شمالی کوریا نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سخت سرزنش کرتے ہوئے ان کا وہ دعویٰ مسترد کر دیا جس میں انہوں نے شمالی کوریائی رہنما کم جونگ اُن کے ساتھ مبینہ دوستانہ تعلقات کے بارے میں بات کی۔
شمالی کوریا کا کہنا تھا کہ ’ہم رپبلکن رہنما کی پروا نہیں کرتے۔‘ شمالی کوریا کے سرکاری خبر رساں ادارے نے سابق امریکی صدر کے اس بیان کے بارے میں اداریہ تحریر کیا، جس میں ان کا کہنا تھا کہ ان کے دوبارہ امریکہ کا صدر منتخب ہونے کی صورت میں واشنگٹن کے مشرقی ایشیائی ملک کے ساتھ تعلقات بہتر ہو جائیں گے۔
سرکاری خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ’امریکہ میں کسی بھی انتظامیہ کے آنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سیاسی ماحول، جو دونوں پارٹیوں (رپبلکن اور ڈیموکریٹک) کی آپس میں لڑائی کی وجہ سے الجھن کا شکار ہے، تبدیل نہیں ہو گا، اس لیے ہمیں اس کی پروا نہیں۔‘
نیوز ایجنسی نے اس خیال کو مسترد کردیا کہ صدر ٹرمپ کی پہلی مدت صدارت میں امریکہ اور شمالی کوریا کے تعلقات کو کافی حد تک متاثر کیا۔ اس نے کہا کہ ’ذاتی روابط اور سفارت کاری کو الگ الگ دیکھا جانا چاہیے۔‘
اداریے میں کہا گیا کہ شمالی کوریا کو ممکنہ دوسری ٹرمپ انتظامیہ سے بات کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ اگر وہ محض ایسی بات چیت کی پیشکش کرتی ہے جس کا مقصد ’مسائل پیدا کرنے کی کوشش اور محاذ آرائی میں اضافہ ہے۔‘
گذشتہ ہفتے ملواکی میں رپبلکن نیشنل کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کم جونگ ان کے ساتھ اپنے مبینہ طور پر مضبوط ذاتی تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ شمالی کوریا کے رہنما شاید انہیں وائٹ ہاؤس میں واپس آتا دیکھنا چاہتے ہیں۔
سابق صدر نے کہا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ انہیں میری کمی محسوس ہوتی ہے۔‘ شمالی کوریا کی خبر رساں ایجنسی نے ٹرمپ کی جانب سے ان دور صدارت کے دوران تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اس سے کوئی خاص مثبت تبدیلی نہیں آئی۔
کم اور ٹرمپ کے درمیان تعلقات کی نوعیت پیچیدہ تھی۔ 2017 میں کم جونگ ان کے جوہری ہتھیاروں کے تجربات کے بعد صدر ٹرمپ نے ’شدید غصے‘ کا اظہار کرنے کی دھمکی دی تھی اور کے سی این اے (کورین سینٹرل نیوز ایجنسی ) نے اس کے جواب میں انہیں ’سٹھیائے ہوئے‘ اور ان کے سفیروں کو ’گینگسٹر‘ قرار دیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم 2018 میں ٹرمپ اور کم کے درمیان تاریخی دکھائی دینے والی سفارتی پیش رفت ہوئی اور اگلے دو سال میں سنگاپور اور ہنوئی میں دونوں کی سربراہ ملاقاتیں ہوئیں۔
سنگاپور میں 2018 میں ہونے والی سربراہ ملاقات میں انہوں نے جزیرہ نما کوریا کو جوہری اسلحے سے پاک کرنے اور تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کام کرنے پر اتفاق کرتے ہوئے ایک بیان پر دستخط کیے۔
2019 میں ہنوئی میں ہونے والی سربراہ ملاقات کسی اتفاق رائے کے بغیر اچانک ختم ہو جانے کے بعد اس ضمن میں پیش رفت نہ ہو سکی جس کی بنیادی وجہ پابندیوں میں نرمی اور جوہری اسلحے کے خاتمے کے اقدامات پر اختلافات تھے۔
صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ ان اور کم جونگ کے درمیان خطوط کا تبادلہ ہو رہا تھا اور انہیں ایک دوسرے سے پیار ہو گیا تھا۔
2021 کے اوائل میں جوبائیڈن کے ٹرمپ کی جگہ صدر بننے کے بعد واشنگٹن نے خطے میں امریکہ کے دیرینہ اتحادیوں جنوبی کوریا اور جاپان کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنایا اور کم انتظامیہ کے ساتھ براہ راست بات چیت کرنے کی بجائے جنوبی کوریا میں باقاعدگی سے دفاعی مشقیں کیں۔
© The Independent