جنوبی کوریا کے خفیہ ادارے کے مطابق شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن ممکنہ طور پر بے خوابی کے مرض میں مبتلا ہیں اور ان کی شراب اور نکوٹین کی لت تیزی سے بگڑ رہی ہے۔
نیشنل انٹیلی جنس سروس نے بدھ کو سیئول میں پارلیمان کو بتایا کہ پیانگ یانگ میں حکام بے خوابی کے مرض کا شکار اعلیٰ شخصیات کے لیے بیرون ملک سے جدید طبی معلومات جمع کر رہے ہیں جس میں نیند میں شدید خلل کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی ادویات کی تفصیلات بھی شامل ہیں۔
جنوبی کوریا کی حکمران پیپلز پاور پارٹی کے قانون ساز یو سانگ بوم نے اس حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے مزید کہا کہ مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے اندازہ لگایا گیا ہے کہ کم جونگ اُن کا وزن 140 کلوگرام سے زیادہ ہے۔
شمالی کوریا کے رہنماؤں کی صحت سے متعلق معلومات کو ریاستی طور انتہائی خفیہ رکھا جاتا ہے تاہم قیاس آرائیاں ہیں کہ 39 سالہ کم جونگ کی طبی حالت کی وجہ ان کی زیادہ سگریٹ نوشی کی عادت، ظاہری وزن میں اضافے اور خاندانی دل کے مسائل ہو سکتے ہیں۔
حکومتی کنٹرول والے شمالی کوریا کا سرکاری میڈیا کم ہی اپنے سپریم لیڈر کی صحت کا ذکر کرتا ہے تاہم مارچ میں روڈونگ سنمون اخبار نے کہا کہ کم جونگ اُن صبح پانچ بجے تک کام کرتے ہیں اور وہ ’رات بھر کام کرنے‘ کے عادی ہیں۔
یو سانگ بوم نے، جو پارلیمانی انٹیلی جنس کمیٹی کے رکن بھی ہیں، نے صحافیوں کو بتایا: ’ان کے 16 مئی کو منظر عام پر آنے کے دوران ان کی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے واضح تھے اور وہ تھکے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ اور مصنوعی ذہانت کے تجزیے کے مطابق ان کا وزن 140 کلو گرام سے زیادہ تھا۔‘
جنوبی کوریا کی خفیہ ایجنسی نے کہا کہ وہ کم جونگ اُن کی الکوحل اور نکوٹین کی لت کے ’شیطانی چکر‘ میں پڑنے کے امکان پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
رکن پارلیمان یو نے مزید کہا کہ غیر ملکی سگریٹ اور شراب کی بڑی مقدار شمال میں بھیجے جانے کی اطلاعات بھی ہیں۔
جنوبی کوریا میں یہ بریفنگ پیانگ یانگ کی جانب سے ملک کے پہلے جاسوس سیٹلائٹ کو مدار میں چھوڑنے کی ناکام کوشش کے چند گھنٹے بعد دی گئی۔ اس سٹیلائٹ کا بوسٹر اور پے لوڈ سمندر میں گر کر تباہ ہو گیا تھا جو کم جونگ اُن کے لیے باعث شرمندگی تھا۔
’چولیما-ون‘ سیٹلائٹ لے جانے والا راکٹ اپنے پہلے اور دوسرے مرحلے کی علیحدگی کے بعد توانائی کھونے کے بعد جزیرہ نما کوریا کے مغربی ساحل کے قریب سمندر میں گر کر تباہ ہو گیا تھا۔
شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کی بااثر بہن کم یو جونگ نے جمعرات کو امریکہ کی ’گینگسٹر نما‘ منافقت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ جلد ہی دوبارہ ایک کامیاب لانچنگ کی جائے گی۔
یو جونگ نے کہا کہ خلائی جاسوسی کی صلاحیتوں کا حصول شمالی کوریا کا جائز حق ہے۔
بدھ کو واشنگٹن، سیئول اور ٹوکیو کی طرف سے شمالی کوریا کی سٹیلائٹ لانچنگ کی فوری طور پر مذمت کی گئی۔
واشنگٹن کی تنقید پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے یو جونگ نے کہا کہ ’امریکہ بارہا دہرائی جانے والی اپنی لغو باتوں اور بے تُکی سوچ کی وجہ سے اپنے گھٹیا پن میں مزید گر رہا ہے۔‘
ان کے بقول: ’اگر ڈیموکریٹک پیپلز رپبلک آف کوریا کی جانب سیٹلائٹ لانچنگ کو خاص طور پر سنسر کیا جانا چاہئے تو امریکہ اور دیگر تمام ممالک، جو پہلے ہی ہزاروں سیٹلائٹ لانچ کر چکے ہیں، کی بھی مذمت کی جانی چاہئے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ کس طرح اپنے جاسوس سٹیلائٹ اور دیگر فضائی تنصیبات کے ذریعے شمالی کوریا کی قریب سے نگرانی کرتا ہے۔
انہوں نے امریکیوں کو ’گینگسٹرز کا ایک گروہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب پیانگ یانگ نے بیلون کے ذریعے ایک سیٹلائٹ خلا میں بھیجنے کی کوشش کی تھی تو انہوں نے اسے ’غیر قانونی اور خطرہ‘ قرار دیا تھا۔
ان کے بقول: ’یہ منطق کے خلاف ہے کہ صرف شمالی کوریا کو (اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی) ’قرارداد‘ کے مطابق ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے اور یہ قرارداد کسی اور مقصد سے قطع نظر بیلسٹک راکٹ ٹیکنالوجی کے استعمال پر پابندی لگاتی ہے اگرچہ دوسرے ممالک ایسا کر رہے ہیں۔ یہ واضح ہے کہ ایک گینگسٹر جیسا اور غلط رویہ ہے جو شمالی کوریا کے خلا کو استعمال کرنے کے حق کی سنگین خلاف ورزی کر رہا ہے اور غیر قانونی طور پر اسی پر ظلم کر رہا ہے۔‘
یو جونگ کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ یقینی ہے کہ شمالی کوریا کے فوجی جاسوسی سیٹلائٹ کو مستقبل قریب میں صحیح طریقے سے خلائی مدار میں بھیجا جائے گا اور اپنا مشن شروع کر دیا جائے گا۔‘
نیویارک کی سیراکیوز یونیورسٹی کے میکس ویل سکول سے وابستہ مصنف اور پروفیسر شون میک فیٹ نے کہا کہ شمالی کوریا کا سیٹلائٹ لانچ زیادہ تر ’داخلی سیاسی استعمال‘ کے لیے ہے اور اس کا (امریکہ اور اتحادی ممالک کے خلاف) کوئی خاص اثر ڈالنے کا امکان نہیں ہے۔
ان کے بقول: ’کم جونگ اُن کی آمریت کو امریکہ کے ’دائمی خطرے‘ کے سبب جائز قرار دیا گیا ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ شمالی کوریا کے عوام کے ساتھ اپنے سماجی معاہدے کو پورا کر رہے ہیں۔‘
© The Independent