ملک کے حالات کچھ سالوں میں بہت بدل چکے ہیں۔ پہلے ہم سب جانتے تھے کہ کن موضوعات سے ذرا فاصلہ رکھنا ہے، لیکن اب تو سنسر شپ کی کوئی حد نہیں۔
ذرا سی تنقید کرو، اداروں کے محاسبے کی بات کرو یا شخصیات کو تمیز کے پیرائے میں بھی کچھ کہہ دو تو نتائج سنگین ہو جاتے ہیں۔ بولنے والے پر فلاں ابن فلاں کی توہین کرنے پر بہت سے مقدمات بن جاتے ہیں۔
چونکہ شریف اور غریب انسان پولیس کچری سے بہت گھبراتا ہے، اس لیے اس کو مزید ڈرایا جاتا ہے۔ پاکستانی اشرافیہ خوشامد سننے کے تو عادی ہیں لیکن تنقید کی صورت میں آپ کو غدار قرار دے کر آپ پر بغاوت کے مقدمے کروا دیتے ہیں۔
ملک میں جو کچھ تنقیدی آوازیں رہ گئی ہیں وہ سیلف سینسر شپ کر رہی ہیں۔ کسی نے لکھنا کم کر دیا ہے تو کسی نے بولنا کم کر دیا ہے۔ ملک میں ویسے ہی ٹوئٹر پر پابندی ہے۔ تاہم حکومت خود وی پی این لگا کر اس کا استعمال کر رہی ہے۔ قوانین تو صرف عوام کے لیے ہوتے ہیں، اس کا اطلاق اشرافیہ خود پر نہیں ہونے دیتی۔
میرے جیسے سوشل میڈیا صارفین وی پی این کی وجہ سے تنگ آ کر اس ایپ کا استعمال کم کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے دیگر ایپس نہیں کھل پاتی تو انسان کہتا ہے چھوڑو ٹوئٹر ویسے بھی بہت ہی سنجیدہ فورم ہے۔ پر جب کبھی چند دن بعد ایکس سابقہ ٹوئٹرپر جاؤ تو وہاں ہیش ٹیگ کا دور چل رہا ہوتا ہے۔ اتنی گھٹن کا ماحول ہے کہ وہاں کوئی اچھی خبر دیکھنے اور سننے کو نہیں ملتی۔ ہر دن نئے ہیش ٹیگ چل رہے ہوتے ہیں جس کے تحت انصاف مانگا جا رہا ہوتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کب کون کہاں ہیش ٹیگ بن جائے معلوم نہیں۔ آج اتنے لوگ لاپتہ ہوئے کتنے لوگ قتل ہوئے اور کتنے ہی حادثات میں جان کی بازی ہار گئے۔ کب ایک جیتا جاگتا انسان عدد بن جائے معلوم نہیں، کب کس کا پیارا پوسٹ مارٹم رپورٹ کی ڈیڈ باڈی بن جائے۔
جب لوگ تھک ہار جاتے ہیں اداروں سے مایوس ہو جاتے ہیں تو وہ سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہیں۔ یہ سوشل کمپینز تحریک کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ بہت سے لوگوں کو انصاف بھی مل جاتا ہے اور کچھ ناانصافی کی سولی پر لٹک جاتے ہیں۔
جب ارشد ملک سے جان بچا کر چند دن کے لیے ملک سے باہر گئے تو اپنے پیروں پر چل گئے تھے جب واپس آئے تو تابوت میں تھے۔ اس تابوت پر لکھا تھا: یہاں مرحوم ارشد شریف کی باقیات موجود ہیں۔
وہ صرف ارشد کی لاش نہیں تھی اس ملک میں آزادی صحافت اور آزادی رائے کی بھی لاش تھی۔ سلسلہ رکا نہیں، کل جویریہ صدیق رو رہی تھی آج عین نقوی رو رہی ہے۔
گذشتہ دنوں صحافی اور شاعر احمد فرہاد کے لاپتہ ہونے کی خبر آئی ان کی کی بیوی عین نقوی چار معصوم بچوں کےساتھ دہائی دے رہی تھی۔ اس صحافی کی بوڑھی ماں سے بولا بھی نہیں جا رہا تھا، وہ مسلسل رو رو کر دہائی دے رہی تھی۔
پاکستان میں اگر کوئی لاپتہ ہو جائے اس کی ذمہ داری لینے کو کوئی تیار نہیں ہوتا۔ کچھ دن بعد مغوی کہتا ہے کہ میں گھر والوں کو بتائے بنا شمالی علاقوں کی سیر کو نکل گیا تھا۔ گھر والے بھی خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔
یہ دردناک مناظر کسی کو بھی مضطرب کر سکتے ہیں۔ مجھے اپنا دکھ یاد آ گیا۔ اپنے روتے ہوئے والدین آنکھوں کے سامنے آ گئے۔ جوان داماد کا یوں چلے جانا ماں باپ کی کمر توڑ دیتا ہے اور بیٹی کا بیوہ ہونا جانا ان کو ہر وقت غمگین کر دیتا ہے۔
میں نے اس ہیش ٹیگ پر آواز اٹھاتے ہوئے دل میں دعا کی کہ عین نقوی کا سہاگ واپس آ جائے، اس کے بچوں کے سر سے باپ کا سایہ نہ ہٹے۔
پاکستان میں اگر کوئی لاپتہ ہو جائے اس کی ذمہ داری لینے کو کوئی تیار نہیں ہوتا۔ کچھ دن بعد مغوی کہتا ہے کہ میں گھر والوں کو بتائے بنا شمالی علاقوں کی سیر کو نکل گیا تھا۔ گھر والے بھی خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔
اس بار معاملہ جب کورٹ تو گیا تو عدالت نے بہت سخت ریمارکس دیے۔ سب پہلے لاتعلقی اختیار کرتے رہے کہ احمد فرہاد ہمارے پاس نہیں۔ تاہم چند دنوں بعد ایک نئی ایف آئی آر دائر کر کے ان کو آزاد کشمیر تھانے سے بازیاب کیا گیا۔
عجیب بات ہے کہ ایک شخص لوئی بھیر سے غائب ہوا اور ملا آزاد کشمیر کے تھانے سے۔ مظفر آباد سے باہر تھانے میں احمد فرہاد کی ملاقات اپنے اہل خانہ سے کروا دی گئی۔ مجھے خوشی ہوئی کہ احمد فرہاد زندہ ہے لیکن دکھ بھی ہوا کہ صرف بولنے کی پاداش میں اس کے ساتھ یہ سب ہوا۔ اس کے وکلا اہل خانہ ایک طویل عدالتی جنگ کے بعد شاید اس کو آزاد کرا لیں لیکن گمشدگی کے یہ ہفتے اس کو کبھی نہیں بھولیں گے۔
دو اور ہیش ٹیگ چل رہے ہیں۔ ایک ہفتے کے دوران دو صحافیوں کو قتل کر دیا گیا۔ نصراللہ گڈانی کو میر پور ماتھیلو اور کامران داوڑ کو شمالی وزیرستان میں قتل کیا گیا۔ مئی ہی میں مظفر گڑھ میں صحافی مہر اشفاق کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ یوم صحافت پر صحافی صدیق مینگل کو خضدار میں بم دھماکے میں قتل کر دیا گیا۔
لوگ ان کے لیے انصاف مانگ رہے ہیں۔ عالمی صحافتی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ کے مطابق مئی کے مہینے میں چار پاکستانی صحافیوں کا قتل تشویش ناک ہے۔ سی پی جے 1992 سے صحافیوں کا ڈیٹا اکٹھا کر رہی ہے اور ان کے مطابق کسی بھی جنوبی ایشا کے ملک کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ایک ماہ میں اتنے صحافی قتل ہوئے ہوں۔
پاکستان اس وقت سی پے جے کی گلوبل امپیونٹی لسٹ 2023 کے مطابق 11 ویں نمبر پر ہے۔ اس وقت سوشل میڈیا صارفین جیل میں قید سیاسی قیدیوں اور مقتول صحافیوں کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں۔ عوامی مسائل سے حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑ رہا وہ اپنی پر آسائش زندگی میں مصروف ہیں۔
پھر کچھ اور واقعہ یا سانحہ ہو جائے گا۔ وہ لوگ جو درد دل رکھتے ہیں وہ ان کےلیے بھی انصاف کا ہیش ٹیگ بنا لیں گے۔ قسمت ہوئی تو انصاف ہو جائے گا، لیکن نظام سے کوئی توقع نہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔