ملتان میں قومی اسمبلی کی نشست این اے 148 میں ضمنی الیکشن 19 مئی کو ہو رہا ہے۔
اس نشست پر چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی قاسم گیلانی پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے ٹکٹ پر اور پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کے بیرسٹر ملک تیمور میں کانٹے کا مقابلہ ہے۔
یہ نسشت حالیہ عام انتخابات میں یوسف رضا گیلانی کے سینیٹر منتخب ہونے پر خالی ہوئی تھی۔
الیکشن کمشین کی جانب سے اس سیٹ پر انتخابات کا شیڈول جاری کیا گیا تھا۔ شیڈول کے مطابق انتخابی مہم آج جمعے کی رات ختم ہو جائے گی۔
پولنگ کے انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں پولنگ سٹیشن قائم کر کے عملے کی ڈیوٹیاں بھی لگا دی گئی ہیں۔
اس حلقے میں مسلم لیگ کی جانب سے کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا گیا۔ البتہ پارٹی کی جانب سے قاسم گیلانی کی حمایت کا دعویٰ کیا جا رہا ہے لیکن ن لیگ کے بعض مقامی رہنما زیادہ متحرک دکھائی نہیں دیے۔
اس حلقے میں پی ٹی آئی امیدوار بیرسٹر تیمور کے اشتہارات پر نواز شریف کی تصویر پر بھی مخالفین کی جانب سے تنقید کی گئی۔ تاہم ملک تیمور کے بقول یہ تصاویر پی ٹی آئی کے ووٹرز کو تقسیم کرنے کے لیے قاسم گیلانی نے خود لگوائیں۔
قاسم گیلانی کے مطابق پی ٹی آئی امیدوار جیتنے کے لیے ہر قسم کا حربہ استعمال کر رہے ہیں۔ ن لیگ کے مقامی سابق امیدوار شوکت بوسن کی حمایت سے بھی ووٹ لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بیرسٹر ملک تیمور کے بقول، ’ہمارا مقابلہ قاسم گیلانی سے نہیں بلکہ چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی سے ہے۔ سرکاری مشینری کا استعمال بے دریغ جاری ہے۔‘
جنوبی پنجاب کے سیاسی تجزیہ کار رضی الدین رضی کے مطابق، گیلانی خاندان کو موروثی سیاست جبکہ پی ٹی آئی حمایت یافتہ امیدوار کو ان کی پارٹی اپوزیشن میں ہونے کا نقصان ہوسکتا ہے۔
ملتان ضلع میں آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات میں یوسف رضا گیلانی، ان کے بیٹے عبدالقادر گیلانی اور علی موسی گیلانی رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے جبکہ ایک بیٹے علی حیدر گیلانی صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔
یوسف رضا کی خالی نشست پر بھی انہوں نے اپنے آخری بیٹے کو بھی ایوان میں پہنچانے کے لیے پیپلز پارٹی کا ٹکٹ جاری کرایا ہے۔
عام انتخابات میں اس حلقے این اے 148 میں پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی نے 67 ہزار 326 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی تھی۔ ان کے مقابلے میں پی ٹی آئی حمایت یافتہ آزاد امیدوار بیرسٹر ملک تیمور الطاف نے 67 ہزار 33 ووٹ لیے اور دوسرے نمبر پر رہے۔
یہاں مسلم لیگ نے آٹھ فروری کے عام انتخابات میں ملک احمد حسین ڈھیڑ کو ٹکٹ جاری کیا تھا جو 2018 میں اسی حلقے سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوچکے ہیں۔
انہوں نے حالیہ عام انتخاب میں 57 ہزار 989 ووٹ حاصل کیے اور تیسرے نمبر پر رہے۔
رضی الدین رضی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس حلقے میں مسلم لیگ ن نے تو آفیشلی قاسم گیلانی کی حمایت کا اعلان کر رکھا ہے۔ مگر کئی رہنما پی ٹی آئی حمایت یافتہ امیدوار ملک تیمور کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ سابق ایم این اے غفار ڈوگر، ملک احمد حسین ڈھیڑ، سابق ایم این اے و وفاقی وزیر سکندر حیات بوسن اندروی طور پر گیلانی کی مخالفت کر رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اگرچہ ن لیگ کا امیدوار میدان میں نہیں لیکن مقامی قیادت کی مداخلت سے ن لیگ کا ووٹ پوری طرح قاسم گیلانی کو ملتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اس اندرونی مخالفت کا فائدہ ملک تیمور کو ہوسکتا ہے۔ اسی طرح حلقے کے لوگوں میں یہ تاثر بھی موجود ہے کہ ہر نشست پر ملتان سے گیلانی خاندان کا ہی امیدوار کیوں سامنے آرہا ہے۔ دیگر رہنماؤں یا کارکنوں کو ایوانوں میں جانا کیوں ضروری نہیں۔‘
مسلم لیگ ن ملتان کے ضلعی صدر بلال بٹ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پارٹی قیادت کی ہدایت پر ہم پوری طرح قاسم گیلانی کی حمایت کر رہے ہیں۔
’یہاں تمام رہنما اور کارکن متحد ہیں اور گیلانی کو کامیاب کرانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ جہاں بھی ن لیگ کے ووٹرز موجود ہیں ہم انہیں گیلانی کی حمایت کی ہی ہدایت کر رہے ہیں۔ ویسے بھی ہمارے ووٹرز کبھی ایسے لیڈر اور جماعت کے حامی کو ووٹ نہیں دیں گے جو ملک کو بدحال کرنے کے ذمہ دار ہیں۔‘
امیدواروں کی توقعات
ہر انتخاب میں جتنے امیدوار حصہ لے رہے ہوتے ہیں وہ سبھی جیتنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ملتان کے ضمنی الیکشن میں حصہ لینے والے بھی دونوں مضبوط امیدوار اپنی اپنی کامیابی کے لیے پر امید ہیں۔ وہ ایک دوسرے پر بھی الزامات اور تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
علی قاسم گیلانی نے کہا ہے کہ ’تحریک انصاف کی قیادت ن لیگ کے قائد نواز شریف پر ہمیشہ تنقید کرتی رہی ہے۔ لیکن جب ووٹ لینے کی باری آئی تو ان کی تصویر کے ساتھ تشہیری مہم چلائی جارہی ہے۔ ن لیگ کے سابق امیدوار شوکت بوسن کو ساتھ لے کر مہم چلائی جارہی ہے تاکہ ن لیگ کے ووٹ حاصل کر سکیں۔‘
انہوں نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ’ہم نے ہمیشہ جمہوری روایات کا پاس رکھا حلقے کے عوام کی خدمت کی ہے اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔ ہم پر الزامات کوئی نئی بات نہیں کیونکہ پی ٹی آئی جھوٹے الزامات کا سہارا لے کر ہی ووٹ لیتی رہی اب بھی وہی کر رہے ہیں۔ ہم پہلے بھی کامیاب ہوئے اب بھی بھاری اکثریت سے یہ نشست دوبارہ جیت جائیں گے۔‘
ملک تیمور الطاف نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یوسف رضا گیلانی پیپلز پارٹی کا استعمال کر کے پہلے بھی اپنے بیٹوں کو ایوانوں میں پہنچا چکے ہیں۔ خود بھی چیئرمین سینیٹ کی نشست حاصل کر لی۔ اب بھی اپنا ہی بیٹا اس حلقے سے ٹکٹ کے قابل دکھائی دیا جیسے پیپلز پارٹی میں باقی سب نعرے لگانے اور قربانیاں دینے کے لیے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمارا مقابلہ علی قاسم سے نہیں بلکہ چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی سے ہے۔ کیونکہ وہ سرکاری سرکٹ ہاؤس میں بیٹھ کر لوگوں کو نوکریوں کے جھانسے دے رہے ہیں۔ اس حلقے میں سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے۔‘
بیرسٹر تیمور الطاف نے کہا کہ ’پولیس کے زریعے ہمارے ووٹرز اور سپورٹرز کو ہراساں کرایا جارہا ہے۔ یہ خاندان پورا حرکت میں ہے اور حکومت کی مکمل حمایت حاصل ہے الیکشن کمیشن کی پابندی کے باوجود خلاف قانون تشہیر جاری ہے۔ سڑکیں بلاک کر کے جلسے کیے جارہے ہیں لوگوں کو خریدنے کی کوششیں جاری ہیں۔
’انہوں نے یہ سب پہلے بھی کیا لیکن ہم نے الیکشن جیتا لیکن دھاندلی سے چند سو ووٹوں سے یوسف رضا گیلانی کو جتوا دیا گیا۔ اب بھی حلقے میں ووٹر ان سے شدید متنفر ہیں مگر اب بھی دھاندلی سے جتوانے کی اطلاعات ہیں۔ مگر ہم اپنے ووٹوں کا پہرہ دیں گے اس بار انہیں شب خون نہیں مارنے دیں گے۔‘
رضی الدین رضی کے مطابق ’دونوں طرف سے کامیابی کی کوشش جاری ہے گیلانی کو حکومت میں ہونے کی وجہ سے ووٹرز کو اپنی طرف مائل کرنے کا فائدہ ہے۔ تو پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار کو اپنے لیڈر کے خلاف کارروائیوں پر ہمدردی کا ووٹ ملنے کی توقع ہے۔ مگر حتمی فیصلہ تو عوام نے 19 مئی کو ہی کرنا ہے۔‘