وفاقی وزیراطلاعات عطا تارڑ نے کہا ہے کہ حکومت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے خلاف پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کے لیے سپریم کورٹ میں ’کیس دائر کیا جائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ آئین حکومت کو ’ملک مخالف سرگرمیوں‘ میں ملوث جماعت پر پابندی لگانے کا اختیار دیتا ہے۔
وزیراطلاعات نے تحریک انصاف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس جماعت نے ملک کی معیشت اور مفاد کے خلاف کام کیا ہے۔ فوری طور پر تحریک انصاف کی طرف سے اس پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
کئی سیاسی تجزیہ کار نے اپنے فوری ردعمل میں اس حکومتی فیصلہ کو غیردانش مندانہ اور ناقابل عمل قرار دیا ہے۔
وزیراطلاعات نے کہا کہ غیر ملکی فنڈنگ کیس، نو مئی کے فسادات اور سائفر کیس کے علاوہ حال ہی میں پاکستان کے سیاسی عمل سے متعلق امریکہ میں قرارداد پیش کرنے میں کردار پر پی ٹی آئی کے خلاف پابندی لگانے کے لیے قابل عمل شواہد موجود ہیں۔
وزیراطلاعات نے کہا کہ ’پاکستان تحریک انصاف اور ملک ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ تمام چیزوں کو دیکھتے ہوئے پی ٹی آئی پر پابندی لگائی جائے گی۔ فیصلہ حکومتی اتحادی جماعتوں سے مشاورت کے بعد کیا ہے۔
’ملک کو آگے جانا ہے تو شر پسند عناصر پر پابندی لگانا ہی پڑے گی، آئی ایم ایف کو خط لکھنا پی ٹی آئی کا ملک دشمن ایجنڈا تھا۔ پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بلاک کرنے پڑے تو کریں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ کہ حکومت ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام کے لیے کوشاں ہے جبکہ ملک میں ہیجانی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
وزیر اطلاعات نے کہا کہ حکومت نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ پی ٹی آئی کے بانی عمران خان، سابق صدر عارف علوی اور سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کے خلاف آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت غداری کو مقدمہ درج کرانے کے لیے ریفرنس دائر کیا جائے گا۔ ’ان تینوں لوگوں کے خلاف وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد یہ ریفرنس سپریم کورٹ کو بھجوایا جائے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیراطلاعات عطا تارڑ نے پریس کانفرنس میں مزید کہا کہا وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ مخصوص نشستوں کے معاملے پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی جائے گی اور ان کی پریس کانفرنس کے کچھ ہی دیربعد حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کی طرف سے سپریم کورٹ میں نظرثانی کی اپیل دائر کر دی گئی۔
انہوں نے کہا کہ کہ حکومت ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام کے لیے کوشاں ہے جبکہ ملک میں ہیجانی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
’حال ہی میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا، سپریم کورٹ سے پی ٹی آئی کو بن مانگے ریلیف دیا، حکومتی اور اتحادی پارٹیوں نے فیصلے کے خلاف ریونیو دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پی ٹی آئی کہیں پر پارٹی نہیں تھی۔ ان کے ارکان نے نہیں کہا ہم پی ٹی آئی کے رکن ہیں۔ سب سے سنی اتحاد کونسل کا حلف نامہ جمع کروایا۔ کیا فیصلہ ہوچکا ہے کہ آئین جو مرضی کہے ایک پارٹی کو وہ دیا جائے گا جس کا اسے حق نہیں۔‘
سپریم کورٹ نے 12 جولائی کو سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواستوں کے فیصلے میں الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) بھی مخصوص نشستوں کی حق دار ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ بینچ نے یہ اکثریتی فیصلہ سنایا، آٹھ ججوں نے مخصوص نشستیں تحریک انصاف کو دینے حق میں جبکہ پانچ نے مخالفت میں رائے دی تھی۔
تحریک انصاف کا ردعمل
تحریک انصاف کے رہنما زلفی بخاری نے کہا ہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر پابندی لگانے کے لیے جو وجوہات بیان کی ہیں وہ مسلم لیگ ن کی طرف سے اپنے ہی پیر پر خود کلہاڑی مارنے کے مترادف ہیں۔
پیر کو ایک تحریری بیان میں زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ وزیر اطلاعات نے پابندی کے لیے سائفر کیس اور انتخابی دھاندلی سے متعلق امریکی کانگریس کی قرارداد کی وجوہات بیان کیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان سائفر کیس میں بری ہو چکے ہیں۔ امریکی کانگریس کی قرارداد میں ان مشکلات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن کا ایک سیاسی جماعت کو چند ماہ میں سامنا کرنا پڑا جبکہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں بھی تصدیق کر چکی ہے کہ پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت ہے۔
زلفی بخاری کے مطابق وزیر اطلاعات نے امریکی اور اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ کے تبصرے سے متعلق تمام سوالات کو نظر انداز کیا شاید اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ یا تو اس کے مضمرات سے لاعلم ہیں یا ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں۔
زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ ’یہ (فیصلہ) خوف کی علامت ہے کیونکہ انہیں (حکومت کو) احساس ہو گیا ہے کہ عدالتوں کو ڈرایا دھمکایا نہیں جا سکتا اور نہ ہی دباؤ میں نہیں لایا جا سکتا۔ اس لیے وہ کابینہ کے فیصلے کے تحت قدم اٹھائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی جج بلیک میلنگ یا دباؤ میں نہیں آئے گا۔‘
پیپلز پارٹی سے ردعمل
پیپلز پارٹی کے رہنما رضاربانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو پی ٹی آئی پر پابندی سے متعلق جاری کیے گئے بیان میں کہا ہے کہ ایک سیاسی جماعت پر پابندی کی بات جمہوری اصول کے خلاف ہے، حکومت اس اقدام سے اجتناب کرے۔ ’ملک پہلے ہی سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار ہے، ایسے اقدام سے سیاسی افراتفری بڑھے گی اور معشیت پر منفی اثر پڑے گا۔‘
سابق چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ معاشی اور سیاسی افراتفری سارے جمہوری نظام کو غیر مستحکم کر دے گی، اگر ایسا ہوا تو اس کا وفاق پر اثر پڑے گا جو پہلے ہی اندرونی فالٹ لائنز پر ہے۔ ’حکومت اندرونی دہشت گردی روکنے پر توجہ دے، دہشت گردی کی وجہ سے فوجی، پولیس اہلکار ، سیکورٹی فورسز اور شہری ٹارگٹ کیے جا رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ حکومت اگر سپریم کورٹ کے فیصلے سے متاثر ہے تو وہ آئینی راستہ اختیار کرتے ہوئے نظر ثانی کی درخواست دائر کرے۔ سیاسی جماعت پر پابندی کا اقدام پاکستان میں ہمیشہ ناکام ہوا ہے۔
پیپلز پارٹی قیادت سے تاحال اس بارے میں کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
تحریک انصاف کی تاریخ
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا قیام 25 اپریل 1996 میں لاہور میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس کی بنیاد سیاست دان اور پارٹی کے چیئرمین، کرکٹ کھلاڑی عمران خان نے رکھی تھی۔
2008 تک تحریک انصاف بنیادی طور پر ایک شخص کی جماعت سمجھی جاتی تھی، جس میں پارٹی کے ترجمان بھی عمران خان ہی تھے۔
تحریک انصاف کے نعرے ’نیا پاکستان‘ اور ’تبدیلی‘ پارٹی کے بنیادی مقصد کی عکاسی کرتے ہیں کیونکہ ان کے رہنماؤں کو یقین ہے کہ پاکستان کو ترقی کرنے کے لیے ملکی نظام میں اصلاح کی ضرورت ہے۔