مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق افغان طالبان نے سکیورٹی میں اضافہ کر دیا ہے۔
قبل ازیں یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ داعش طالبان کے پس منظر میں رہنے والے سپریم لیڈر کی نماز عید کی ادائیگی کے لیے قندھار کی مسجد میں متوقع آمد کے موقعے پر ان پر حملہ کر سکتی ہے۔
ہبت اللہ اخونزادہ اسلامی سکالر ہیں جو شاذونادر ہی منظر عام پر آتے ہیں۔ وہ جنوبی افغانستان کے صوبہ قندھار میں طالبان کے گڑھ کو کبھی کبھار ہی چھوڑتے ہیں۔
ہبت اللہ اخونزادہ اور ان کا حلقہ خواتین اور لڑکیوں پر پابندیاں عائد کرنے میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں جس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور طالبان کو عالمی سطح پر تنہا کر دیا گیا۔
اتوار کو قندھار میں لی گئی تصاویر اور ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ طالبان جنگجو رمضان کے اختتام پر منائی جانے والی عید الفطر سے قبل اینٹیں لا کر ایک مسجد کے ارد گرد دیوار کھڑی کر رہے ہیں۔
جمعے کو یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ طالبان کی مخالف تنظیم داعش، افغان حکومت کے عہدے داروں پر حملے پر غور کر رہی ہے۔
ٹیلی ویژن افغانستان انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق مقامی طالبان انتظامیہ نے فیصلہ کیا ہے کہ اخونزادہ کہاں عید کی نماز ادا کریں گے یہ ایک رات قبل طے کیا جائے گا۔ ٹیلی ویژن نے مزید رپورٹ کیا ہے کہ طالبان کو خدشہ ہے کہ داعش کے جنگجو مسجد میں داخل ہونے کے لیے مقامی نمازیوں میں گھل مل سکتے ہیں۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ طالبان نے اخونزادہ کی نماز عید کی ادائیگی کے لیے قندھار میں دو مساجد کو حتمی شکل دے دی ہے اور اب دونوں کے ارد گرد حفاظتی اقدامات میں اضافہ کر رہے ہیں۔
دی انڈپینڈنٹ نے قندھار کی تصاویر کی صداقت کی تصدیق نہیں کی۔
ہفتے کو اخونزادہ نے عید کے لیے تحریری پیغام جاری کیا جس میں طالبان حکام پر زور دیا گیا کہ وہ اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے افغانستان کی خدمت کریں۔
ازبک اور ترکمانستانی سمیت سات زبانوں میں تقسیم کیے گئے پیغام میں انہوں نے مزید کہا کہ طالبان عہدے داروں کو ’آپس میں برادرانہ زندگی گزارنی چاہیے، اختلافات اور خود غرضی سے بچنا چاہیے۔‘
اخونزادہ نے اپنے پیغام میں سفارتی تعلقات، افغانستان کی معیشت، طالبان کے عدالتی نظام، خیرات اور میرٹ کی خوبیوں کا بھی ذکر کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ سکیورٹی ’سخت ہونے اور مزید اموات کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ اسلامتی شریعت اور انصاف کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔‘
تاہم انہوں نے افغانستان میں لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم پر پابندی کے بارے میں بات نہیں کی۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے اگست 2021 میں امریکہ اور نیٹو افواج کے ملک سے انخلا کے بعد قائم ہونے والی طالبان کی دوسری حکومت پر سخت گیر ہونے اور صنفی امتیاز کا الزام عائد کیا ہے۔
حکومت قائم ہونے کے بعد طالبان نے لڑکیوں اور خواتین کو کام کرنے، سکول جانے، تعلیم حاصل کرنے، عوامی پارکوں جم اور نیشنل پارکوں میں جانے سے روک کر ان کی عوامی زندگی ختم کر دی۔
اس سال جنوری میں اخونزادہ نے ایک منفرد آڈیو پیغام میں دعویٰ کیا تھا کہ ان کی انتہائی سخت گیر حکومت نے خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کو کسی بھی سابقہ حکومت کے مقابلے میں بہتر طریقے سے یقینی بنایا ہے۔
اخونزادہ کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت خواتین اور بیواؤں کی شادیاں زبردستی نہیں کرواتی۔ افغانستان میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کارکنوں نے تردید کی ہے جو جرائم کی موجودگی کا مشاہدہ کر چکی ہیں۔
© The Independent