
سینٹر آف افغان جرنلسٹس نے ایک بیان میں اس کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے برائی کی روک تھام کے محکمے سے کہا کہ گرفتار افراد کو فوری اور غیر مشروط طور پر رہا کیا جائے۔
سینٹر کے اعلامیے میں کہا گیا کہ ’ناز ریڈیو کے صحافی اسماعیل سعادت، اقرا ریڈیو کے صحافی وحید اللہ معصوم اور اولس غگ ریڈیو (عوام کی آواز) کے صحافی احسان اللہ تسل کو مقامی وقت کے مطابق صبح 10 بجے دفتر طلب کیا گیا جہاں انہیں گرفتار کر لیا گیا۔‘
صوبہ خوست میں ایک صحافی نے افغانستان جرنلسٹ سینٹر کو گرفتاری کے بارے میں بتایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان تینوں صحافیوں کو اسی دن دوپہر ڈیڑھ بجے خوست سکیورٹی کمانڈ میں منتقل کیا گیا اور تب سے انہیں حراست میں رکھا گیا ہے۔
سینٹر کے مطابق خوست میں ایک اور ذریعے نے بتایا کہ ڈائریکٹوریٹ آف پبلک پروہیبیشن نے ابتدائی طور پر ان تینوں ریڈیو سٹیشنوں کے ڈائریکٹرز کو مشترکہ اجلاس میں شرکت کے بہانے مدعو کیا تھا لیکن ریڈیو سٹیشنوں کے ڈائریکٹرز کی بجائے تینوں رپورٹر اجلاس میں چلے گئے۔
اس ذریعے کے مطابق اجلاس میں صحافیوں کو بتایا گیا کہ انہیں موسیقی نشر کرنے اور خواتین سامعین سے رابطے پر پابندی کے حکم کی خلاف ورزی کی وجہ سے عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
صوبہ خوست میں محکمے نے اس معاملے کی تصدیق صحافیوں کے ایک مشترکہ وٹس ایپ گروپ میں ایک پیغام میں کی۔
اس پیغام میں گرفتار صحافیوں یا متعلقہ میڈیا کا نام لیے بغیر کہا گیا کہ ’انتظامیہ کی جانب سے متعدد بار میڈیا کو مشورہ دیا گیا کہ وہ تفریحی پروگراموں کے پس منظر میں موسیقی یا فون کالز نشر نہ کریں۔ عورتوں کے ساتھ رابطہ مکمل طور پر حرام ہے۔‘
صوبہ خوست کے محکمے نے مزید کہا: ’تاہم اس تفصیل کے مطابق متعدد ذرائع ابلاغ نے خلاف ورزی کی اور آج انہیں اس محکمے نے قید کی سزا سنائی اور مستقبل میں بھی قوانین پر عمل درآمد نہ کرنے کے جرم میں امارت اسلامیہ (طالبان) ان کو عدالت میں پیش کرے گی۔‘
طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے ملک بھر میں میڈیا پر موسیقی پر پابندی عائد کر دی گئی تھی، تاہم میڈیا کے لیے لڑکیوں اور خواتین کی فون کالز پر پابندی ایک نیا مسئلہ ہے، جو نافذ کیا گیا ہے۔
اس وقت صوبہ خوست میں قومی (ریاستی) ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ساتھ ساتھ 15 ریڈیو اور تین نجی ٹیلی ویژن کام کر رہے ہیں۔ خوست سمیت ملک بھر میں بچیوں کے لیے چھٹی جماعت سے اوپر کے سکولوں کی بندش کی وجہ سے صوبے میں حال ہی میں میڈیا کے ذریعے سکول کے اسباق کے تعلیمی پروگراموں میں اضافہ ہوا ہے۔
خوست کے مقامی میڈیا کے متعدد عہدیداروں کا کہنا ہے کہ تعلیمی پروگراموں کو بہتر انداز میں فروغ دینے کے لیے سامعین کے سوالات کے جوابات دینا ضروری ہے اور بعض مواقع پر بعض پروگراموں کے پس منظر میں موسیقی کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔
افغانستان جرنلسٹ سینٹر نے لڑکیوں کو ٹیلی فون کال کرنے کا موقع فراہم کرنے یا پروگراموں کے پس منظر میں موسیقی کی اشاعت پر خوست میں صحافیوں یا میڈیا کے نمائندوں کی طلبی اور گرفتاری کو ایک غیرقانونی عمل اور پبلک میڈیا کے قانون کے خلاف قرار دیتے ہوئے ان رپورٹرز کی جلد از جلد رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
نیز غیر قانونی ہدایات کے ذریعے آزاد میڈیا کے معاملات میں مزید مداخلت اور ان پر کام کی پابندیوں میں اضافے کے امکان پر سنجیدگی سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان ہدایات کو پبلک میڈیا کے قانون کی بنیاد پر منسوخ کرنے اور صحافیوں اور میڈیا کے حقوق کی پاسداری کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
پبلک میڈیا کے قانون کی بنیاد پر، جسے طالبان حکومت نے بھی قابل اطلاق سمجھا ہے، صحافی اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دینے کے لیے آزاد ہیں۔
اگست 2021 میں اقتدار میں واپس آنے کے بعد طالبان نے میڈیا پر بہت سی پابندیاں عائد کیں اور اسی وجہ سے تقریباً 50 فیصد میڈیا نے کام کرنا چھوڑ دیا اور سینکڑوں صحافی، ٹی وی پریزینٹرز اور سینیما مالکان نے افغانستان چھوڑ کر مختلف ممالک میں پناہ لے لی ہے۔
خیر اللہ خیرخوا کی قیادت میں وزارت اطلاعات و ثقافت، محمد خالد حنفی کی سربراہی میں وزارتِ خیر و ممانعت اور عبدالحق وثیق کی قیادت میں طالبان کا محکمہ انٹیلی جنس تین ایسے ادارے ہیں، جو میڈیا کی سرگرمیوں کو کنٹرول اور اس کی نگرانی کرتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان تینوں اداروں نے افغانستان کے ملکی میڈیا میں سیریلز، فلموں، موسیقی، حتیٰ کہ پس منظر کی موسیقی، تنقیدی مواد کی اشاعت اور طالبان کے ناقدین کے انٹرویوز کی نشریات پر پابندی لگا دی۔ طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد سے، درجنوں میڈیا حکام، رپورٹرز اور ٹیلی ویژن پروگراموں کے پروڈیوسرز کو طالبان کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے کے الزام میں گرفتار، دھمکیاں اور قید کیا جا چکا ہے۔
گذشتہ ہفتے طالبان کے میڈیا کمیشن نے، جس کی سربراہی اس گروپ کی حکومت کے وزیر اطلاعات و ثقافت خیر اللہ خیرخوا کر رہے تھے، اعلان کیا کہ گلبدین حکمت یار کی ملکیت والے بیریا اور صلاح الدین ربانی کی ملکیت والے نور نامی ٹیلی ویژن چینلز نے قوانین کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے نشریات روک دی ہیں۔
طالبان کی جانب سے میڈیا کے لیے بنائے گئے قوانین کے مطابق خواتین کو ماسک پہن کر میڈیا کے سامنے آنا چاہیے اور اپنے بالوں اور ہاتھوں کو مکمل طور پر ڈھانپنا چاہیے اور ان کے کپڑوں کا رنگ بھی سیاہ ہونا چاہیے۔ ان پابندیوں نے افغان میڈیا کو خواتین اینکرز اور اناؤنسرز کی تعداد کو کم کر دیا ہے اور اینکرز کی ایک قلیل تعداد طے شدہ قواعد کے ساتھ کام کر رہی ہے۔
افغانستان کے اندر اور باہر طالبان کے نافذ کردہ قوانین کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کے باوجود، اس تحریک کے اہلکاروں نے نہ صرف ان قوانین میں ردوبدل نہیں کیا بلکہ نئی پابندیاں لگا کر معلومات تک رسائی کے عمل کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔
اگرچہ طالبان کے قائم کردہ قوانین ریڈیو اور ٹیلی ویژن پریزینٹرز کو خواتین سامعین کی فون کالز کے بارے میں کچھ نہیں کہتے، تاہم طالبان کے بعض کمانڈروں اور مقامی عہدیداروں نے اس سلسلے میں مقامی میڈیا پر من مانی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
مبصرین کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ خواتین سامعین کو میڈیا پر کال کرنے پر پابندی لگانے کا مقصد ان میڈیا کے تعلیمی پروگراموں میں خلل ڈالنا ہے۔