وزیراعظم محمد شہباز شریف نے ہفتے کو غزہ میں سکول پر حالیہ اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے اپنی سفاکانہ کارروائیوں کی تمام حدیں پار کر دیں۔
فلسطین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے رپورٹ کیا ہے کہ ہفتے کو غزہ کے ایک سکول پر اسرائیلی حملے میں 100 سے زیادہ فلسطینی جان سے چلے گئے جبکہ درجنوں زخمی ہوئے۔ اس حملے کی پاکستان سمیت مختلف ممالک نے مذمت کی ہے۔
وزیر اعظم ہاؤس سے جاری بیان میں شہباز شریف نے کہا کہ سکول کے بچوں پر حملہ کھلی جارحیت ہے۔
’اس طرح کی بربریت کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی،عالمی برادری بشمول اقوام متحدہ اسرائیل کی سفاکیت کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کرے۔‘
وزیراعظم نے کہا کہ ’ہم ایک بار پھر اپنا مطالبہ دہراتے ہیں کہ فلسطینیوں کی نسل کشی اور جنگی جرائم پر اسرائیلی قیادت اور سکیورٹی فورسز کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے، اسرائیل کو اس کی ظالمانہ کارروائیوں کی کڑی سزا دی جائے ،اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عمل درآمد کروایا جائے۔‘
وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان ہر محاذ پر اپنے فلسطینی بہنوں اور بھائیوں کی اخلاقی و سفارتی حمایت جاری رکھے گا۔
دوسری جانب وائٹ ہاؤس نے ایک بیان میں کہا کہ غزہ کے سکول میں اسرائیلی حملے پر اسے ’گہری تشویش‘ ہے۔
اسرائیلی حملے کی مصر، قطر اور سعودی عرب نے بھی مذمت کی ہے، جو ایسے وقت میں ہوا ہے جب ثالث فائر بندی کے لیے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر زور دے رہے ہیں۔
مصر کا کہنا ہے کہ غزہ کے شہریوں کے قتل سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل تنازع ختم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ قطر کی وزارت خارجہ نے اس حملے کو ’ہولناک قتل عام‘ قرار دیا ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے اس مہلک حملے پر خوف کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے ایکس پر لکھا: ’غزہ میں اسرائیلی حملے کا نشانہ بننے والے ایک پناہ گزین سکول کی تصاویر دیکھ کر میں خوف زدہ ہو گیا، جس میں مبینہ طور پر درجنوں فلسطینی جان سے گئے۔
’گذشتہ ہفتوں میں کم از کم 10 سکولوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس قتل عام کا کوئی جواز نہیں۔‘
اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے غزہ میں ہزاروں بے گھر افراد کو پناہ دینے والے سکول پر حملے کی مذمت کی ہے۔ آج جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق: ’او آئی سی اس حملے کو غزہ کی پٹی میں گذشتہ 10 ماہ کے دوران اسرائیل کے وحشیانہ قتل عام اور نسل کشی کی توسیع کے طور پر دیکھتی ہے جو بین الاقوامی قوانین، عالمی عدالت انصاف کے احکامات اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔‘
تنظیم نے اسرائیلی قابض افواج کو ان جاری جرائم کا مکمل طور پر ذمہ دار قرار دیتے ہوئے مقبوضہ بیت المقدس سمیت غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے میں ہونے والے تمام جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ذمہ دار اسرائیل کو ٹھہرانے کے اپنے مطالبے کا اعادہ کیا۔
او آئی سی نے عالمی برادری بالخصوص اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کو بین الاقوامی انسانی قوانین کی پاس داری کرنے، غزہ کی پٹی میں فوری اور جامع جنگ بندی کے نفاذ اور فلسطینی عوام کو بین الاقوامی تحفظ فراہم کرنے پر مجبور کرے۔
فرانس نے کہا ہے کہ وہ اسرائیلی حملے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔ فرانسیسی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ 'کئی ہفتوں سے سکولوں کی عمارتوں کو بار بار نشانہ بنایا جا رہا ہے جس میں شہریوں کی اموات کی ناقابل برداشت تعداد شامل ہے۔‘
بیان کے مطابق اسرائیل کو بین الاقوامی انسانی قوانین کا احترام کرنا چاہیے۔
سکول پر حملہ
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق حماس کے زیر انتظام غزہ حکومت کے میڈیا دفتر نے ایک بیان میں کہا: ’اسرائیل نے سکول میں مقیم پناہ گزینوں کو اس وقت نشانہ بنایا، جب وہ فجر کی نماز ادا کر رہے تھے، جس وجہ سے اموات کی تعداد میں اضافہ ہوا۔‘
دوسری جانب اسرائیلی فوج نے اپنے بیان میں کہا کہ اس کی فضائیہ نے ’کمانڈ اور کنٹرول سینٹر پر حملہ کیا جو حماس کے دہشت گردوں اور کمانڈروں کے لیے پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسرائیلی فوج کے مطابق: ’اس نے حماس کے ان دہشت گردوں کو بالکل درست نشانہ بنایا جو کہ حماس کے کمانڈ اور کنٹرول سینٹر میں کام کر رہے تھے، جو کہ التابعین سکول میں موجود تھا اور دارج تفاح کے علاقے میں ایک مسجد کے قریب واقع تھا، جو غزہ شہر کے باشندوں کے لیے پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’حملے سے قبل، شہریوں کو نقصان پہنچنے کا خطرہ کم کرنے کے لیے متعدد اقدامات کیے گئے، جن میں درست اسلحہ، فضائی نگرانی اور انٹیلی جنس معلومات کا استعمال شامل تھا۔‘
اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو نے سات اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعدفلسطینی تنظیم کے خاتمے تک غزہ پر جارحیت جاری رکھنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
اسرائیلی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حماس کے غیر معمولی حملے کے نتیجے میں 1,198 افراد مارے گئے تھے۔
اس دوران حماس نے 251 افراد کو قیدی بنایا جن میں سے 111 اب بھی غزہ میں قید ہیں۔ اسرائیلی فوج کے مطابق قیدیوں میں سے 39 اسرائیلی مارے بھی گئے ہیں۔
دوسری جانب غزہ کی وزارت صحت کے مطابق سات اکتوبر کے بعد اسرائیلی جارحیت میں کم از کم 39 ہزار سے زائد فلسطینی جان سے گئے، جن میں اکثریت عام شہریوں، خواتین اور بچوں کی ہے۔
اسرائیل کی جانب سے پناہ گزینوں پر یہ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب وزیراعظم بن یامین نتن یاہو کے دفتر نے جمعرات کو کہا تھا کہ اسرائیل امریکہ، قطر اور مصر کے مطالبے پر 15 اگست کو غزہ میں فائر بندی مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار ہے۔
تاہم حماس کی جانب سے دوبارہ بات چیت کے آغاز سے متعلق کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
نومبر میں ایک ہفتے کی فائربندی کے بعد، امریکہ، قطر اور مصر کی ثالثی میں 10 ماہ سے غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کے دوران دوسری مرتبہ فائربندی کے لیے کوشش کی جا رہی ہیں۔
جمعرات کو ایک مشترکہ بیان میں ان تینوں ممالک کے رہنماؤں نے فریقین کو 15 اگست کو دوحہ یا قاہرہ میں مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی دعوت دی تاکہ ’باقی ماندہ تمام خلا کو ختم اور بغیر کسی تاخیر کے معاہدے پر عمل درآمد شروع کیا جاسکے۔‘
نتن یاہو کے دفتر نے جمعرات کو کہا تھا کہ اسرائیل 15 اگست کو ایک مذاکراتی ٹیم ’متفقہ جگہ پر معاہدے کے نفاذ کی تفصیلات کو حتمی شکل دینے کے لیے‘ بھیجے گا۔
لڑائی کا ممکنہ خاتمہ، جس میں غزہ میں قیدیوں کی رہائی اور امداد کی ترسیل میں اضافہ بھی شامل ہے، ایک مرحلہ وار معاہدے پر مرکوز ہے، جس کا آغاز ابتدائی فائر بندی سے ہوگا۔
حالیہ بات چیت میں مئی کے آخر میں امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے پیش کردہ فریم ورک پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اسے اسرائیل نے تجویز کیا تھا۔
اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر کی جانب سے مذاکرات کا اعلان حماس کی جانب سے یحییٰ سنوار کو اپنا نیا رہنما نامزد کیے جانے کے بعد سامنے آیا ہے۔ حماس کے سابق سربراہ اسماعیل ہنیہ 31 جولائی کو تہران میں ایک حملے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ وہ ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری کے لیے وہاں موجود تھے۔
اگرچہ اسرائیل نے اسماعیل ہنیہ کو قتل کرنے کا اعتراف نہیں کیا ہے، لیکن ایران اور اس کے اتحادیوں نے جوابی کارروائی کا عزم کیا ہے۔
غزہ کی پٹی میں اسرائیل کے حملوں کے بعد پہلے ہی شام، لبنان، عراق اور یمن میں عسکری تنظیمیں کسی نہ کسی حد تک شامل ہو چکی ہیں اور لبنان میں سرگرم تنظیم حزب اللہ نے بھی اپنے فوجی سربراہ فواد شکر کے قتل کا بدلہ لینے کے عزم کا اعلان کیا ہے۔