جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی پچھلے کچھ دنوں میں حکومتی اعلیٰ قیادت کے علاوہ اپوزیشن کی مرکزی جماعت پاکستان تحریک انصاف سے ملاقاتیں انتہائی اہم سمجھی جا رہی ہیں۔
رواں ہفتے صدر آصف علی زرداری نے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کے ہمراہ مولانا فضل الرحمان سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی تھی جس کے بعد جمعے کو وزیر اعظم شہباز شریف بھی خود چل کر ان کے پاس گئے۔
کچھ روز قبل پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت نے بھی ان سے ملاقات کی تھی۔
صدر اور وزیر اعظم نے جے یو آئی کے سربراہ سے ایک ایسے وقت پر ملاقاتیں کی ہیں جب ایک جانب پی ٹی آئی آٹھ ستمبر کو اسلام آباد میں جلسہ کرنے کی تیاری کر رہی ہے تو اور دوسری جانب قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس ہونے جا رہے ہیں جس میں قیاس آرائیاں ہیں کہ حکومتی اتحاد عدالتی اصلاحات پر مشتمل آئینی ترامیم پیش کر سکتی ہے۔
اگر ایسا ہوتا ہے تو حکومت کو قانون سازی میں جے یو آئی کی حمایت درکار ہو گی کیونکہ سپریم کورٹ کے قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر فیصلے کے بعد حکومت کی دو تہائی اکثریت ختم ہو چکی ہے۔
مولانا فضل الرحمان سے حکومتی رہنما اور حذب اختلاف کی جماعت کے اچانک رابطوں پر کئی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ حکومتی رہنماؤں کی مولانا فضل الرحمان سے ملاقاتیں سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لیے ہیں جبکہ پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ جے یو آئی اس کے ساتھ مل کر حکومت کے خلاف کوشش کرے۔
جے یو آئی کے ترجمان اسلم غوری نے ان ملاقاتوں پر اپنے ردعمل میں کہا ’ہماری اپنی پالیسی ہے۔ ہم حکومت یا اپوزیشن کے ساتھ کوئی ڈیل نہیں کریں گے۔ جہاں عوام کے مفاد کی بات ہو گی اس میں حمایت جب کہ عوامی مشکلات کے حل میں اپنی آواز اٹھاتے رہیں گے۔‘
وفاق میں حکومتی اتحاد میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شہلا رضا اور پی ٹی آئی کے مرکزی ترجمان شعیب شاہین نے مولانا فضل الرحمان سے کسی ڈیل کی خبروں کو مسترد کیا ہے۔
کیا مولانا آئینی ترامیم میں حکومت کا ساتھ دیں گے؟
اسلم غوری کے مطابق ’مولانا صاحب سے صدر زرداری کی ملاقات کوئی انہونی نہیں۔ ہمارے پیپلز پارٹی اور ن لیگ سے ماضی میں سیاسی روابط رہے ہیں۔
’اب بھی کوئی ذاتی ناراضگی نہیں۔ البتہ حکومت کا ساتھ اس لیے نہیں دے رہے کہ یہ بیساکھیوں پر کھڑی ہے۔ ہمارا دھاندلی زدہ انتخابات سے متعلق پی ٹی آئی سمیت اپوزیشن سے اتحاد برقرار ہے اور رہے گا۔‘
رہنما جے یو آئی کا کہنا تھا: ’جہاں تک گورنرشپ یا سینیٹ میں نشستوں کی آفر کا تعلق ہے تو ہمیں اس سے پہلے وزیراعظم شہباز شریف بڑی بڑی آفرز دے چکے ہیں۔ لیکن ہمارا اصولی مؤقف ہے۔
’ہم اس پر قائم ہیں کہ ہم دھاندلی زدہ انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے۔‘
ترجمان جے یو آئی کے بقول، ’قومی اسمبلی میں جن آئینی ترامیم میں ہماری حمایت لینے کی بات ہو رہی ہے، تو ابھی تک ہمارے سامنے حکومتی ڈرافٹ آیا ہے نہ ہی اس کی تفصیلات دی گئیں ہیں۔
’جب ہمارے سامنے یہ بل آئیں گے تو ہم پھر پارٹی پالیسی کے مطابق فیصلہ کریں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمارے رکن اسمبلی نور عالم خان نے جو بھی بل جمع کرائے وہ انہوں نے ذاتی حیثیت میں جمع کرائے ہیں، ان سے پارٹی کا کوئی تعلق نہیں۔
’البتہ جب وہ پارٹی قیادت سے اس بارے میں بات کریں گے تو ہم دیکھیں گے کہ وہ بل برقرار رکھنے ہیں یا ان پر کوئی پالیسی اختیار کرنا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پیپلز پارٹی کی رہنما شہلا رضا نے کہا کہ ’مولانا ہمیشہ سے بڑے سیاست دان ہیں وہ ملک و قوم کی بہتری کے لیے ہمیشہ جمہوری قوتوں کا ساتھ دیتے رہے ہیں۔ جہاں تک بات آئینی ترامیم کی ہے تو وہ اس سیشن میں تو نہیں ہو رہیں۔
’جب ملکی مفاد میں اس طرح کی قانون سازی کرنا ہو گی تو ہمیں یقین ہے کہ جمعیت علمائے اسلام اس میں ہمارا ساتھ دے گی۔‘
پی ٹی آئی کے شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ صدر زرداری سے مولانا فضل الرحمان کی کیا بات ہوئی انہیں اس سے کوئی مطلب نہیں۔ ’لیکن ہماری ان سے جو بات ہوئی ہے وہ اپوزیشن اتحاد کے ساتھ ہیں۔
’مولانا نے ہمیں یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اپوزیشن جماعتوں سے مشاورت کے بغیر کسی قسم کی آئینی ترامیم میں حکمران اتحاد کا ساتھ نہیں دیں گے۔‘
مولانا فضل الرحمن کو عہدوں کی آفر ہوئی؟
اس حوالے سے شہلا رضا نے کہا کہ ’صدر زرداری سے مولانا کی ملاقات میں انہیں گورنرشپ کی آفر میرے علم میں نہیں، لیکن میں سمجھتی ہوں ان کا سیاسی قد اتنا اونچا ہے کہ وہ عہدوں کے لیے سیاست نہیں کرتے بلکہ ان کے اپنے اصول ہیں۔
’اگر کسی موقعے پر حکومت کو ان کے تعاون کی ضرورت ہو گی اور وہ بھی اپنی پارٹی پالیسی کے مطابق یہ سمجھیں گے کہ ملکی مفاد میں حمایت کرنا چاہیے تو وہ بغیر کسی لالچ کے کریں گے۔
’ان کی اپنی شناخت اور علیحدہ جماعت ہے۔ لہذا وہ اپنے فیصلوں میں اتنے ہی آزاد ہیں جتنا باقی سیاسی جماعتیں۔‘
شہلا رضا کے بقول، ’اس وقت آئینی ترامیم سے بڑے مسائل معیشت اور عسکریت پسندی ہیں۔ حکمران اتحاد کی سب سے زیادہ توجہ اسی جانب ہے۔ مولانا سے صدر مملکت کی ملاقات اس حوالے سے بھی اہم تھی۔‘
شعیب شاہین کے بقول، ’ہماری قیادت نے مولانا فضل الرحمن سے ملاقات میں ان کی رائے معلوم کی ہے۔ جس کے مطابق انہوں نے واضح کر دیا ہے کہ وہ کسی صورت دھاندلی زدہ حکومت کا ساتھ نہیں دیں گے۔ اگر حکومت آئین میں ترامیم حکومت کرے گی تو وہ اس کی حمایت نہیں کریں گے۔
’جہاں تک سوال ہے مولانا کو کے پی کے سے دو سینیٹ کی نشستیں دینے کی پیش کش کا تو ہم نے انہیں ایسی کوئی آفر نہیں کی۔ نہ ہی انہوں نے ایسا کوئی مطالبہ کیا۔ اس حوالے سے خبریں بے بنیاد ہیں۔‘
ترجمان جے یو آئی اسلم غوری کے بقول، ’ہم ماضی میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے اتحادی رہے ہیں، لیکن عام انتخابات میں دھاندلی پر سب سے پہلے آواز ہم نے اٹھائی۔
’موجودہ حکمران اتحادی رہنما پہلے دن سے ہمیں بڑے بڑے عہدے دے کر ساتھ رکھنے کی کوشش کر چکے ہیں۔
’لیکن ہم نے پہلے بھی دھاندلی سے بننے والی حکومت کا حصہ بننے سے انکار کیا اور اب بھی کسی ڈیل یا ذاتی مفاد کو ترجیح نہیں دیں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’سیاسی ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں ان میں قومی امور بھی زیر غور آتے ہیں، لیکن ہم اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ہیں ان سے بھی کوئی سیاسی فائدہ حاصل نہیں کریں گے۔
’ہماری جو سیاسی اہمیت ہے وہ سیٹوں یا عہدوں کی محتاج نہیں۔ ہم 90 فیصد اپوزیشن کے ساتھ ہیں اور 10 فیصد جہاں قومی و ملکی مفاد ہو گا۔ اس میں حکومت کا ساتھ بھی دے سکتے ہیں۔‘