پنجاب حکومت گندم کے کاشتکاروں کو ریلیف دینے میں ناکام، احتجاجی تحریک تیز

حکومت کی پنجاب کے کسانوں کی گندم خریدنے پر ہچکچاہٹ اور سرکاری قیمت کے مسئلے پر ملک کے سب سے بڑے صوبے میں کاشتکاروں کی تحریک زور پکڑ رہی ہے اور مختلف اضلاع میں کسان تنظیمیں احتجاج کر رہی ہیں۔

(اے ایف پی)

حکومت کی پنجاب کے کسانوں کی گندم خریدنے پر ہچکچاہٹ اور سرکاری قیمت کے مسئلے پر ملک کے سب سے بڑے صوبے میں کاشت کاروں کی تحریک زور پکڑ رہی ہے اور مختلف اضلاع میں کسان تنظیمیں احتجاج کر رہی ہیں۔

کسان بورڈ نے پیر کو پنجاب اسمبلی کی عمارت کے باہر احتجاج کیا تاہم قانون نافذ کرنے والے اداروں نے احتجاجیوں کرنے والے کاشتکاروں پر کریک ڈاؤن کیا، جس میں بورڈ کے صدر رشید منہالہ سمیت 40۔50 افراد گرفتار کر لیے گئے۔

کسانوں کی ایک دوسرے تنظیم پاکستان کسان اتحاد کے مرکزی صدر خالد کھوکھر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مختلف اضلاع سے اب تک تقریباً 150 گرفتاریاں ہو چکی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پیر کے احتجاج میں پنجاب اسمبلی تک کسی کسان کو جانے نہیں دیا گیا بلکہ جی پی او چوک میں ہی گرفتاریاں شروع کر دی گئیں تھیں، جب کہ اسمبلی عمارت کے باہر پی ٹی آئی کے کچھ اراکین پنجاب اسمبلی نے احتجاج کیا۔

پنجاب کی وزیر اطلاعت عظمیٰ بخاری نے کسانوں کی گرفتاری کی تردید کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ حکومت ان کے حقیقی نمائندوں سے رابطے میں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بعض عناصر سیاست کی آڑ میں کسانوں کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جنہوں نے مخالف سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سے حکومتی پارٹی کے خلاف انتخابات میں حصہ لیا تھا۔

’ایک مخصوص جماعت اپنے لوگوں کے ذریعے گندم کے معاملے کو سیاسی رنگ دے رہی ہے۔ یہ جماعت کسانوں کی سب سے بڑی دشمن ہے۔‘

پاکستان کسان اتحاد کے مرکزی صدر خالد کھوکھر کا کہنا تھا کہ وزارت برائے نیشنل فود سکیورٹی اینڈ ریسرچ نے تصدیق کی ہے کہ گذشتہ سال کی 43، 44 لاکھ ٹن گندم حکومت کے پاس موجود تھی۔

انہوں نے سوال اٹھایا: ’تو مسئلہ یہ ہے کہ جب اتنی گندم موجود تھی تو 35 لاکھ 87 ہزار ٹن گندم باہر سے کیوں منگوائی گئی؟

’معاملہ اصل میں یہ ہوا کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں گندم کی قیمت 550 ڈالر فی ٹن سے کم ہو کر 200 ڈالر پر آگئی ہے، جس کے نتیجے میں مقامی مافیاز نے بیورو کریسی کی مدد سے گندم کی خریداری کی سمری بھجوائی اور وزارت برائے نیشنل فوڈ سکیورٹی نے درآمد کی اجازت دے دی جب کہ دوسری غلطی یہ کی گئی کہ گندم منگواتے ہوئے اس کی مقدار کی حد کا کوئی تعین نہیں کیا گیا۔‘

ان کے خیال میں ایسا منافع خوری کی غرض سے کیا گیا تھا ورنہ پاکستان میں گندم پہلے سے وافر مقدار میں موجود تھی۔

’انہوں نے زیادتی یہ کی کہ 31 مارچ تک گندم منگوانے کی اجازت دی جب کہ ہماری اپنی گندم سندھ سے فروری میں آنا شروع ہو جاتی ہے اور مارچ میں باقی صوبے گندم کی فراہمی کرتے ہیں۔ اس لیے درآمد کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا۔‘

انہوں نے بتایا کہ بیرون ملک سے 24۔25 سو روپے فی من خریدی گئی گندم اپنے لوگوں میں 4400 روپے کے حساب سے بیچی گئی۔

’اس کے علاوہ انہوں نے صفائی سے ایک اور بڑی چالاکی کی کہ جو گندم پاسکو اور فوڈ ڈپارٹمنٹس کے پاس پڑی تھی اس کی قیمت 4785 روپے فی من کروا دی، جب کہ وہی جنس آٹے کی چکیوں کو 3900 روپے فی من کے حساب سے فروخت کی جانی تھی۔

’اور یہ سازش اس لیے کی گئی کہ بیرون ملک سے منگوائی ہوئی گندم فلور ملز والے نسبتاً کم قیمت پر لیں اور ان کا سٹاک نکل جائے جب کہ سرکاری سٹاک وہیں موجود ہے اور اس طریقے سے انہوں نے ڈیڑھ سو ارب روپے کمائے لیے۔‘

خالد کھوکھر نے مزید بتایا کہ اس وقت کاشتکاروں کے پاس 32 ملین ٹن گندم ہے اور درآمد اور قیمت میں کمی کی وجہ سے وہ 8۔9 سو ارب روپے کم وصول کر رہے ہیں۔

ان کے مطابق کسان حکومت سے اپنے مقرر کردہ کے ریٹ گندم خریدے جانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ’اگرچہ اس میں بھی کسانوں کو تھوڑا سا نقصان ہے لیکن فی الحال حکومت نے ہمیں کوئی آفر نہیں دی ہے۔‘

پنجاب کے وزیر خوراک بلال یاسین نے ایک نجی چینل کے پروگرام میں اسی مسئلے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پنجاب چھوٹے کسانوں سے گندم خرید کر ذخیرہ کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سستی گندم بیچنے پر مجبور کسانوں کو بینک آف پنجاب کے ساتھ مل کر معاوضہ ادا کیا جائے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پنجاب اسمبلی کے احاطے میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف ملک احمد خان بھچر کا کہنا تھا کہ حکومت نے ابھی تک گندم کے معاملے پر کوئی پالیسی نہیں دی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی ورکرز اور اراکین اسمبلی کے علاوہ کسانوں کو بھی پکڑا جا رہا ہے۔

’دو دن ہو گئے ہیں ان کی پولیس اب کسانوں کے پیچھے ہے، کسانوں کی گندم باہر پڑی ہے اور پولیس گھروں میں گھس رہی ہے۔‘

ملک احمد خان بھچر نے مزید کہا کہ ’وزیر اعظم نے پاسکو کی جانب سے 18 لاکھ میٹرک ٹن گندم خریدنے کا جھوٹ بولا لیکن اس ادارے کو پیسے ہی جاری نہیں کیے گئے۔

’ان کو چاہیے پنجاب میں پاسکو کا دائرہ کار بڑھا دیں۔ یہ اس لیے نہیں کر سکتے کہ ان کی نیت میں کھوٹ ہے۔‘

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی زیر صدارت پیر کو گندم کی خریداری کے حوالے سے کابینہ کا اجلاس بھی ہوا لیکن تاحال اس مسئلے کا کوئی حل نہیں نکالا جا سکا ہے۔

پنجاب حکومت کی جانب سے کسانوں سے گندم نہ خریدنے کے اقدام کو فرحت منظور چانڈیو ایڈووکیٹ نے پیر کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج بھی کیا ہے۔

فرحت نے اپنی درخواست میں موقف اپنایا کہ حکومت کسانوں سے گندم سرکاری قیمت پر خریدنے کی پابند ہے اور 3900 روپے فی من گندم خریداری کے لیے پالیسی جاری کی گئی تھی۔

’حکومت نے 22 اپریل سے کسانوں سے گندم کی خریداری شروع کرنا تھی  لیکن ایسا ہو نہیں پایا۔‘

درخواست گزار کے مطابق بارشوں کی وجہ سے کسان سستے داموں گندم مافیا کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں، جب کہ سرکاری قیمت پر گندم خریداری نہ کرکے کسانوں کے بنیادی حقوق پامال کیے جا رہے ہیں۔ عدالت عالیہ سے درخواست کی گئی کہ حکومت کو گندم مافیا کے خلاف کارروائی کا حکم دیا جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان