کیا پاکستانی ٹیم ٹی 20 ورلڈکپ کے لیے تیار ہے؟

سکواڈ کے اعلان میں تاخیر نے کھلاڑیوں کے ساتھ ناقدین کو بھی متحیر کر دیا ہے۔ کھلاڑیوں کے لیے تو یہ ایک روایتی صورت حال ہے لیکن سکواڈ کے اعلان میں تاخیر ٹیم کا مورال بھی کمزور کر رہی ہے۔

20 اپریل، 2024 کی اس تصویر میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی راولپنڈی میں کھیلے گئے میچ کے دوران نیوزی لینڈ کی وکٹ گرانے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے(اے ایف پی)

پاکستان کرکٹ ٹیم کی سلیکشن کمیٹی نے ٹی 20 ورلڈ کپ 2024 سے قبل پاکستانی ٹیم کے دورہ انگلینڈ اور آئرلینڈ کے لیے 18 رکنی سکواڈ کا اعلان کر دیا ہے۔

 بابر اعظم کی کپتانی میں ٹیم آئرلینڈ کے خلاف 10 مئی سے اپنے دورے کا آغاز کرے گی۔ جہاں وہ تین ٹی ٹوینٹی میچ کھیلے گی۔

 آئر لینڈ کی ٹیم بظاہر کم درجے کی ٹیم ہے اور اس کے زیادہ تر مقابلے نان ٹیسٹ پلئینگ ممالک سے ہوتے ہیں لیکن آئر لینڈ نے پاکستان کو کئی دفعہ سخت حالات سے دوچار کیا ہے اور ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔

گذشتہ ٹی 20 ورلڈ کپ آسٹریلیا میں انگلینڈ کو شکست دے کر اس نے اپ سیٹ کیا تھا تاہم اگلے مقابلوں میں اس کی کارکردگی تنزلی کا شکار رہی۔

آئندہ ورلڈکپ میں آئرلیند پاکستان کے گروپ میں ہے اور توقع ہے کہ فلوریڈا میں ہونے والے مقابلے میں وہ ایک طاقتور حریف کی صورت میں نظر آئے گی۔

پاکستانی ٹیم کا اگلا پڑاو انگلینڈ ہو گا جہاں وہ چار ٹی 20 میچ کھیلے گی۔

 ورلڈکپ سے چند دن قبل دونوں ٹیموں کے درمیان یہ مقابلے بہت اہم ہیں اور دونوں ٹیموں کو اپنی قوت سمجھنے کا موقع مل جائے گا۔

انگلینڈ کرکٹ بورڈ نے بھی ان مقابلوں کی اہمیت کے پیش نظر اپنے تمام کھلاڑی آئی پی ایل سے واپس بلالیے ہیں تاکہ وہ پاکستان کے خلاف آزمائے جا سکیں۔ یہ ایک اچھی اور ذمہ دارانہ روایت ہے جس کو نیوزی لینڈ نے حالیہ دورہ پاکستان کے دوران نظر انداز کر دیا تھا۔

پاکستان ٹیم پر نظر

پاکستان ٹیم کے لیے سیلیکٹرز نے جن کھلاڑیوں کو شامل کیا ہے ان میں چند نام خاصے غیر متوقع ہیں۔ حسن علی اور سلمان علی آغا کی شمولیت پر سب حیران ہیں کیونکہ دونوں کھلاڑی نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیم میں شامل نہیں تھے۔

 حسن علی چند سال قبل تک تو ایک خطرناک بولر تھے لیکن گذشتہ ایک سال سے ان کی کارکردگی بہت خراب رہی ہے۔

پی ایس ایل میں بھی وہ کچھ نہیں کرسکے کراچی کنگز کو بہت مایوس کیا تھا لیکن انھیں پھر سے ٹیم کا حصہ بنادیا گیا ہے۔

سلمان علی آغا بھی ٹیم سے باہر تھے لیکن اچانک نمودار ہوگئے۔ پاکستان نے پی ایس ایل میں سب سی زیادہ وکٹ لینے والے اسامہ میر پر ابرار احمد کو ترجیح دی ہے۔

 عثمان خان اور صائم ایوب مسلسل ناکام ہونے کے باوجود ٹیم میں شامل ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ سیلیکٹرز ابھی تک مخمصے کے عالم میں ہیں۔ وہ پانچ اوپنرزشامل کرکے مڈل آرڈر کو برباد کررہے ہیں۔

 فخر زمان قدرتی اوپنر ہیں لیکن انھیں پانچویں نمبر پر پھینک دیا گیا ہے۔ پاکستان کے پاس کوہلی یا ڈیرل مچل کی طرح کا مڈل آرڈر بلے باز نہیں ہے۔

محمد عامر کو محمد علی پر ترجیح دی گئی ہے حالانکہ انگلینڈ کی کنڈیشنز میں محمد علی بہت کارگر ثابت ہوتے۔ حارث رؤف اگرچہ مکمل فٹ نہیں ہیں لیکن بابر اعظم کی فرمائش پر شامل کیے گئے ہیں۔

پاکستان بابر اعظم کو اوپننگ سے ہٹانے پر بالکل تیار نہیں ہے جس کے باعث پاور پلے کا استعمال اب خواب بن چکا ہے۔ فخر زمان شاید سب سے بہتر چوائس ہیں لیکن مینجمنٹ کو گوارا نہیں۔

پاکستان اس دورے سے ان تین کھلاڑیوں کا فیصلہ کرے گا جو ورلڈکپ سے باہر ہوں گے۔ کیونکہ ورلڈکپ میں پندرہ کھلاڑی ہی شامل ہوسکتے ہیں ممکنہ طور پر حسن علی سلمان آغا اور عباس آفریدی کو ڈراپ کردیا جائے گا۔

ابرار احمد کی جگہ بھی اسامہ میر لے سکتے ہیں۔

اگرچہ اکثر ممالک نے ورلڈکپ کے لیے اپنی قومی ٹیم کا اعلان کردیا ہے لیکن پاکستان ابھی تک سوچ بچار کررہا ہے شاید اس کی وجہ نیوزی لینڈ کی سی ٹیم کے خلاف قومی ٹیم کی بدترین کارکردگی ہے جس نے سیلیکٹرز کو پریشان کردیا ہے۔

ٹیم کہاں کمزور ہے؟

سکواڈ کے اعلان میں تاخیر نے کھلاڑیوں کے ساتھ ناقدین کو بھی متحیر کر دیا ہے۔ کھلاڑیوں کے لیے تو یہ ایک روایتی صورت حال ہے لیکن سکواڈ کے اعلان میں تاخیر ٹیم کا مورال بھی کمزور کر رہی ہے۔

اگرچہ پاکستان گذشتہ ورلڈکپ کے فائنل تک پہنچا تھا اور ٹی 20 کرکٹ کی ایک خطرناک ٹیم تصور کی جاتی ہے لیکن موجودہ منظر نامے نے اس کی طاقت کو کافی کمزور کردیا ہے۔

ٹیم کا اصل مسئلہ مڈل آرڈر ہے جو اوپنرز کو نہ سہارا دیتا ہے اور نہ بولرز کو مقابلے کا حوصلہ۔

 گذشتہ سیریز میں مڈل آرڈر کا کمبینیشن بہت کمزور رہا اور ہدف تک پہنچنے میں ناکام رہا۔ افتخار احمد کی کرکٹ چند گیندوں تک محدود ہوچکی ہے جبکہ عثمان خان شاداب خان کی کارکردگی بھی خراب رہی۔ عثمان خان کے لیے ٹیم میں مستقل بنیادوں پر جگہ بننا مشکل نظر آرہا ہے۔

پاکستان کا دوسرا مسئلہ سپنرز کی غیر معیاری کارکردگی ہے۔ ویسٹ انڈیز کی پچوں پر سپنرز کا کردار بہت اہم ہو گا۔

 پاکستان اگر عماد وسیم کو استعمال کرنا چاہتا ہے تو انگلینڈ میں تمام میچ کھلانا ہوں گے۔

ماڈرن کرکٹ سے بے خبر ٹیم

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان ٹیم ابھی تک ماڈرن کرکٹ کو نہیں اپنا سکی ہے۔ پاکستان ٹیم جب تک ہر میچ میں 200 سے زائد کا سکور ہدف نہیں رکھے گی۔ مخالفین کے لیے اطمینان کا باعث رہے گی۔

ماڈرن کرکٹ میں ہر گیند پر سکور کرنا سب سے اہم ہوتا ہے۔ لیکن پاکستانی بلے بازاپنی وکٹ بچانے کے چکر میں ٹیم کی وکٹیں گرا دیتے ہیں۔ اوپنرزاور مڈل آرڈر کو یہ انداز سیکھنا ہو گا۔

نئے کوچ نئی حکمت عملی؟

گیری کرسٹن ممکنہ طور پر ٹیم کو انگلینڈ میں جوائن کریں گے جہاں سے وہ امریکہ ساتھ جائیں گے لیکن گیری بھی پریشان ہوں گے کہ ٹیم کے مستند کھلاڑی ہر میچ تو اگلے میچ کا کوالیفائینگ راؤنڈ سمجھ کر کھیلتے ہیں جس سے ٹیم کی جیت کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے۔

اظہر محمود ٹیم کے معاون کوچ ہیں۔ جنھیں مکی آرتھر لائے تھے لیکن آرتھر کے جاتے ہی فارغ کردیا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اب ٹیم کے ساتھ پھر سے ہیں اظہر محمود، جن کی کوچنگ میں ماضی میں پاکستان ٹیم شکستوں کا بوجھ اٹھاتی رہی ہے لیکن ان پر کسی بہت طاقتور شخصیت کا ہاتھ ہے جو ہر کچھ مہینے بعد واپس لے آتے ہیں۔

ورلڈکپ میں ایک ماہ سے بھی کم وقت ہے لیکن پاکستانی سیلکٹرز کا ابھی تک ٹیم کا اعلان نہ کرنا اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ ٹیم کے حتمی اعلان تک پہنچنے کے لیے بہت سوچ بچار کرنا ہے۔

وہاب ریاض کے مطابق 22 مئی کو ٹیم کا اعلان ہوگا جو ورلڈکپ کے قواعد کے مطابق آخری دن ہو گا۔

اگرچہ کرکٹ سے متعلق ہر شخص جانتا ہے کہ ٹیم کن کھلاڑیوں پر مشتمل ہو گی لیکن سیلیکٹرز ابھی تک نجانے کون سے ہیرے تلاش کررہے ہیں۔

 ویسے بھی موجودہ سیلکشن کمیٹی اپنے بیانات اور پریس کانفرنس کے دوران غیر سنجیدہ رویے سے اپنے غیر مستند ہونے کی نوید دیتی رہتی ہے۔ اور ایسا لگتا ہے پاکستان ورلڈکپ کے لیے ابھی تک تیار نہیں ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ