مبینہ دھاندلی کے خلاف مولانا فضل الرحمن تحریک نتیجہ خیز ہو سکتی ہے؟

پاکستان میں ہونے والے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کوئی نیا مظہر نہیں ہے بلکہ ماضی میں ہونے والے تقریباً ہر الیکشن میں ایسے اعتراضات اور سوالات اٹھاتے جاتے رہے ہیں۔

مولاقنا فضل الرحمٰن نے میڈیا سے گفتگو میں انتخابات کے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے تحریک کا اعلان کیا (جے یو آئی پاکستان) 

آٹھ فروری کے انتخابات میں اکثر سیاسی و مذہبی جماعتیں دھاندلی کا الزام لگا رہی ہیں اور الیکشنز کے چوری ہونے کی بات پہلی مرتبہ نہیں ہو رہی بلکہ 2013 اور 2018 کے انتخابات پر بھی ایسے ہی سوالات اور اعتراضات اٹھائے گئے تھے۔ 

2013 کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن کو زیادہ نشستیں ملنے پر پاکستان تحریک انصاف نے دھاندلی کے نام پر تحریک چلائی تھی جب کہ 2018 میں جب پی ٹی آئی کو زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی تو پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے نام سے سیاسی جماعتوں کا اتحاد بنا۔

پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی کال پر عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک چلتی رہی۔

آٹھ فروری کے انتخابات میں اگرچہ پی ٹی آئی نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں لیکن وہ دھاندلی کا الزام لگا رہی ہے۔

نون لیگ کو دوسرے نمبر پر نشستیں ملی وہ بھی دھاندلی کو اپنی اکثریت میں نشستوں کی راہ میں روکاوٹ قرار دے رہے ہیں۔

کراچی میں ایم کیو ایم کو پہلے سے زیادہ نشتیں ملنے پر پیپلز پارٹی دھاندلی کا الزام لگا رہی ہے۔

اسی طرح مذہبی جماعتیں بشمول جماعت اسلامی، تحریک لبیک، جمعیت علما اسلام بھی دھاندلی کے ذریعے ہرائے جانے کا رونا رو رہے ہیں۔

مولانا فضل الرحمن کی جماعت کو قومی و صوبائی اسمبلی کی چند نشستیں تو ملی ہیں لیکن انہوں نے دھاندلی کے خلاف ایک بار پھر سب سے سخت موقف اپناتے ہوئے انتخابی نتائج کو مسترد اور ملک گیر تحریک کا اعلان کیا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بار وہ اسمبلیوں میں رہتے ہوئے دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر تحریک کو کتنا مؤثر بنا سکیں گے؟

دوسری جانب تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ بانی چیئرمین پی ٹی آئی نے دھاندلی کے خلاف مشترکہ تحریک کے لیے جے یو آئی سے بات کرنے کی منظوری دے دی ہے۔

ترجمان جے یو آئی اسلم غوری کے مطابق ’جے یو آئی  دیگر جماعتوں سے مل کر نہ صرف مؤثر تحریک چلانے کی تیاری کر رہی ہے بلکہ ہم اپنی مجلس عمومی سے پارٹی آئین میں ترمیم کی صورت میں اس انتخابی نظام کو بھی چیلنج کریں گے۔‘

تجزیہ کار ندیم رضا کے مطابق، ’ہر سیاسی جماعت دھاندلی کا الزام لگا رہی ہے۔ کئی نشستوں پر دھاندلی سے نتائج تبدیل ہوئے ہوں گے لیکن موجودہ ملکی صورت حال میں تحریکوں کی گنجائش نہیں ہے۔ امید ہے نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت مولانا فضل الرحمن کو راضی کر لیں گے۔ وہ شاید حکومت میں زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کے لیے دباؤ بڑھا رہے ہیں۔‘

سیاسی انجینئرنگ کا الزام

جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ ’ہر بار 30 سے 40 نشستوں پر ملک بھر میں نتائج تبدیل کر کے پسندیدہ جماعتوں کو جتوا دیا جاتا ہے۔ دھاندلی کر کے ہماری کئی نشستوں پر کامیابی کو شکست میں تبدیل کیا گیا۔ کئی نشستوں پر دھاندلی کے ثبوت موجود ہیں فارم 45 کے نتائج تبدیل کر کے 47 فارم جاری کیے گئے۔‘

لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے لیاقت بلوچ نے کہا کہ ’ہم دھاندلی کے خلاف وائٹ پیپر بھی جاری کریں گے اور اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کرائیں گے۔ ہم انتخابی نتائج کو مسترد کرتے ہیں۔‘

اسلم غوری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہماری خیبر پختونخواہ، بلوچستان اور کراچی سے کئی نشستوں پر کامیابی کو شکست میں تبدیل کی گئی ہے۔ کئی نشستوں کے نتیجے روک رکھے ہیں تاکہ مرضی کے نتائج حاصل کیے جاسکیں۔ ہمارا راستہ فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف آواز اٹھانے اور خطے میں امن وامان قائم کرنے کی کوششوں کے باعث عالمی طاقتوں کی ایما پر روکا گیا ہے۔‘

ترجمان جے یو آئی کے مطابق ’ہماری پوزیشن کے پی میں اکثریتی صوبائی اور 50 کے قریب قومی اسمبلی کی نشستوں پر واضح تھی۔ اسی طرح بلوچستان میں 12 قومی اور زیادہ صوبائی نشستوں پر پوزیشن مضبوط تھی۔ لیکن دونوں صوبوں میں قومی اسمبلی کی چھ جب کہ صوبائی کی بہت کم نشستیں دھاندلی سے جیتنے دی گئیں۔‘

تجزیہ کار ندیم رضا نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں پہلے بھی سیاسی انجنیئرنگ کے لیے نشستوں پر ہار کو جیت جب کہ فتح کو شکست میں تبدیل کیا جاتا رہا ہے۔ پہلے پی ٹی آئی زیادہ نشستیں جیتی تھی، ایم کیو ایم کو چند نشستیں دی گئی تھیں۔ اس بار پی ٹی آئی کی وہی نشستیں ایم کیو ایم کو جتوا دی گئی ہیں۔ این اے 241 سے فاروق ستار کو چار ہزار ووٹ ملے جبکہ دوسرے حلقے سے ایک لاکھ سے زائد ووٹ لے کر جیت گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اس تاثر کو ایسے بھی تقویت ملتی ہے کہ سندھ اور بلوچستان میں پی ٹی آئی کی کامیابی نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ کے پی کے اور پنجاب میں وہ کافی نشستیں لینے میں کامیاب ہو گئی۔ ان کی پاپولر ویو سندھ اور بلوچستان میں کہاں گئی؟ سندھ کی قوم پرست جماعتوں جی ڈی اے کو بھی ان نشستوں پر شکست ہو گئی جہاں ان کی پوزیشن زیادہ مضبوط تھی۔‘

مولانا کی تحریک کوکتنی تقویت ملنے کا امکان ہے؟

مذہبی جماعتوں کے ساتھ سیاسی جماعتوں کی جانب سے دھاندلی کے الزامات کے بعد جے یو آئی کی ممکنہ تحریک میں جان پڑتی تو دکھائی دے رہی ہے مگر مولانا کا جھکاؤ کیونکہ نون لیگ اور پیپلزپارٹی کی قیادت کی طرف رہا ہےاس لیے ابھی متوقع حکمران اتحاد کی جانب سے مولانا فضل الرحمن کو منانے کی کوششیں بھی تیز ہونے کا امکان ہے۔

ترجمان جے یو آئی نے کہا ہے کہ ’جے یو آئی اب اس انتخابی نظام سے تنگ آچکی ہے لہذا ہمارا موقف واضح ہے۔ ہم نے صوبائی تنظیموں سے مشاورت شروع کر دی ہے تاکہ تحریک لیے انہیں تیار کیا جائے۔ اس تحریک میں جماعت اسلامی، ٹی ایل پی، جی ڈی اے، اے این پی ہو یا تحریک انصاف سب کو دعوت دیں گے۔

’ہمارے ساتھ جو بھی دھاندلی کے خلاف تحریک میں شامل ہوگا ہم اسے خوش آمدید کہیں گے۔ پہلے ملک بھر میں کارکنوں کو متحرک کریں گے پھر لانگ مارچ کی طرف جائیں گے۔‘

ندیم رضا کے مطابق ’پی ٹی آئی کی جانب سے جے یو آئی کے ساتھ دھاندلی کے خلاف تحریک سے متعلق بات چیت کے اعلان سے مولانا کی تحریک موثر ہونے کا امکان بڑھ گیا ہے۔

’اسی طرح دیگر جماعتیں بھی شامل ہو گئیں تو نئی حکومت کے لیے مسائل بڑھنے کا خدشہ ضرور ہے۔ لیکن نومنتخب حکومت اس پر قابو پانے کے لیے کیا حکمت عملی بناتی ہے وہ دیکھنا ہو گا اور پھر اس صورت حال میں عدم استحکام معیشت کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔‘

ان کا کہنا تھا: ’ماضی میں مولانا کے کردار کو مدنظر رکھا جائے تو وہ ایک زیرک سیاست دان سمجھے جاتے ہیں۔ لہذا وہ اب بھی اس صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت میں شمولیت کے لیے پر کشش عہدوں کی آفر پر شاید خاموش ہونے پر تیار ہوجائیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’حکومت نے مولانا فضل الرحمن کو راضی نہ کیا تو نہ صرف حکومت کے لیے بلکہ عدم استحکام کے مسائل بڑھنے کا خطرہ ضرور موجود ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست