سعودی عرب کے شمال مغرب میں بحیرہ احمر کے ساحل پر جاری دنیا کے میگا پراجیکٹس نیوم کے کچھ منصوبوں میں کٹوتی کی خبروں کو سعودی وزیر برائے اقتصادیات و منصوبہ بندی فیصل الابراہیم نے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام منصوبوں پر کام تیزی سے جاری ہے۔
سعودی وزیر معیشت و منصوبہ بندی فیصل الابراہیم نے رواں ماہ ریاض میں امریکی نشریاتی ادارے (سی این بی سی) سے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ نیوم کے ’تمام منصوبے بھر انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں۔‘
سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے ویژن 2030 کا ایک اہم جز نیوم منصوبہ ہے جس پر تخلیقی انداز میں تیزی سے کام جاری ہے۔ اس منصوبے میں ماحول دوستی کے پہلو کو خاص اہمیت حاصل ہے۔
نیوم کا مطلب ’نیا مستقبل‘ ہے اور یہ تقریباً 26,500 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا منصوبہ ہے جہاں ساحلی جزیرے بھی ہوں گے اور یہ کاروباری و جدید ٹیکنالوجی کا ماحول دوست مرکز ہوگا۔
نیوم کا منصوبہ کئی برسوں سے دنیا کی توجہ کا محور ہے کیوں کہ یہ نہ صرف سعودی عرب کے لیے اہم بلکہ عالمی کمپنیوں کی بھی اس میں دلچسپی رہی ہے۔
اپنے سٹریٹیجک محل وقوع کی وجہ سے یہ منصوبہ مضبوط معیشت کی بنیاد بننے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔
جدید ترین شہری زندگی کی سہولتوں اور صنعتی مراکز کا یہ میگا منصوبہ بسانے کا اعلان 2017 میں کیا گیا جس کا تخمینہ لگ بھگ 500 ارب ڈالر لگایا گیا تھا اور اس کے لیے رقم سعودی پبلک انوسٹمنٹ فنڈ کے ذریعے فراہم کی جائے گی۔
اس منصوبے اور اس کی ماخذ سوچ کا محور محض تیل کی پیدوار پر انحصار کی بجائے سعودی عرب کی معاشی ترقی کو برقرار رکھنے کے لیے متبادل ذرائع کی بنیاد ڈالنا ہے۔
نیوم سے متعلق آگاہی اور سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنے کے لیے روڈ شوز بھی کیے گئے جن میں سے ایک ایسے شو میں بیجنگ سے شنگھائی اور پھر وہاں سے ہانگ کانگ تک کا سفر شامل ہے۔
چین علاوہ امریکہ اور یورپ بھی روڈ شوز کا حصہ رہے ہیں۔
نیوم منصوبے کا ایک اہم حصہ ’دا لائن‘ ہے جو ایک پٹی نما عمارتوں کا مجموعہ ہوگا کیونکہ اس کی تعمیر صرف 200 میٹر چوڑی، 170 کلومیٹر لمبی پٹی کی صورت میں ہو گی اور یہ سطح سمندر سے 500 میٹر بلندی پر ہو گا۔
دا لائن کی تعیمر 34 مربعہ کلومیٹر اراضی پر ہو گی۔ خبررساں ادارے (اے ایف پی) کے مطابق 2022 میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے کہا تھا کہ نیوم میں 2030 تک 10 لاکھ افراد آباد ہوں گے جبکہ یہ تعداد بتدریج 2045 تک 90 لاکھ تک پہنچ پائے گی۔
جدید طرز زندگی کے حامل اس میگا پراجیکٹ میں سیاحت اور تفریحی مقامات بشمول سکی ریزارٹ ایسے منصوبے بھی شامل ہیں جن کے بارے میں تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔
مقامی قبائل کی سعودی حکومت کی حمایت
دنیا کی توجہ کا محور نیوم منصوبہ کیوں کہ وسیع علاقے میں بنایا جا رہا ہے اور جس علاقے میں اس تعمیر کا آغاز کیا گیا وہاں کی مقامی آبادی کی تعداد کچھ زیادہ نہیں تھی۔ ان آباد افراد کی اکثریت کا تعلق ’الحویطات قبیلے‘ سے ہے۔
سعودی پریس ایجنسی ’ایس پی اے‘ کے مطابق اس قبیلے کے لوگ نہ صرف نیوم منصوبے کی حمایت کرتے ہیں بلکہ وہ سعودی عرب کی قیادت سے وفاداری کا اظہار بھی کر چکے ہیں۔
عمومی تصور یہ ہی ہے کہ نیوم منصوبہ دنیا بھر کے لیے سرمایہ کاری کے نئے مواقع پیدا کرے گا اور کئی ممالک کی افرادی قوت کے لیے بھی فائدہ مند ہوگا۔ دنیا کے اس بڑے منصوبے کے مثبت اثرات مقامی آبادی اور سعودی معیشت کے لیے سب پر ہی عیاں ہیں کیوں کہ یہاں روزگار کے لاکھوں مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔
مستقبل کی ایک نئی تعریف
نیوم منصوبے کی آفیشل ویب سائٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق ’اگر ہم کل کے چیلنجوں کو حل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں آج ان کا سامنا کرنا ہو گا، چاہے وہ کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں۔‘
ویب سائٹ کے مطابق آئندہ 20 سے 30 برسوں میں پائیدار ترقی کیا ہو گی یہ منصوبہ اس کی سمت کا تعین کرے گا جہاں ذہین ترین لوگوں کی مدد سے انسانیت کو درپیش کچھ اہم چیلنجوں سے نمٹنے اور مستقبل کی نئی تعریف کیا ہوں گی اس پر کام کیا جا رہا ہے۔
100 فیصد قابل تجدید توانائی پر کام کرنے والی دنیا کی واحد نیوم بندرگاہ
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نیوم میں سو فیصد قابل تجدید توانائی پر مبنی بندرگاہ بھی جلد مکمل طور پر آپریشنل ہو جائے گی۔ یہ دنیا کی واحد بندرگاہ ہو گی جو 100 فیصد قابل تجدید توانائی پر کام کرے گی اور وہاں کاربن کا اخراج صفر ہو گا۔ یہ بندرگاہ آئندہ نسلوں اور ماحولیات کے ماہرین کے لیے پائیدار ترقی کی ضامن اور بڑی مثال ہوگی۔
نیوم منصوبے کی ویب سائٹ کے مطابق 2025 کے آغاز تک، پہلا کنٹینر ٹرمینل مربوط سپلائی چین اور لاجسٹکس انتظامات کے ساتھ یہاں آپریشنل ہو جائے گا۔
بحیرہ احمر پر واقع اس بندرگاہ کے قریب سے عالمی بحری تجارت کا 13 فیصد گزرتا ہے جبکہ اس شہر کے سٹریٹیجک محل وقوع کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کا 40 فیصد حصہ یہاں سے چھ گھٹنے کی مسافت پر واقع ہے۔
یہ شہر قدرے ٹھنڈا کیوں گا؟
منفرد جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے یہ معتدل آب و ہوا کو یقینی بناتا ہے اور اندازہ ہے کہ دیگر خلیجی ممالک کے مقابلے میں یہ اوسطاً 10 ڈگری سیلسیس ٹھنڈا رہے گا۔ شمسی، ہوا اور ہائیڈروجن کی بنیاد پر بجلی پیدا کرنے سے یہاں صاف اور آلودگی سے پاک شہری ماحول دستیاب ہو گا۔
ماحول دوست شہر اور منصوبہ
شہر کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ یہاں نقل وحمل و بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں لوگوں کی بہبور اور صحت کو ترجیح حاصل رہے گی۔
سعودی پریس ایجنسی ’ایس پی اے‘ کے مطابق اس جدید شہر کی مثالی آب و ہوا سال بھر اس بات کو یقینی بنائے گی کہ یہاں کے مکین سفر کے دوران ارد گرد کے فطری ماحول سے لطف اندوز ہو سکیں۔
دا لائن میں مکینوں کو محض پانچ منٹ کی واک یا پیدل چلنے پر تمام سہولتوں تک رسائی حاصل ہو گی اس کے علاوہ ایک تیز رفتار ریل بھی اس منصوبے کا حصہ ہے جس کے ذریعے ’دا لائن‘ کے ایک سرے سے دوسرے تک کا سفر محض 20 منٹ میں طے ہو سکے گا۔
ایس پی اے کے مطابق نیوم کے تمام منصوبوں پر تیزی سے کام جاری ہے اور شہر کا پہلا مرحلہ 2030 میں یہاں کے مکینوں کے خیر مقدم کے لیے تیار ہو گا اور اس وقت یہ منصوبہ ترقی کے تیز ترین مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔
افرادی قوت
عرب نیوز کے مطابق نیوم منصوبوں کی نگرانی اور منصوبہ بندی کے لیے دنیا کے 90 ممالک سے تین ہزار افراد کام کر رہے ہیں جبکہ ایس پی اے کے مطابق جہاں تعمیراتی سرگرمیاں جاری ہیں وہاں پر ایک لاکھ 40 ہزار افرادی قوت مصروف ہے اور آئندہ سال تک تعمیراتی منصوبوں پر کام کرنے والے افرادی قوت دو لاکھ تک پہنچنے کی توقع ہے۔