پاکستانی وزرائے اعظم اور ڈیلی میل کا ’ڈس گریس‘

برطانوی نیوز ویب سائٹ ڈیلی میل عمران خان سے قبل پاکستان کے ایک اور سابق وزیر اعظم کے لیے بھی ’ڈس کریس‘ کا لفظ استعمال کر چکی ہے۔

مئی 2022 میں لندن میں نواز شریف کی لی گئی تصویر، اور اسی سال فروری میں بیجنگ میں اولمپک کھیلوں کی افتتاحی تقریب میں لی گئی عمران خان کی گئی تصویر ( اے ایف پی)

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان کے تاریخی آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کے انتخاب لڑنے کے اعلان پر برطانوی اخبار ڈیلی میل نے ایک خبر میں سابق وزیر اعظم کے ساتھ ’ڈس گریس‘کا لفظ استعمال کیا ہے جس پر پاکستان میں اکثر سوشل میڈیا صارفین نالاں ہیں۔ 

یہ پہلی بار نہیں کہ ڈیلی میل نے پاکستان کے کسی وزیر اعظم کے لیے ’ڈس گریس‘ (رسوا شدہ) جیسے لفظ کا استعمال کیا۔

اس سے پہلے 2019 اور 2018 میں بھی روزنامے نے اپنی شہ سرخیوں میں یہ لفظ استعمال کیا تھا لیکن اس وقت یہ لفظ عمران خان کے لیے نہیں بلکہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے لیے کیا گیا تھا۔

2018 میں ڈیلی میل نے اپنی ایک خبر کی سرخی میں لکھا کہ ’پاکستان کے ’ڈس گریس‘ سابق وزیر اعظم نواز شریف لندن سے وطن واپس آنے کے بعد بدعنوانی کے جرم میں سیدھے جیل چلے گئے۔‘

2019  میں ڈیلی میل کی ہیڈ لائن تھی کہ ’بدعنوانی کے الزام میں جیل کی سزا معطل ہونے کے بعد پاکستان کے ’ڈس گریس‘ وزیر اعظم نواز شریف علاج کے لیے لندن روانہ۔‘ 

ڈیلی میل نے دعوی کیا ہے کہ عمران خان کے اس اعلان کے بعد کہ وہ پاکستان سے جیل میں بیٹھ کر آکسفورڈ کے چانسلر کا انتخاب لڑیں گے، یونیورسٹی کو ان کے خلاف ای میلز اور احتجاجی پٹیشن موصول ہو رہی ہیں۔

ان کے مضمون کے مطابق بدعنوانی کے مقدموں میں ایک سزا یافتہ شخص کا آکسفورڈ یونیورسٹی جیسے تعلیمی ادارے کے چانسلر کا الیکشن لڑنا ناقابل احترام ہے۔

ڈیلی میل نے 2019  میں پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کے خلاف زلزلہ زدگان کو ملنے والے فنڈز میں غبن کا الزام عائد کیا تھا، جس پر انہیں 2022 میں شہباز شریف سے معافی مانگتے ہوئے وضاحتی بیان جاری کرنا پڑا۔

گذشتہ روز ڈیلی میل نے جب اپنی خبر کی سرخی میں عمران خان کے لیے ’ڈس گریس‘ کا لفظ استعمال کیا، تو یہ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر وائرل ہو گیا۔

پاکستان کی حکومتی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے ارکان نے جہاں اس لفظ کو عمران خان کے خلاف استعمال کرتے ہوئے پوسٹس کیں، وہیں تحریک انصاف کے رہنما اپنی جماعت کے بانی کے دفاع میں میدان میں آئے۔

وزیر اطلاعات پنجاب عظمی بخاری نے ایکس پر ڈیلی میل کی خبر کا سکرین شارٹ شیئر کرتے ہوئے لکھا ’ہمیں تو انگریزی آتی نہیں یہ کیا لکھا ہے کوئی بتا دے پلیز۔‘

پی ٹی آئی کے برطانیہ میں موجود رہنما اور سابق وفاقی زلفی بخاری نے ڈیلی میل کو ٹیگ کرتے ہوئے لکھا ’اس کے پیچھے کیا وجہ ہے کہ کیوں ایک ہی ادارہ ایسے مضمون شائع کرتا ہے۔

’کوئی قابل اعتماد ادارہ ایسا نہیں کرے گا۔ سب کو یہ سمجھنا چاہیے کہ پاکستان میں مسلط کی گئی حکومت کو نقصان پہنچانے والی واحد چیز یہ ہے کہ عمران خان آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کے باوقار کردار کے لیے کھڑے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’اس قسم کی چیخیں صرف شروعات ہیں۔ فکر نہ کریں میرے پاس اس مہینے بہت زیادہ مثبت چیزیں آ رہی ہیں۔‘

آکسفورڈ یونیورسٹی چانسلر کے الیکشن کے امیدواروں کی شارٹ لسٹنگ اکتوبر کے شروع میں کرے گی اور اسی ماہ کے آخر میں ووٹنگ ہو گی۔

الیکشن کے امیدواروں میں فی الحال عمران خان کے علاوہ سکاٹ لینڈ کی وکیل لیڈی ایلش اور برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ ولیم ہیگ شامل ہیں،

جبکہ اس دوڑ میں برطانیہ کے سابق وزیر اعظم بورس جانسن اور ٹریزا مے کا نام بھی لیا جا رہا ہے۔

آکسفورڈ چانسلر بننے کی اہلیت؟

آکسفورڈ یونیورسٹی چانسلر کے منصب کے لیے ایسی شخصیات کی نامزدگی کی خواہاں ہوتی ہے جنہوں نے نہ صرف اپنے شبعے میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہوں بلکہ ان کی خدمات کو بالعموم قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہو اور انتخاب کی صورت میں وہ شخص نہ صرف اندرون ملک بلکہ عالمی سطح پر بھی یونیورسٹی کی ساکھ میں بہتری کے لیے کام کرنے پر آمادہ ہو۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کی ذمہ داریاں؟

چانسلر آکسفورڈ یونیورسٹی کا رسمی سربراہ ہوتا ہے۔ اگرچہ اس میں کوئی انتظامی ذمہ داریاں نہیں، تاہم اہم تقاریب کی صدارت کرنا، یونیورسٹی کو معاون اور مفید مشورے اور رہنمائی فراہم کرنا، فنڈ اکٹھے کرنا، مقامی، قومی اور بین الاقوامی تقریبات میں یونیورسٹی کی نمائندگی کرنا ان کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔

آکسفرڈ چانسلر کا برطانیہ میں رہنا ضروری نہیں لیکن اہم تقریبات میں ان کی شرکت ضروری ہے جس کے لیے سفری اخراجات یونیورسٹی کی ہی ذمہ داری ہو گی۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ٹرینڈنگ