پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں رواں ہفتے ہونے والے مہلک حملوں نے حکومتی مشینری کو اتنی شدت سے جنجھوڑا ہے کہ ملک کی اعلٰی قیادت کی طرف سے حملہ آوروں کے مکمل خاتمے سے متعلق سخت ترین بیانات کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔
ایک ہی دن میں صوبے کے کئی اضلاع میں طے شدہ اہداف کو نشانہ بنانے کی ذمہ داری کالعدم بلوچ لبریریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی۔
وزیراعظم شہباز شریف نے منگل کو کہا کہ دہشت گرد ان حملوں کے ذریعے چین پاکستان اقتصادی راہداری ’سی پیک‘ کے منصوبوں کو روکنا اور اسلام آباد اور بیجنگ کے درمیان تعلقات میں دراڑیں ڈالنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ دہشت گردی کی اس عفریت کے خاتمے کے لیے حکومت سکیورٹی فورسز کو وسائل فراہم کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑے گی۔
بلوچستان میں عسکریت پسندی ایک گھمبیر مسئلہ رہا ہے اور ہے بھی جسے حل کرنے کے لیے برسوں سے کوششیں کی جاتی رہیں اور طاقت کے ساتھ ساتھ مذاکرات سمیت دیگر کئی طریقے بھی استعمال کیے جاتے رہے۔
ان تمام طریقوں اور کوششوں کے کوئی خاطر خواہ نتائج تاحال تو سامنے نہیں آئے تاہم اب ان تازہ حملوں کے بعد صورت حال سے نمٹنے کے لیے کیا جائے گا اس کی تفصیلات تو سامنے نہیں ہیں لیکن حکومت کی طرف سے سخت بیانات ضرور سامنے آئے ہیں۔
لیکن ایک دلچسپ بیان پیر کو وزیر داخلہ محسن نقوی کی طرف سے سامنے آیا، وہ وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر کوئٹہ پہنچے جہاں نے انہوں نے عسکریت پسندوں کے ان نئے حملے بعد کی صورت حال کا وزیراعلٰی سرفراز بگٹی کے ہمراہ ایک اعلٰی سطحی اجلاس میں جائزہ لیا۔
اجلاس کے بعد وزیراعلٰی بلوچستان کے ہمراہ میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو میں محسن نقوی نے کہا کہ ’کسی آپریشن کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ایک ایس ایچ او کی مار ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اور آپ دیکھیں گے یہ ایک ایس ایچ او کی مار رہیں گے، ان کے لیے ہمیں کوئی لمبی چوڑی سائنس کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘
انہوں نے یہ بھی کہا کہ عسکریت پسندوں کو ’بہت جلد ایک اچھا میسج مل جائے گا۔‘
وفاقی وزیر داخلہ کا اعتماد اپنی جگہ لیکن انہیں اب ایک ایسا آئیڈیل ایس ایچ او بھی تلاش کرنا ہو گا جو یہ سب کچھ کر سکے، کیوں کہ باقی سب کو ٹرائی کیا جا چکا ہے اور ایس ایچ او والا طریقہ بچا ہے۔
پاکستانی حکومت کی طرف سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ ملک کی ترقی بلوچستان کی ترقی سے جڑی ہوئی ہے۔
اگرچہ بلوچستان ملک کا سب سے پسماندہ صوبہ ہے لیکن یہ نا صرف پاکستان چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبوں کا اہم جز ہے بلکہ یہاں کے معدنی وسائل بشمول سونے اور تانبے کے بڑے ذخیرے ریکوڈک علاوہ گوادر بندرگاہ کی وجہ سے بھی ملک کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔
اس لیے عسکریت پسندوں کی کارروائیاں کا اثر صرف ملک کی اندرونی سلامتی پر ہی نہیں پڑتا بلکہ اس کے اثرات اس سے کہیں زیادہ ہیں اور خود وزیراعظم نے بھی کہہ دیا ہے کہ ایسی دہشت گردی پاکستان اور چین کے تعلقات میں دڑایں ڈالنے کی کوشش ہے۔
اب جب معاملہ اتنا گھمبیر ہے تو کیا ایس ایچ او اسے سنبھال لے گا؟