مخصوص نشستوں کے معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطلع پر پارلیمان نے الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کی شکل میں اپنا مقطع کہہ دیا ہے۔
تاہم شمع ابھی روشن ہے اور امکان یہ ہے کہ بات اب ایک غزل پر نہیں رکے گی، یہاں اب مکمل مشاعرہ ہو گا۔ مراختوں کی خدا خیر کرے، ڈر ہے کہ یہ مشاعرہ اکھاڑے میں نہ بدل جائے۔
الیکشن ترمیمی بل سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔ جس عجلت سے یہ قانون سازی کی گئی اس نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے تاہم پارلیمان سے ملک الشعرا کا کہنا ہے کہ مقطع اسی زمین پر اور وزن پر ہوتا ہے جس پر مطلع ہو۔
وطن عزیز کا معاملہ بھی بڑا دلچسپ رہا ہے۔ یہاں عدالتیں تشریح کے نام پر آئین دوبارہ لکھ دیں یا کسی کو آئین میں ترمیم کا وہ اختیار بھی دے دیں، جو خود عدالتوں کے پاس بھی نہیں ہوتا تو راوی چین ہی چین لکھتا ہے لیکن پارلیمان قانون سازی کرتی ہے تو اسے چیلنج کر دیا جاتا ہے۔
صورت حال اتنی منقسم ہو چکی ہے کہ نہ کسی کو مکمل درست کہا جا سکتا ہے نہ مکمل غلط۔ ہر موقف میں وزن ہے اور ہر موقف میں اپنے نقائص ہیں۔
عدالتی ایکٹوازم کا آزار ہم دیکھ چکے، اب شاید پارلیمانی ایکٹوازم کی انتہا دیکھنا باقی ہے۔ کوئی چاہے تو اسے اس سماج کی بدقسمتی کہہ لے اور کوئی چاہے تو اسے تنگ آمد بجنگ آمد کا نام دے لے۔ اخلاقی پردوں کا بھرم کب کا اٹھ چکا، اب تو کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ اگر سپریم کورٹ کے پاس قانون کی شرح کا اختیار ہے تو ہمارے پاس قانون سازی کا اختیار ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سوال اب اخلاقیات کا نہیں، سوال یہ ہے کہ اب ہو گا کیا؟ خلاصہ یہ ہے کہ اگر وہ نہیں ہو گا جو پارلیمان کہہ رہی ہے تو وہ بھی نہیں ہو گا، جو عدالت کہہ رہی ہے۔ وہی مراختوں والی بات کہ اب مشاعرہ ہوگا۔
پہلا سوال یہ ہے کہ کیا یہ بل قانون بن پائے گا؟ بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے یہ بل پاس ہو چکا۔ صدر کے دستخط ہوتے ہی قانون بن جائے گا۔ فی الوقت اسے ٹالنے کی ایک ہی صورت ہے کہ صدر دستخط نہ کریں اور واپس بھیج دیں، لیکن ایسا ہو گا نہیں، کیوں کہ پارلیمان میں پیپلز پارٹی نے اس کی تائید کی ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ اس کالم کی اشاعت تک صدر کے دستخط ہو چکے ہوں۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ اس بل کے بعد سپریم کورٹ کے حکم کی کیا حیثیت ہے اور اس پر عمل درآمد نہ کرنے کی صورت میں کیا توہین عدالت کی کارروائی ہو سکتی ہے یا نہیں؟ جورسپروڈنس یہ ہے کہ حکم قانون کے تابع ہوتا ہے، قانون بدل جانے سے حکم ساقط ہو جاتا ہے، اس لیے توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہو سکتی۔ پہلے اس قانون کی حیثیت کا تعین کرنا ہو گا اور اس کے بعد ہی باقی معاملات کو دیکھا جا سکے گا۔
تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ قانون سازی بذات خود توہین عدالت نہیں ہے؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ بظاہر سپریم کورٹ کے فیصلے سے انحراف کے لیے یہ قانون بنایا گیا ہے۔
اس پر ایک سے زیادہ آرا ہو سکتی ہیں تاہم اس معاملے میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ قانون سازی تو بہر حال پارلیمان کا اختیار ہے اور اس معاملے میں اس پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔
لیکن اگر قانون کی شان نزول پر سوال اٹھے گا تو پھر عدالتی فیصلے کی شان نزول پر بھی سوال اٹھے گا۔ سپریم کورٹ کے جج صاحبان کے اختلافی نوٹ میں بھی سوال اٹھ چکے اور وزیر قانون بھی مسسلسل غزل سرا ہیں۔
پارلیمان کے بنائے قانون کو تو سپریم کورٹ دیکھ سکتی ہے اور اسے بعض صورتوں میں کالعدم بھی قرار دے سکتی ہے لیکن پارلیمان کے قانون بنانے کے حق پر سپریم کورٹ بھی کوئی پابندی نہیں لگا سکتی۔
چوتھا سوال یہ ہے کہ اب پارلیمان میں تحریک انصاف کی نشستوں کا کیا بنے گا؟ جب تک یہ قانون موجود ہے اور اسے کالعدم قرار نہیں دے دیا جاتا اور اس معاملے میں حتمی فیصلہ نہیں آ جاتا، تب تک تحریک انصاف کو نشستیں نہیں مل سکتیں۔
امکان موجود ہے کہ مزید کسی عدالتی فیصلے کی صورت میں مزید قانون سازی بھی ہو جائے گی۔
پانچواں سوال یہ ہے کہ کیا اس قانون کا اطلاق آئندہ کے واقعات پر ہو گا یا ماضی پر بھی ہو گا؟ اور کیا پارلیمان ایسا قانون بنا سکتی ہے جس کا اطلاق ماضی سے ہو؟ اس کا جواب قانون میں موجود ہے کہ اس کا اطلاق الیکشن ایکٹ کے نفاذ کے دن سے ہو گا، یعنی تحریک انصاف کی ممکنہ نشستیں بھی اس کی زد میں آئیں گی۔
وطن عزیز کا معاملہ بھی بڑا دلچسپ رہا ہے۔ یہاں عدالتیں تشریح کے نام پر آئین ری رائٹ کر دیں یا کسی کو آئین میں ترمیم کا وہ اختیار بھی دے دیں، جو خود عدالتوں کے پاس بھی نہیں ہوتا تو راوی چین ہی چین لکھتا ہے لیکن پارلیمان قانون سازی کرتی ہے تو اسے چیلنج کر دیا جاتا ہے۔
جہاں تک کسی قانون کے موثر بہ ماضی ہونے کا سوال ہے تو جی ہاں اس کا اختیار پارلیمان کے پاس موجود ہے۔ یہ سکیم خود آئین کے اندر موجود ہے، جہاں لکھا ہے کہ آرٹیکل چھ کا اطلاق جب بھی ہو گا 23 مارچ 1956 سے ہو گا۔ اگر چہ یہ لطیف نکتہ ہمارے ہاں یکسر نظر انداز کر دیا گیا تاہم آئینی پوزیشن یہی ہے۔
پھر یہ کہ موثر بہ ماضی نہ بھی ہو تو موجودہ مسئلے یعنی تحریک انصاف کی مخصوص نشستوں والے قضیے پر تو اس کا اطلاق ہو ہی جائے گا کیوں کہ یہ ابھی ’ماضی‘ نہیں ہوا اور اس معاملے میں ابھی حتمی فیصلہ بھی نہیں آیا اور تحریک انصاف کے لوگوں کو ابھی مخصوص نشستیں بھی نہیں ملیں اور نظر ثانی کا مرحلہ بھی ابھی باقی ہے۔
اسی معاملے سے جڑے کچھ اور سوالات بھی بہت اہم ہیں۔ عدالت مختصر فیصلہ کر کے اس پر عمل درآمد کے لیے 15 دنوں کا وقت دے کر چھٹیوں پر چلی جاتی ہے اور تفصیلی فیصلہ بھی نہیں لکھتی۔ نظر ثانی کی درخواست یہ کہہ کر قبول نہیں کی جاتی کہ تفصیلی فیصلہ آنے تک نظر ثانی نہیں ہو گی۔
سوال یہ ہے کہ تفصیلی فیصلہ دینے کا نظام الاوقات کیا ہے اور نہیں ہے تو کیوں نہیں؟
یہ سوال اس وقت بہت اہم ہو جاتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ کئی ایسے معاملات ہیں جن میں ججوں نے مختصر فیصلے سنائے اور کہا کہ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کریں گے۔ پھر وہ جج ریٹائر ہو گئے مگر تفصیلی فیصلہ نہ آ سکا۔ کوئی بتا سکتا ہے کہ یہ تفصیلی فیصلے کون لکھے گا؟
تو کیا پارلیمان نے یہ عرض کرنے کی کوشش کی ہے کہ تفصیلی فیصلہ نہ آنے تک اگر نظر ثانی دائر نہیں ہو سکتی تو قانون سازی تو ہو سکتی ہے۔ ملتے ہیں چھٹیوں کے بعد؟
یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔