اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں پیر کو ہونے والے متعدد حملوں کی شدید مذمت کی ہے اور قصورواروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان حملوں میں عام شہریوں، سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں اور شدت پسندوں سمیت 73 افراد کی اموات ہو چکی ہیں۔
نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز میں پیر کو باقاعدہ بریفنگ کے دوران ان کے ترجمان سٹیفن ڈوجارک نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’سیکریٹری جنرل اس بات پر زور دیتے ہیں کہ شہریوں کے خلاف حملے ناقابل قبول ہیں۔
’وہ (اقوام متحدہ کے سربراہ) جان سے جانے والوں کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کرتے ہیں اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تحقیقات کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ ذمہ داروں کا احتساب کیا جائے۔‘
پاکستانی حکام کے مطابق بلوچستان کے مختلف علاقوں میں گذشتہ روز شدت پسندوں کے متعدد حملوں اور ان کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں اب تک 73 افراد جان سے جا چکے ہیں جن میں سکیورٹی فورسز کے اہلکار، عام شہری اور شدت پسند شامل ہیں۔
پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ یا آئی ایس پی آر کی جانب سے پیر کی رات جاری کیے جانے والے بیان مطابق موسیٰ خیل میں شدت پسندوں کے خلاف جوابی کارروائی کے دوران 14 سکیورٹی اہلکار جان سے گئے جبکہ 21 شدت پسندوں کو قتل کر دیا گیا۔
اس سے قبل وزیر اعلی بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا تھا کہ موسیٰ خیل، قلات، ریلوے لائنوں اور دیگر مقامات پر کیے جانے والے شدت پسندوں کے متعدد حملوں میں 38 افراد جان سے جا چکے ہیں جن میں سے 23 افراد کو بس سے اتار کر ان کے شناختی کارڈ دیکھ کر گولیاں مار کر قتل کیا گیا۔
سرفراز بگٹی نے نیوز کانفرنس کے دوران کہا کہ ’لوگوں کو بسوں سے اتار کر ان کے اہل خانہ کے سامنے گولیاں ماری گئیں۔‘
صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کو پاکستان کے باقی حصوں سے ملانے والے ریلوے پل پر دھماکوں کے بعد کوئٹہ کے ساتھ ریل کی آمدورفت معطل ہوگئی ہے۔
حکام نے بتایا کہ عسکریت پسندوں نے رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے لیکن سب سے کم آبادی والے بلوچستان میں پولیس اور سکیورٹی سٹیشنوں کو بھی نشانہ بنایا، ایک حملے میں کم از کم 10 افراد ہلاک ہوئے۔
ریلوے کے اہلکار محمد کاشف نے خبر رساں ادارے روئمٹرز کو بتایا ہے کہ عسکریت پسندوں نے پڑوسی ملک ایران سے ایک ریل لنک کو بھی نشانہ بنایا ہے۔
آئی ایس پی آر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’دشمن اور دشمن قوتوں کی ایما پر، دہشت گردی کی ان بزدلانہ کارروائیوں کا مقصد خاص طور پر موسیٰ خیل، قلات اور لیبیلہ اضلاع میں معصوم شہریوں کو نشانہ بنا کر بلوچستان کے پرامن ماحول اور ترقی کو متاثر کرنا تھا۔‘
آئی ایس پی آر کے مطابق سکیورٹی فورسز نے ’دہشتگردوں‘ کی کارروائیوں کو ناکام بنانے کے لیے فوری جوابی کارروائی کی ’کلیئرنس آپریشن‘ میں 21 شدت پسندوں کو قتل کر دیا۔
’ان کارروائیوں میں قوم کے 14 بہادر بیٹوں نے جواں مردی لڑا اور شہید ہوئے۔‘
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ان گھناؤنے اور بزدلانہ کاموں پر اکسانے والوں، مجرمان، سہولت کاروں اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے والے شدت پسندوں کے خلاف ’سینیٹائزیشن آپریشن‘ جاری ہے اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
کالعدم بلوچ لبریشن آرمی ذمہ دار ہے
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حکومت پاکستان کی جانب سے کالعدم قرار دی جانے والی تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے مسلح عسکریت پسند گروپ نے اس آپریشن کی ذمہ داری قبول کی جسے وہ ’حرف‘ یا ’تاریک آندھی طوفان‘ کہتے ہیں۔
صحافیوں کو جاری کیے جانے والے ایک بیان میں انہوں نے گذشتہ روز مزید حملوں کا دعویٰ کیا جن کی ابھی تک حکام نے تصدیق نہیں کی ہے۔
گروپ نے کہا کہ جنوبی بندرگاہی ضلع گوادر کی ایک خاتون سمیت چار خودکش حملہ آور بیلہ نیم فوجی اڈے پر حملے میں ملوث تھے۔
پاکستانی حکام نے خودکش دھماکوں کی تصدیق نہیں کی تاہم صوبائی وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اڈے پر تین افراد کی اموات ہوئی ہیں۔
بی ایل اے حکومت مخالف کئی باغی گروپوں میں سب سے بڑا ہے، جس کا کہنا ہے کہ حکومت صوبے میں گیس اور معدنی وسائل کا ناجائز فائدہ اٹھاتی ہے، جہاں غربت عروج پر ہے۔
پیر کو بلوچ قوم پرست رہنما اکبر بگٹی کی برسی تھی، جنہیں 2006 میں پاکستان کی سکیورٹی فورسز نے ہلاک کر دیا تھا۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے اس عزم کا اظہار کیا کہ سیکیورٹی فورسز جوابی کارروائی کریں گی اور ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں گی۔
وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے کہا کہ عسکریت پسندوں کا صفایا کرنے کے لیے انٹیلی جنس پر مبنی مزید کارروائیاں شروع کی جائیں گی۔
انہوں نے عسکریت پسندوں کے تال میل کو روکنے کے لیے موبائل ڈیٹا سروسز کو کم کرنے کا اشارہ دیا۔
انہوں نے کہا کہ ’وہ حملے شروع کرتے ہیں، اس کی فلم بناتے ہیں اور پھر اسے پروپیگنڈے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہیں۔‘
بلوچستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے میں بیرونی عناصر ملوث: وزیر داخلہ
وزیر داخلہ محسن نقوی نے پیر کو لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے میں ’بیرونی عناصر‘ ملوث ہیں۔
’کل کے واقعات ایک دم سے نہیں، پلان کر کے ہوئے ہیں، حکومت ان لوگوں کا بندوبست کرے گی۔۔۔ہمارے کسی انٹیلی جنس ادارے کی کوئی ناکامی نہیں۔
محسن نقوی کا کہنا تھا کہ بلوچستان حملوں میں وہ لوگ بھی ملوث ہیں ’جو ہم نے ماضی میں چھوڑے تھے۔‘
پنجاب سے تعلق رکھنے والے مسافر نشانہ بنے
اسسٹنٹ کمشنر ماشکیل نجیب کاکڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مسلح افراد نے لوگوں کو بسوں اور ٹرکوں سے نیچے اتار کر ’ان کے شناختی کارڈ چیک کیے اور جن کا تعلق صوبہ پنجاب سے تھا انہیں گولیاں مار کر قتل کیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ کل 21 گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا جن میں ٹرک اور دیگر گاڑیاں شامل ہیں۔
حملے کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گئے: وزیراعظم شہباز شریف
وزیر اعظم شہباز شریف کے دفتر نے ایک بیان میں حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ سکیورٹی فورسز جوابی کارروائی کریں گی اور ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گئی۔
وزیراعظم شہباز شریف نے بلوچستان کے علاقے موسیٰ خیل میں ’دہشت گرد حملے‘ پر شدید غم وغصے کا اظہار اور شدید مذمت کرتے ہوئے ’قانون نافذ کرنے والے اداروں کو واقعے کی فوری تحقیقات کی ہدایت ہے۔‘
ایک بیان میں وزیراعظم نے کہا کہ اس واقعے کے ذمہ دار ’دہشت گردوں‘ کو قرار واقعی سزائیں دی جائیں گیۙ، ’ملک میں کسی بھی قسم کی دہشت گردی قطعاً قبول نہیں۔
’ملک سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک دہشت گردوں کے خلاف ہماری جنگ جاری رہے گی۔‘