حسین امیر عبداللہیان: ایران کے مغرب مخالف سفارت کار

پاسداران انقلاب کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنے والے ایک پیشہ ور سفارت کار اور قدامت پسند شخصیت، امیر عبد اللہیان نے 2021 کے انتخابات میں رئیسی کی کامیابی کے بعد عہدہ سنبھالا تھا۔

ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان 22 اکتوبر 2023 کو تہران میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان، جو صدر ابراہیم رئیسی کے ساتھ ہیلی کاپٹر حادثے میں جان سے گئے، اپنے شدید اسرائیل مخالف جذبات اور مغرب کے بارے میں شکوک و شبہات کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔

پاسداران انقلاب کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنے والے ایک پیشہ ور سفارت کار اور قدامت پسند شخصیت، امیر عبد اللہیان نے 2021 کے انتخابات میں رئیسی کی کامیابی کے بعد عہدہ سنبھالا تھا۔

سرکاری ذرائع ابلاغ نے اس وقت ان کی ’محور مقاومت‘ کی حمایت کو سراہا تھا، یہ مسلح گروہ مشرق وسطیٰ میں اپنے روایتی دشمن اسرائیل کے خلاف صف آرا ہے۔

ایران کے اعلیٰ سفارت کار کے طور پر امیر عبداللہیان کے دور میں ایران کی سفارتی تنہائی ختم کرنے اور سخت امریکی پابندیوں کے اثرات کم کرنے کے لیے سفارتی سرگرمیاں تیز کی گئی تھیں۔

انہوں نے خاص طور پر ایران کے عرب ہمسایوں بشمول علاقائی مسلم طاقت سعودی عرب کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی۔

چین کی ثالثی میں ہونے والے تاریخی معاہدے میں تہران اور ریاض نے مارچ 2023 میں تعلقات بحال کرنے اور اپنے اپنے سفارت خانے دوبارہ کھولنے پر اتفاق کیا تھا۔

امیر عبد اللہیان 1964 میں تہران کے مشرق میں دامغان شہر میں پیدا ہوئے۔ وہ شادی شدہ تھا اور ان کے دو بچے تھے۔

ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن نے پیر کو بتایا کہ جس ہیلی کاپٹر میں رئیسی، امیر عبداللہیان اور دیگر حکام سوار تھے اس کا کوئی مسافر زندہ نہیں ہے۔

ایرانی ہلال احمر نے تصدیق کی ہے کہ ان کی لاشیں اتوار کو ایران کے مشرقی آذربائیجان صوبے میں ہونے والے حادثے کے مقام سے ملی ہیں۔

حسین امیر عبداللہیان کی موت کے بعد ان کے نائب برائے سیاسی امور علی باقری کو خارجہ تعلقات کی کمیٹی میں شامل کیا گیا ہے۔

علی باقری ایران کے تجربہ کار جوہری مذاکرات کار  اور مغرب کے سخت ناقد ہیں۔ باقری کو ایران کے قدامت پسندوں کا قریبی سمجھا جاتا ہے اور وہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے اندرونی حلقے کے رکن ہیں، جو باقری کے بھائی کے سسر ہیں۔

امیر عبد اللہیان نے 1991 میں تہران یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی تھی، بعد میں اسی شعبے میں ماسٹر کی ڈگری اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی۔

ایرانی خارجہ سروس میں ایک سفارت کار کی حیثیت سے، وہ 1997 سے 2001 تک عراق اور 2007 سے 2010 تک بحرین میں تعینات رہے۔

عوام میں مقبول سابق صدر محمود احمدی نژاد کے دور حکومت میں امیر عبداللہیان عرب اور افریقی امور کے نائب وزیر خارجہ کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔

وہ ایران کے جوہری پروگرام پر تعطل کا شکار مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی کوششوں میں شامل تھے، جب 2015 میں مغربی حکومتوں کے ساتھ معاہدہ ختم ہو گیا تھا کیونکہ امریکہ نے 2018 میں یکطرفہ طور پر معاہدے سے دستبرداری اختیار کر لی تھی۔ تاہم بات چیت تعطل کا شکار ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امیر عبد اللہیان اپنے پورے کریئر کے دوران ایرانی فوج کے نظریاتی بازو پاسداران انقلاب کے ساتھ اپنے مضبوط تعلقات کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔

وہ پاسداران انقلاب کے جنرل قاسم سلیمانی کے خاص طور پر قریبی تھے، جو 2020 میں بغداد میں امریکی حملے میں مارے گئے تھے۔

امیر عبداللہیان نے شام اور عراق کو ’ٹوٹنے‘ سے روکنے کے لیے سلیمانی کی ’سٹریٹیجک ذہانت‘ کی تعریف کی تھی۔

گذشتہ ماہ غزہ کی پٹی میں جاری جارحیت کی وجہ سے علاقائی تناؤ میں اضافے اور علاقائی ایرانی اتحادیوں کی جانب سے کارروائیوں کے درمیان امیر عبداللہیان نے اپنے دشمن اسرائیل پر تہران کے پہلے براہ راست حملے کا دفاع کیا تھا۔

ایران کا یہ حملہ اسرائیل کے اس حملے کے ردعمل میں تھا جس میں تہران کے دمشق میں قونصل خانے کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

امیر عبداللہیان نے اس حملے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ’قانونی دفاع اور بین الاقوامی قانون کے دائرے میں ہے۔‘

بعد ازاں انہوں نے ایران کے وسطی صوبے اصفہان پر اسرائیل کے مبینہ جوابی حملے کو زیادہ اہمیت نہیں دی اور کہا کہ یہ ’بچوں کے کھیل‘ کے مترادف ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا