کم جونگ اُن کے اقتدار کے 10 سال اور سرکاری میڈیا کی ’مثبت مہم‘

شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کم جونگ اُن کی سرکاری میڈیا پر ایسی تصاویر بھی سامنے آئی ہیں جن میں ان کا وزن کافی کم ہوا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد عوام کو یہ دکھانا ہے کہ معاشی بدحالی اور خوراک کی قلت سے وہ بھی متاثر ہیں۔

کم جونگ اُن کو شمالی کوریا کا اقتدار سنبھالے 10 برس ہوگئے ہیں، اس دوران جہاں ملک چھوڑ کر جانے والوں کے خلاف سخت کریک ڈاؤن ہوا ہے، وہیں پہلی بار نجی سیکٹر کی پیداوار سرکاری سیکٹر سے زیادہ ہوئی ہے لیکن ملک پھر بھی سخت معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق رواں سال اپریل سے جون تک شمالی کوریا چھوڑنے والے صرف دو شہری ہی جنوبی کوریا میں داخل ہوئے۔ یہ اعدادوشمار جنوبی کوریا کی وزرات یونیفیکیشن سے حاصل کیے گئے، جو شمالی کوریا سے تعلقات کو دیکھتی ہے۔

سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ تعداد بہت کم رہی کیونکہ عام طور پر ہر سہ ماہی کے دوران کئی سو افراد شمالی کوریا سے فرار ہوکر جنوبی کوریا آتے ہیں۔

کرونا وبا کے دوران ملک چھوڑنے والوں میں کمی آنے سے پہلے ہی کم جونگ اُن نے اپنے ملک کی سرحدوں پر سخت کنٹرول نافذ کر رکھا تھا اور چین پر بھی زور دیا تھا کہ وہ اپنی سرحد پر سختی کرے۔  

شمالی کوریا میں ملک سے فرار ہونے والوں کی مدد کرنے والے سابق ’بروکر‘ ہا جن وو، جو خود 2013 میں ملک چھوڑ آئے تھے، نے خبر رساں ادارے اے ایف کو بتایا: ’انہوں نے تمام شہریوں کو ملک سے نکلنے سے روک دیا ہے۔‘

2011 میں اپنے والد کم جونگ اِل کے انتقال کے بعد کم جونگ اُن ملک کے سپریم لیڈر بنے تھے، تاہم تب سے ملک چھوڑنے والے کئی سابق شہریوں کا کہنا ہے کہ ان کے اقتدار میں شہریوں کی زندگی میں کوئی بہتری نہیں آئی۔

ہا جن وو نے کہا: ’لوگ کہتے ہیں کہ آج کل وہاں رہنا بہت مشکل ہے، کیونکہ حکومت لوگوں پر مزید دباؤ ڈال رہی ہے اور لوگ بھوک سے مر رہے ہیں۔‘

وزارت یونیفکیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق کم جونگ اُن نے گذشتہ ایک دہائی میں ملک میں نجی شعبے کو سرکاری شعبے پر برتری حاصل کرنے دی ہے۔

ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے دی انڈپینڈنٹ نے اپنی خبر میں لکھا کہ 10 سالوں میں 28 فیصد کے اضافے کے ساتھ شمالی کوریا میں نجی شعبے کی پیداوار اب معیشت کا 38 فیصد ہوگئی ہے، جبکہ سرکاری شعبہ 37 فیصد سے کم ہوکر 29 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔

جنوبی کوریا کے ڈیٹا، اقوام متحدہ کی ایجنسیوں اور شمالی کوریا چھوڑنے والوں کے اعدادوشمار پر مشتمل رپورٹ میں کم جونگ اُن کے دور میں متعارف کروائی گئی سیاسی، معاشی اور سماجی تبدیلیوں کے بارے میں بتایا گیا، جس سے ظاہر ہوا کہ شمالی کوریا نے اپنی فوجی طاقت میں اضافہ کیا ہے، تاہم اپنے سخت گیر موقف اور پابندیوں کی وجہ سے ملک اب بھی دنیا سے الگ تھلگ ہی ہے، جس کا اثر شہریوں پر سخت ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا کہ ملک کی مجموعی پیداوار اور روزگار میں کچھ بہتری کے باوجود جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوششوں پر بین الاقوامی پابندیوں نے ملک کے حالات میں بہتری نہیں آنے دی ہے جبکہ اقوام متحدہ کے ایک تحقیق کار کے مطابق وبا کو روکنے کے لیے سرحدی بندش سے شہریوں کے بھوک سے مرنے کا خطرہ ہے۔

اقتدار کے انداز میں تبدیلی، جیسے کہ ایک خطاب میں کم جونگ اُن کا لوگوں کی مشکلات پر جذبات کا اظہار کرنا، سے بھی کوئی ٹھوس اصلاحات سامنے نہیں آئی ہیں۔

غیر ملکی میڈیا پر بھی پابندیاں ہیں جبکہ انسانی حقوق کی ایک تنظیم کے مطابق سات شہریوں کو شمالی کوریا کے انٹرٹینمنٹ شو دیکھنے پر سزائے موت دی گئی۔

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق سابق اور موجودہ شہریوں سے تعلقات رکھنے والوں سے انٹرویوز میں معلوم ہوا ہے کہ جہاں کم جونگ اُن نے معیشت میں بہتری لائی ہے، وہیں ملک چھوڑنا ناممکن ہوگیا ہے، کرپشن عام ہے اور بغیر معاوضے پر کام کے مطالبوں میں اضافہ ہوا ہے۔

شمالی کوریا غیر ملکی صحافیوں کے سوالوں کے جواب نہیں دیتا، مگر ان الزامات کی تردید کرتا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کا خیال نہیں کرتا۔

مثبت منظر کشی کی سیاست

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق شمالی کوریا نے گذشتہ ایک دہائی میں کم جونگ اُن کو ایک مشہور لیڈر کے طور پر دکھایا ہے۔

یہ دنیا کا سب سے الگ تھلگ ملک ہے جہاں شدید سنسرشپ ہے۔ لوگ کیا دیکھتے ہیں اور کیا سنتے ہیں، اس پر سرکاری میڈیا کا سخت کنٹرول ہے۔

کم جونگ اُن کا خاندان 1948 سے تین نسلوں سے ملک پر حکمرانی کر رہا ہے اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ریاست نے ان کی طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے کافی احتیاط سے منظر کشی کی ہے۔

دنیا میں کم جونگ اُن کو ایک ظالم آمر سمجھا جاتا ہے جو ملک کو جوہری ہتھیاروں سے لیس کرنے کا جنونی مقصد لیے ہوئے ہیں، چاہے ان کی قوم اس کی وجہ سے بھوکی مرتی رہے۔ تاہم سرکاری میڈیا میں انہیں کسی اور انداز میں پیش کیا جاتا ہے، جیسے کہ ایک نرم دل انسان جو روتے ہوئے بچوں کو گود میں بٹھاتے ہیں یا خاتون فوجیوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔

عوامی اجتماعات میں انہیں اکثر بالکل اپنے والد اور دادا کی طرح فوجی، سماجی اور معاشی تقریبات میں رہنمائی کرتے دکھایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انہیں باغ بانی کرتے، رولر کوسٹر پر تفریح کرتے، ٹینک چلاتے اور گھوڑے کی سیر کرتے بھی دکھایا جاتا ہے۔

تھنک ٹینک سٹمسن سینٹر میں فلیو مائیکل میڈن کا کہنا ہے کہ عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے احتیاط سے تیار کی گئی تصاویر اور فلمیں ’سیاست کا ایک اہم حصہ‘ ہیں، مگر پیانگ یانگ کا پروپیگنڈا کچھ اور ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’شمالی کوریا میں اس کا مقصد عوامی رائے کا جواب نہیں، بلکہ یہ طے کرنا ہے کہ شہری قائدین کو کیسے دیکھتے ہیں۔‘

تجزیہ کاروں کے مطابق جب وہ اقتدار میں آئے تو اتنے مشہور نہیں تھے، لہذا انہیں عوام میں ہر دل عزیز بنانے کے لیے مہم چلائی گئی۔ انہیں ان کے دادا اور شمالی کوریا کے بانی کم اِل سنگ جیسے بال کاٹے گئے اور کپٹرے بھی پہنائے گئے۔

ولسن سینٹر کی جین لی کے مطابق حکمت عملی یہ تھی انہیں ان کے دادا کے سانچے میں ڈھالا جائے، جنہیں عوام میں بہت مقبولیت حاصل تھی۔

دادا کی طرح لگنے کے لیے کم جونگ اُن نے وزن  بھی بڑھایا مگر حالیہ سالوں میں ان کی ایسی تصاویر سامنے آئی ہیں جن میں ان کا وزن کافی کم ہوا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد عوام کو یہ دکھانا ہے کہ معاشی بدحالی اور خوراک کی قلت سے وہ بھی متاثر ہیں۔

سرکاری ٹی وی پر ایک شہری کو ان کے وزن کم ہونے پر تشویش ظاہر کرتے دکھایا گیا۔

سٹمسن سینٹر کی جینی ٹاؤن کے مطابق ان تصاویر کا مقصد ’ملک کے مشکل حالات میں دی جانے والی قربانیوں‘ کو اجاگر کرنا ہے، مگر یہ کتنا موثر ہے، یہ ابھی معلوم نہیں۔

کم جونگ اُن کو 2018 میں ٹائم میگزین نے دنیا کے سو بااثر ترین افراد کی فہرست میں شامل کیا تھا۔ 1997 میں ملک چھوڑ کر آنے والی مصنفہ ہیونسیو لی نے میگزین میں شامل اپنی تحریرمیں کم کو ’ان کے والد سے بھی بدتر‘ قرار دیا۔

انہوں نے لکھا: ’شمالی کوریا میں ایک لاکھ سے زائد افراد کو جبری مشقت کے کیمپس میں تشدد اور موت کا سامنا ہے۔ ملک چھوڑنے کے ایک خواہش مند نے یہ تک دیکھا کہ ایک ماں کے ہاتھوں اپنے بچے کو زبردستی ڈبوایا گیا۔‘

ان کے بقول ان کیمپس اور عوامی پھانسیوں کی وجہ سے شہری آواز نہیں اٹھاتے۔

انہوں نے لکھا: ’میں ان کے دور حکومت میں کبھی ملک نہیں چھوڑ سکتی تھی۔ وہ دنیا کے سب سے خطرناک انسان ہیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا