’صورت حال قابو میں ہے‘
کرغزستان کی وزارت خارجہ کے مطابق سکیورٹی فورسز نے صورت حال پر مکمل طور پر قابو پا لیا ہے اور اب حالات معمول پر آ چکے ہیں۔
حکومت پاکستان کا احتجاج
پاکستانی دفتر خارجہ نے ایک بیان میں بتایا کہ آج کرغز سفارت خانے کے ناظم الامور میلس مولدالیف کو ڈائریکٹر جنرل (ای سی او اینڈ سی اے آرز) اعزاز خان نے ڈی مارش کے لیے دفتر خارجہ طلب کیا۔
’انہیں کرغز جمہوریہ میں زیر تعلیم پاکستانی طالب علموں کے خلاف گذشتہ رات ہونے والے واقعات کی اطلاعات پر حکومت پاکستان کی گہری تشویش سے آگاہ کیا گیا۔ کرغز ناظم الامور پر زور دیا گیا کہ کرغز حکومت کرغز جمہوریہ میں مقیم پاکستانی طلبہ اور شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے۔‘
پاکستانی سفیر کی کرغزستان کے نائب وزیر خارجہ سے ملاقات
اسلام آباد میں دفتر خارجہ نے ایک بیان میں بتایا کہ پاکستانی سفیر حسن ضیغم نے آج کرغزستان کے نائب وزیر خارجہ ایمان گزیف الماز سے ملاقات کی اور بشکیک میں پرتشدد واقعات پر پاکستانی شہریوں اور خاص طور پر متاثرہ پاکستانی طلبہ اور ان کے اہل خانہ کی گہری تشویش سے آگاہ کیا۔
انہوں نے کرغزستان کی حکومت پر زور دیا کہ وہ پاکستانی شہریوں کی حفاظت کو ترجیح دے۔
کرغزستان کے نائب وزیر خارجہ نے بتایا کہ مقامی حکام نے صورت حال پر قابو پا لیا ہے جو اب معمول پر آ چکی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کرغز پولیس تمام ہاسٹلز کو سکیورٹی فراہم کر رہی ہے اور اس معاملے کی براہ راست نگرانی کرغز صدر کر رہے ہیں۔
کرغز نائب وزیر خارجہ نے پاکستانی سفیر کو یقین دلایا کہ کرغزستان کی حکومت گذشتہ روز ہونے والے حملے کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کرے گی۔
’مقامی طلبہ کو لگا کہ لڑنے والے پاکستانی یا انڈین ہیں‘
بشکیک میں پاکستان سفارت خانے کی جانب سے ایکس پر دیے گئے فون نمبر پر رابطہ کرنے پر پاکستان سفارت خانے کے کونسل اتاشی محمد فیصل نے تصدیق کی کہ ان پرتشدد واقعات میں ایک بھی موت نہیں ہوئی۔
انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار امر گرڑو سے گفتگو کرتے ہوئے محمد فیصل نے کہا کہ ’کل کچھ مصری طالب علموں کا مقامی کرغز طلبہ کے ساتھ جھگڑا ہوا، جس کے دوران مقامی طالب علموں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔‘
ان کے مطابق: ’اس جھگڑے کے بعد مقامی طالب علموں کو لگا کہ ان سے لڑنے والے پاکستانی یا انڈین ہیں، اس لیے مشتعل مقامی کرغز طالب علموں نے ان تمام ہاسٹلز پر دھاوا بول دیا، جہاں پاکستانی، انڈین اور بنگلہ دیشی طلبہ رہائش پذیر تھے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’مشتعل مقامی طلبہ کے حملوں سے کچھ پاکستانی زخمی ہوئے، مگر اموات نہیں ہوئیں۔ ان واقعات کے بعد کرغز فوج اور پولیس نے کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ اب حالات قابو میں ہیں۔‘
محمد فیصل کے مطابق کرغز پولیس اور فوج نے پاکستانی سفارت خانے سے مکمل تعاون کیا ہے اور کہیں سے ایمرجنسی کال آنے پر ہم مقامی انتظامیہ کو اطلاع کرتے ہیں وہ فوری ردعمل دکھاتے ہیں۔
انہوں نے کہا: ’اگر طالب علم واپس پاکستان جانا چاہیں تو انہیں واپس بھیجنے کے لیے ہم نے تمام انتظامات کر لیے ہیں اور انہیں واپس پاکستان بحفاظت بھیجا جائے گا۔‘
پرتشدد واقعات میں کسی پاکستانی کی موت نہیں ہوئی: سفارت خانہ
بشکیک میں واقع پاکستانی سفارت خانے کا کہنا ہے کہ ان واقعات میں کسی پاکستانی کی موت نہیں ہوئی، تاہم پاکستانی سفیر کے مطابق 35 افراد زخمی ہیں، جن کی قومیت کی تصدیق نہیں کی گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایکس پر پوسٹ کی گئی ایک ٹویٹ میں پاکستانی سفارت خانے نے کہا کہ ’کرغز حکومت نے تصدیق کی ہے کہ غیر ملکی طالب علموں کے خلاف ہجوم کے حالیہ تشدد میں کسی پاکستانی طالب علم کی موت نہیں ہوئی۔ کرغز وزارت داخلہ نے بھی پریس ریلیز جاری کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ صورت حال قابو میں ہے۔‘
نجی نیوز چینل اے آر وائی سے بات کرتے ہوئے پاکستانی سفیر حسن علی ضیغم نے کہا کہ ’کرغز حکام کے مطابق کسی کا ریپ نہیں ہوا۔ ان واقعات میں کچھ غیر ملکی طلبہ زخمی ہوئے ہیں اور 35 کے قریب افراد کو ہسپتال لایا گیا تاہم کرغز حکام نے ابھی تک ان کی قومیت سے متعلق کچھ نہیں بتایا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جب کرغز حکومت اس حوالے سے معلومات دے گی تو ہم وہ شیئر کر دیں گے۔‘
پاکستانی سفیر کا مزید کہنا تھا کہ ’مشتعل افراد دیواریں پھلانگ کر ہاسٹلز میں داخل ہوئے اور طلبہ سے بدتمیزی کی، ان کے سامان کو نقصان پہنچایا، تاہم اب یہ لوگ منتشر ہو چکے ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ان افراد کی جانب سے پاکستانی طلبہ کو بالخصوص نشانہ نہیں بنایا جا رہا ہے۔
حسن علی ضیغم کے مطابق: ’مصری طلبہ اور مقامی افراد کے درمیان لڑائی کی ویڈیوز وائرل ہونے کے بعد اس معاملے پر اشتعال پھیلا۔‘
سفیر نے پاکستانی طلبہ کو بھی ہدایت کی کہ وہ حالات معمول پر آنے تک گھروں میں ہی رہیں۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر گذشتہ شب سے ہی چند ایسی ویڈیوز اور تصاویر گردش کر رہی ہیں جن میں مبینہ طور پر کرغزستان کے مقامی افراد کی جانب سے پاکستانی طلبہ کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے(اے پی پی بشکریہ 24 کے جی)
حسن ضیغم نے ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں کہا: ’بشکیک میں طلبہ کے ہاسٹل کے ارد گرد ہجوم کے تشدد کے تناظر میں، پاکستانی سفارت خانے نے بشکیک میں تمام پاکستانی طلبہ کو سختی سے مشورہ دیا ہے کہ جب تک کہ حالات معمول پر نہ آجائیں وہ گھروں کے اندر ہی رہیں۔‘
سفیر نے مزید کہا کہ ’ہم اپنے طلبہ کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے مقامی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ رابطہ کر رہے ہیں۔‘
کرغستان سفارت خانے کے باہر احتجاج
نامہ نگار قرہ العین شیرازی کے مطابق پاکستانی طلبہ پر تشدد کے خلاف آج اسلامی جمعیت طلبہ نے اسلام آباد میں کرغزستان سفارت خانے کے باہر احتجاج کرتے ہوئے پاکستانی طلبہ کی حفاظت کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا۔
مظاہرین نے کرغزستان کے سفارت خانے میں اپنے مطالبات پر مبنی یاداشت جمع کروائی جس میں طلبہ کی فوری حفاظت یقینی بنانے اور تشدد میں ملوث افراد کی نشاندہی سمیت دیگر نکات شامل تھے۔
احتجاج میں کرغزستان میں زیر تعلیم ایک طالب علم کے بھائی بھی شریک تھے، جنھوں نے بتایا کہ آج صبح ان کا اپنے بھائی سے رابطہ ہوا ہے اور وہ اپنا ہاسٹل چھوڑ کر کسی گھر میں منتقل ہو چکے ہیں۔
ایک اور ٹویٹ میں پاکستانی سفیر نے طلبہ سے کسی بھی ہنگامی صورت حال میں رابطہ کرنے کے لیے فون نمبر بھی شیئر کیا اور لکھا: ’کسی بھی ہنگامی صورت حال کے لیے سفارت خانے کے نمبر +996507567667 پر کال کریں۔‘
وزیراعظم کا اظہار تشویش
وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی کرغزستان میں پاکستانی طلبہ پر ہونے والوں حملوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ایکس پر اپنی پوسٹ میں انہوں نے لکھا: ’بشکیک میں پاکستانی طلبہ کی صورت حال پر گہری تشویش ہے۔ میں نے پاکستان کے سفیر کو تمام ضروری مدد فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔ میرا دفتر بھی سفارت خانے کے ساتھ رابطے میں ہے اور مسلسل صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔‘
اس حوالے سے پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے بھی کہا ہے کہ پاکستان اس صورت حال میں کرغزستان کی حکومت سے رابطے میں ہے۔
انہوں نے ایکس پر لکھا: ’بشکیک میں ہمارا سفارت خانہ پاکستانی طلبہ کی سہولت کے لیے مقامی حکام سے رابطے میں ہے۔ سفیر اور ان کی ٹیم کے لیے پاکستانیوں کی حفاظت انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔‘
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر گذشتہ شب سے ہی چند ایسی ویڈیوز اور تصاویر گردش کر رہی ہیں جن میں مبینہ طور پر کرغزستان کے مقامی افراد کی جانب سے پاکستانی طلبہ کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تاہم آزادنہ طور پر ان دعوؤں کی تصدیق نہیں ہو سکی۔
اس کے علاوہ بظاہر کرغزستان میں زیرتعلیم پاکستانی طلبہ کے چند ویڈیو پیغامات بھی ایکس پر وائرل ہیں جن میں ان طلبہ کا کہنا ہے کہ کرغزستان میں مقامی افراد کی جانب سے پاکستانی طلبہ کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ان کے ہاسٹلز پر حملے کیے جا رہے ہیں۔
پرتشدد واقعات کب اور کیسے شروع ہوئے؟
پاکستانی سفارت خانے کی طرف سے جاری کردہ پبلک نوٹس کے مطابق گذشتہ شام سے بشکیک میں غیر ملکی طلبہ کے خلاف مقامی ہجوم کے تشدد کے متعدد واقعات پیش آئے ہیں۔
کرغز پریس کا حوالہ دیتے ہوئے سفارت خانے نے کہا کہ یہ معاملہ 13 مئی کو مقامی طلبہ اور مصر کے میڈیکل طلبہ کے درمیان لڑائی کی ویڈیو شیئر ہونے کے بعد بھڑک اٹھا۔ بشکیک میں میڈیکل یونیورسٹیوں کے کچھ ہاسٹلز اور پاکستانیوں سمیت بین الاقوامی طلبہ کی کئی نجی رہائش گاہیں ہیں، جن کو حملوں سے نشانہ بنایا گیا ہے. ہاسٹلز میں پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش کے طلبہ مقیم ہیں۔
’اموات، ریپ کی کوئی تصدیق نہیں ہوئی‘
اے پی پی نے پاکستانی سفارت خانے کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا ہے کہ جیسا کہ سوشل میڈیا پوسٹس میں بشکیک میں پاکستانی طلبہ کی اموات اور ریپ کا دعویٰ کیا جا رہا ہے، سفارت خانے نے کہا کہ ’انہیں متعدد طالب علموں کے معمولی زخمی ہونے کی اطلاعات ملی ہیں۔‘
سفارت خانے نے مزید کہا: ’پاکستان سے متعدد طلبہ کے معمولی زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ پاکستانی طالب علموں کی مبینہ موت اور ریپ کے بارے میں سوشل میڈیا پوسٹس کے باوجود، ابھی تک ہمیں کوئی تصدیق شدہ رپورٹ موصول نہیں ہوئی ہیں۔‘