رینجرز کے آنے سے بہت پہلے ریڈیو پاکستان کراچی ایک ایسی دنیا تھی جہاں ہر وقت میلہ لگا رہتا تھا۔ لیکن اب خالی ہونے کے بعد قدرے خاموشی ہے۔
ایم اے جناح روڈ پر واقع اس قدیم عمارت سے جسے ثقافتی ورثہ قرار دیا جاچکا ہے پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی تقریر نشر ہوئی تھی۔
جناح روڈ سے گزرنے والے جلوسوں کی سکیورٹی کے پیش نظر 2015 میں سندھ رینجرز نے عمارت کو اپنی تحویل میں لے لیا تھا جسے اب خالی کر دیا گیا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ترجمان سندھ رینجرز نے عمارت خالی کرنے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ 'ہم نے ریڈیو پاکستان کی عمارت خالی کر دی ہے۔ ہم خود سے عمارت میں آکر نہیں بیٹھے تھے سکیورٹی کے پیش نظر عمارت ہماری تحویل میں تھی لیکن میڈیا ہم پر انگلیاں اٹھا رہا ہے۔
اب جب ہم عمارت چھوڑ چکے ہیں تب بھی مسئلہ بنایا جا رہا ہے۔ ہم کسی بھی جگہ خود نہیں جاتے، سندھ حکومت کی طرف سے ہمارے لیے عارضی انتظامات کیے جاتے ہیں۔ اب ہم گڈاپ میں ٹول پلازہ کے قریب نئی جگہ منتقل ہو گئے ہیں جو ہماری ضرورت کے عین مطابق ہے۔‘
ریڈیو پاکستان نے 2007 میں آگ لگنے کے بعد اس عمارت کو خالی کر دیا تھا اور اپنا سینٹر حسن سکوائر پر واقع سوک سینٹر منتقل کر دیا تھا۔ آگ صبح اس وقت بھڑکی جب بچوں کا پروگرام ’بچوں کی دنیا‘ ریکارڈ کیا جا رہا تھا۔
اس موقع پر تقریبا چالیس بچے وہاں موجود تھے تاہم انتظامیہ بچوں کو جلتی ہوئی عمارت سے محفوظ انداز سے نکالنے میں کامیاب رہی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب رونقیں دوبارہ بحال ہونے لگی ہیں اور ریڈیو پاکستان کا کچھ عملہ دوبارہ پرانی عمارت میں منتقل ہوگیا ہے۔ سیلز، مارکیٹنگ اور نیوز سیکشن سے شروع ہو کر تاریخی عمارت تک زیادہ تر آپریشنز کو آہستہ آہستہ لیکن بتدریج واپس منتقل کرنے کا منصوبہ ہے البتہ ریڈیو پاکستان کی نشریات اب بھی سوک سینٹر سے جاری ہیں۔
اس عمارت کا افتتاح 16 جولائی 1951 کو کوئینز روڈ پر واقع انٹیلی جنس سکول سے کراچی سٹیشن کے وہاں منتقل ہونے کے بعد کیا گیا تھا، جہاں زیڈ اے بخاری، شاہد احمد دہلوی، ایس ایم سلیم اور عبدالمجید جیسی قد آور شخصیات کی رہنمائی میں تقسیم کے فوراً بعد کراچی سے میڈیم ویو ٹرانسمیشن کا آغاز ہوا تھا۔
دو چھوٹے چھوٹے گنبذوں والی یہ پرانی عمارت ایم اے جناح اور اس سے پہلے بندر روڈ کے نام سے مشہور شاہراہ پر واقع ہے جہاں میڈم نور جہاں، مہدی حسن، محمد ابراہیم، محمد جمن، روبینہ قریشی، زرینہ بلوچ، احمد رشدی اور ریشماں نے آواز کے جادو جگائے۔
فلمی دنیا پر راج کرنے والے ستارے محمد علی، شمیم آرا، مصطفیٰ قریشی، طلعت حسین، خبریں پڑھنے والوں میں شکیل احمد، انور بہزاد، شمیم اعجاز، انور حسین، ایڈورڈ کیٹپیئر اور چشتی مجاہد اس عمارت میں اپنے فن کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے جب عمارت کے اندر حالات کا جائزہ لیا تو عمارت کا نچلہ حصہ جہاں ایڈمن اور اکاؤنٹس کے دفاتر ہوا کرتے تھے تمام کمرے دھول مٹی سے اٹھے ہوئے تھے اور درو دیوار پر جالے بنے ہوئے تھے۔ دروازے اور کھڑکیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھیں جبکہ بالائی اور پہلی منزل جہاں سے کسی زمانے میں سٹوڈیو سے پروگرام نشر کیے جاتے تھے ان کی حالت زار بھی دیکھنے قابل نہ تھی۔ عمارت کے احاطے میں لگا بوڑھا برگد تاہم بدلتے حالات و واقعات کا شاہد بنا کھڑا ہے۔
کراچی کی ہر قابلِ ذکر شخصیت نے اس سٹیشن کی کینٹین میں بیٹھ کر چائے پی، شامی کباب کھائے اور دال چپاتی کا لنچ کیا ہے۔ یہاں فن کاروں، ادیبوں، شاعروں کا جمگھٹا لگا رہتا تھا۔
انڈپینڈنٹ اردو کی حاصل کردہ معلومات کے مطابق پہلی منزل پر چودہ سٹوڈیوز تھے جو اکتوبر 2007 میں جل کر خاکستر ہو گئے تھے۔ بالائی منزل میں سٹوڈیو کے آلات تو نہیں نظر آئے تاہم کچھ ٹوٹا پھوٹا فرنیچر اور تزین کا سامان کوڑے کے ڈھیر کی طرح پڑا ہوا تھا۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔