پاکستان ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے لیے اپنے 18 رکنی سکواڈ کا اعلان کرچکا ہے اور اسے اس سہولت کا فائدہ اٹھانے کا پورا پورا موقع ملا ہے کہ عالمی ایونٹ کے لیے حتمی سکواڈ کے اعلان کی آخری تاریخ 25 مئی تک وہ حتمی 15 ناموں کا اعلان کرسکے۔
یہ تحریر آپ کالم نگار کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں:
ایک جانب تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے لیے اپنے ان 18 کھلاڑیوں کو پرکھنے اور ان میں سے 15 کھلاڑیوں کو منتخب کرنے کا مناسب موقع ملا ہے لیکن تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ پاکستان کے لیے اب بھی صورت حال واضح نہیں کہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں اس کے 15 کھلاڑی کون سے ہوں گے۔
ورنہ بہترین بات تو یہی ہوتی کہ جس طرح انگلینڈ، آسٹریلیا، سری لنکا جنوبی افریقہ اور انڈیا نے پہلے ہی مرحلے میں اپنے 15 ناموں کا اعلان کردیا پاکستان بھی اپنے حتمی کھلاڑی منتخب کر کے انہی کو آئرلینڈ اور انگلینڈ کے خلاف سیریز میں موقع دے کر عالمی ایونٹ کی بھرپور تیاری کرا دیتا۔
ایسا اس لیے نہیں ہوسکا کیوں کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ساتھ اس وقت ایک بڑا مسئلہ کچھ کھلاڑیوں کی فارم اور فٹنس کا ہے جس کی وجہ سے وہ آخر وقت تک انتظار کی کیفیت میں ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ آئی سی سی ایونٹ سے قبل پاکستان اپنے حتمی سکواڈ کی تشکیل کے معاملے میں واضح نہیں ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ 2019 کے عالمی کپ سے قبل بھی کچھ اسی طرح کی صورت حال رہی تھی جب چیف سلیکٹر انضمام الحق نے 18 اپریل کو ورلڈ کپ سکواڈ کا اعلان کیا تھا لیکن اس وقت انگلینڈ کے خلاف ون ڈے سیریز میں ٹیم کی مایوس کن کارکردگی نے انہیں 20 مئی کو ٹیم میں تین تبدیلیاں کرنے پر مجبور کردیا تھا۔
جو پہلی ٹیم اعلان ہوئی تھی اس میں جنید خان، فہیم اشرف اور عابد علی شامل تھے لیکن ان کی جگہ فاسٹ بولر وہاب ریاض، محمد عامر اور بیٹسمین آصف علی ورلڈ کپ سکواڈ میں شامل کرلیے گئے تھے۔
اب صورت حال یہی ہے کہ ابتدائی طور پر 18 کھلاڑی سلیکٹ ہوئے ہیں جن میں سے ایک حسن علی کے بارے میں یہ بات واضح کر دی گئی تھی کہ وہ حارث رؤف کے بیک اپ کے طور پر ٹیم میں شامل کیے گئے ہیں کیوں کہ حارث رؤف آہستہ آہستہ فٹ ہو رہے ہیں۔
یہاں کئی سوالات موجود ہیں، اول یہ کہ سلیکشن کمیٹی کو ٹیم منتخب کرتے وقت کتنا یقین تھا، اور اب بھی کتنا یقین ہے کہ حارث رؤف ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں فٹ ہو کر بولنگ کر پائیں گے؟
دو طرفہ سیریز اور ورلڈ کپ میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے اور ایک عالمی ایونٹ کے لیے کسی بھی کھلاڑی خصوصاً فاسٹ بولر کو آدھی فٹنس پر سلیکٹ کرنا اور یہ توقع کرنا کہ وہ ورلڈ کپ تک فٹ ہو جائے گا، ایک رسک ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ حارث رؤف انگلینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز میں مکمل فٹ ہونے کی صورت میں کس طرح کی بولنگ کرتے ہیں؟ وہ فٹ ہونے کے بعد پہلی بار انٹرنیشنل کرکٹ کھیلیں گے اور فاسٹ بولر کے لیے انجری سے واپس آکر ردھم میں آنے میں وقت لگتا ہے جیسا کہ ہم شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ کے معاملے میں دیکھ چکے ہیں۔
یقیناً پاکستانی ٹیم مینیجمنٹ اور سلیکٹرز حارث رؤف کے معاملے میں آخر وقت تک انتظار کریں گے۔
اس سے قبل ہم نے 2019 کے عالمی کپ میں بھی دیکھا تھا کہ فاسٹ بولر محمد حسنین کے معاملے میں بھی یہی ہوا تھا کہ ٹیم انہیں ساتھ ساتھ لیے چلتی رہی تھی لیکن حسنین اس ورلڈ کپ کے کسی بھی میچ میں نہیں کھیل پائے تھے۔
اگر حارث رؤف کسی وجہ سے مکمل فٹ نہ ہوسکے تو پھر کیا ہوگا؟ کیا ان کی جگہ جس بولر یعنی حسن علی کو بیک اپ کے طور پر لیا گیا ہے کیا وہی حتمی ٹیم میں جگہ بنائیں گے؟ یا پھر کپتان اور سلیکٹرز زمان خان یا وسیم جونیئر کی طرف دیکھیں گے؟
جہاں تک حسن علی کا تعلق ہے تو ان کی آئرلینڈ کے خلاف کارکردگی سب کے سامنے ہے اور انہیں اس وجہ سے بھی ٹیم میں لیا گیا کہ وہ اس وقت انگلش کاؤنٹی کرکٹ کھیل رہے ہیں لیکن وہ جن دو فرسٹ کلاس میچوں میں وارکشائر کی طرف سے کھیلے ان تین اننگز میں بھی ان کی کارکردگی اچھی نہیں رہی تھی۔
کہیں سلیکٹرز کو اب یہ احساس نہ ہو جائے کہ انہوں محمد وسیم جونیئر اور زمان خان کو سکواڈ سے باہر رکھ کرغلطی کر دی ہے۔ یہ دونوں بولرز نیوزی لینڈ کے گزشتہ دورے میں کھیلے تھے جبکہ حسن علی نے آخری ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل دو سال قبل کھیلا تھا اور محض پی ایس ایل کی کارکردگی پر انہیں سکواڈ کا حصہ بنایا گیا ہے۔
صرف حارث رؤف کی فٹنس اور ان کے بیک اپ کے طور پر لیے گئے حسن علی کی فارم ہی پریشان کن نہیں ہے بلکہ کئی دیگر معاملات بھی تشویش کا سبب ہیں۔
فاسٹ بولر نسیم شاہ فٹ ہوکر ٹیم میں آئے ہیں لیکن انہیں بھی ردھم میں آنے میں وقت لگ رہا ہے نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز اور اب آئرلینڈ میں وہ چار میچوں میں چار وکٹیں ہی لے پائے۔
بات فارم کی ہورہی ہے تو محمد عامر کا بھی ذکر ہوجائے، وہ 2019 کے عالمی کپ میں بھی آخری لمحات میں ٹیم میں شامل کیے گئے تھے اور اب وہ ریٹائرمنٹ ختم کرکے ٹیم میں واپس آئے ہیں لیکن نیوزی لینڈ کے خلاف ایک میچ میں عمدہ بولنگ کے بعد سے وہ کوئی قابل ذکر پرفارمنس نہیں دے پائے ہیں۔
نیوزی لینڈ کے خلاف تیسرے میچ میں 41 رنز اور پھر آئرلینڈ کے خلاف دوسرے میچ میں 44 رنز ان کی بولنگ پر بنے ہیں ظاہر ہے کسی طور بھی یہ کارکردگی اطمینان بخش نہیں کہی جا سکتی۔
یہاں آف سپنر شاداب خان کی بات بھی کر لی جائے۔ شاداب خان ایک ایسے کرکٹر ہیں جو اپنی بیٹنگ فیلڈنگ اور بولنگ کی وجہ سے ٹیم کے اہم رکن سمجھتے جاتے ہیں لیکن پچھلے کچھ عرصے سے ان کی بولنگ سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ صرف یہی نہیں کہ انہوں نے آئرلینڈ کے خلاف ایک میچ میں چار اوورز میں 54 رنز دے ڈالے اس سے پہلے بھی وہ بولنگ میں غیرمؤثر نظر آرہے ہیں۔
یہ بات اس لیے بھی تشویش کا باعث ہے کہ وہ ایک میچ ونر کھلاڑی ہیں۔ ٹیم ان سے مڈل اوورز میں وکٹیں چاہتی ہے لیکن ہم دیکھ چکے ہیں کہ سری لنکا میں منعقدہ ایشیا کپ ہو یا انڈیا میں منعقدہ ورلڈ کپ ، شاداب خان کو وہ کامیابی نہیں مل سکی ہے جس کے لیے مشہور ہیں اور جو توقعات ان سے وابستہ کی جاتی ہیں۔
انگلینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز شاداب خان کے لیے ورلڈ کپ کے تناظر میں بڑی اہمیت رکھتی ہے۔
ابرار احمد مسٹری بولر کے طور پر سکواڈ کا حصہ ہیں تاہم آئرلینڈ کے خلاف انہیں نہیں کھلایا گیا۔ دیکھنا ہوگا کہ کہ ان کی پراسرار بولنگ کی رونمائی کب ہوتی ہے؟ اور یہ مسٹری بولنگ حریف بیٹسمینوں کو کتنا پریشان کرتی ہے؟
صائم ایوب کی کارکردگی بھی یقیناً ٹیم کے لیے فکرمندی کا سبب بنی ہوئی ہو گی۔ صائم ایوب گذشتہ سال قومی ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ میں زبردست انداز میں کھیلے تو سوشل میڈیا پر ہونے والے تبصروں میں انہیں سعید انور سے تشبیہہ دی جانے لگی تھی۔
اس سال بھی صائم ایوب کے چرچے رہے ہیں خصوصاً ان کے ’نولُک‘ شاٹ کے۔ لیکن ٹیلنٹ جب تک غیرمعمولی کارکردگی کی شکل میں منتقل نہ ہو وہ کسی کو زیادہ دیر متاثر نہیں کرسکتا۔
صائم ایوب کو اب تک ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں 18 اننگز کھیلنے کو مل چکی ہیں لیکن ان اننگز میں وہ ایک بھی نصف سنچری نہیں بنانے میں کامیاب ہوسکے ہیں۔ ان میں سے چار اننگز ایسی ہیں جن میں انہوں نے پہلے ہی اوور میں اپنی وکٹ گنوائی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹیم منیجمنٹ اور کپتان بابراعظم کا صائم پر مکمل اعتماد ہے لیکن اب گیند صائم کے کورٹ میں ہے کہ آخر کب تک کوئی بڑی اننگز کھیلے بغیر وہ ٹیم میں جگہ برقرار رکھتے ہیں۔ بظاہر حسن علی، سلمان آغا اور عرفان خان نیازی تین ایسے کھلاڑی ہیں جو ورلڈ کپ سکواڈ میں جگہ بناتے نظر نہیں آ رہے ہیں۔
یہاں آخر میں آئرلینڈ کا بھی ذکر ہوجائے جس نے پاکستان کے خلاف نہ صرف پہلا ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل جیتا بلکہ پوری سیریز میں مثبت کرکٹ کھیلی۔
آئرلینڈ انٹرنیشنل کرکٹ میں کبھی بھی نظرانداز نہ جانے والی ٹیم رہی ہے۔ عام طور پر اسے 2007 کے عالمی کپ کی وجہ سے یاد رکھا جاتا ہے جس میں اس نے پاکستان کو ڈرامائی شکست سے دوچار کیا تھا لیکن کئی دوسرے مواقع پر بھی آئرلینڈ نے حریف ٹیموں کو حیران کن شکست دے رکھی ہے۔ گزشتہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں اس نے ورلڈ چیمپئن بننے والی انگلینڈ کی ٹیم کو شکست دی تھی۔
2011 کے 50 اوورز کے عالمی کپ میں بھی اس نے انگلینڈ کو ہرایا تھا اور پھر 2020 میں دوبارہ انگلینڈ کو شکست دی۔ یہ دونوں کامیابیاں اس لیے یاد رکھے جانے کے قابل ہیں کہ دونوں مرتبہ آئرلینڈ نے تین سو سے زائد رنز کا ہدف عبور کرکے کامیابی حاصل کی تھی۔2021 میں آئرلینڈ نے جنوبی افریقہ کو بھی ون ڈے انٹرنیشنل میں شکست دی۔
آئرلینڈ کی پاکستان کے خلاف ڈبلن میں کامیابی کے بعد ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا گروپ اہمیت اختیار کر گیا ہے جس میں پاکستان انڈیا آئرلینڈ کینیڈا اور میزبان امریکہ شامل ہیں۔ ہر گروپ سے دو ٹیمیں اگلے مرحلے میں جائیں گی اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستانی ٹیم کسی صورت میں اب دوبارہ آئرلینڈ سے شکست کی متحمل نہیں ہوسکتی ورنہ اگلے مرحلے میں اس کی رسائی خطرے سے دوچار ہوسکتی ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔