آٹھ فروری کے انتخابات میں خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 44 میں جمعیت علمائے اسلام ف (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 44 جے یو آئی کے سربراہ کا حلقہ ہے، جہاں سے وہ ماضی میں بھی انتخابات میں حصہ لیتے رہے ہیں اور اس حلقے میں ہمیشہ سخت مقابلہ دیکھنے میں آیا ہے۔
حالیہ عام انتخابات میں مولانا فضل الرحمٰن کا مقابلہ آزاد حیثیت سے لڑنے والے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ علی امین گنڈا پور اور پیپلز پارٹی کے فیصل کریم کنڈی سے ہے۔
ماضی میں پاکستان مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے سینیٹر وقار خان بھی اسی حلقے سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، انہیں مسلم لیگ ن نے ٹکٹ نہیں دیا۔
نصرت گنڈا پور ڈیرہ اسماعیل خان کے مقامی صحافی ہیں، جو این اے 44 میں انتخابات کے حوالے سے ایک سروے بھی کر چکے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ 1988 سے 2018 کے درمیان ڈیرہ اسماعیل خان کے اس حلقے سے مولانا فضل الرحمٰن ایک مرتبہ مقابلہ جیتے جب کہ ایک ہی مرتبہ انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
نصرت گنڈا پور نے اپنے سروے کے نتائج کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا: ’سروے میں مولانا فضل الرحمٰن کا پیپلز پارٹی کے فیصل کریم کنڈی اور پی ٹی آئی کے علی امین گنڈا پور کے ساتھ کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے، جب کہ پی ٹی آئی اور جے یو آئی کے امیدواروں کی جیت میں بہت کم فرق ہو گا۔‘
نصرت گنڈا پور کا کہنا تھا کہ گذشتہ تقریباً ایک مہینے سے ڈیرہ اسماعیل خان دھند کی لپیٹ میں تھا، جس کے باعث حلقے میں انتخابی مہمات محدود رہیں۔ ’اس حلقے میں دھوپ نکلنے کے بعد انتخابی جلسوں اور ریلیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔‘
انہوں نے کہا کہ این اے 44 میں پی ٹی آئی نے بغیر کسی رکاوٹ کے بڑا جلسہ کیا، جب کہ جے یو آئی ف کے مولانا فضل الرحمٰن اور ان کے بیٹے سکیورٹی خدشات کے باعث ابھی تک کوئی بڑا جلسہ کر نہیں پائے، تاہم ان کے بھائی ریلیوں سے خطاب کر رہے ہیں۔
نصرت گنڈا پور نے مولانا فضل الرحمٰن کی انتخابی حکمتِ عملی بیان کرتے ہوئے کہا: ’مولانا کا ماضی میں بھی یہی طریقہ ہے کہ وہ دو جلسے کرتے ہیں، ایک مدرسے کے طلبہ کے ساتھ اور ایک عوامی جلسہ۔‘
ان کا کہنا تھا کہ بظاہر پاکستان مسلم لیگ ن نے مولانا فضل الرحمٰن کو فائدہ پہنچانے کی خاطر این اے 44 سے کسی کو ٹکٹ نہیں دیا تاہم پارٹی نے ڈیرہ اسماعیل خان میں خیبر پختونخوا اسمبلی کی نشستوں کے لیے امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔
انتخابی تاریخ
1988 کے انتخابات میں این اے 44، جو اس وقت این اے 18 تھا، سے مولانا فضل الرحمٰن 60 ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے، جب کہ 1990 میں اسی حلقے سے پیپلز ڈیموکریٹک الائنس کے امیدوار فضل کریم کنڈی نے جے یو آئی ف کے سربراہ کو 12 ہزار ووٹوں کے فرق سے شکست دی تھی۔
1993 کے عام انتخابات میں اس حلقے سے مولانا فضل الرحمٰن نے 59 ہزار سے زیادہ ووٹ لے کر پاکستان مسلم لیگ ن کے الحاج سردار عمر فاروق خان کو شکست دی تھی، جب کہ 1997 میں معاملہ الٹ ہوا اور لیگی امیدوار نے 20 ہزار ووٹوں کے فرق سے مولانا کو ہرایا۔
متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) نے 2002 کے عام انتخابات میں مولانا فضل الرحمٰن کو اسی حلقے سے میدان میں اتارا اور انہوں نے کامیابی حاصل کی، تاہم 2008 میں انہوں نے پیپلز پارٹی کے فیصل کریم کنڈی کے ہاتھوں شکست کھائی۔
مولانا فضل الرحمٰن 2013 میں ایک مرتبہ پھر اسی حلقے سے امیدوار تھے اور کامیابی نے ان کے قدم چومے، لیکن ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کے داور کنڈی نے کامیابی حاصل کی۔
2018 کے انتخابات میں اس حلقے سے پی ٹی آئی کے علی امین گنڈا پور نے مولانا فضل الرحمٰن کو تقریباً 40 ہزار ووٹوں سے شکست دی۔
حلقے کے رہائشی
عرفان اللہ کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان کے حلقہ این اے 44 سے ہے اور وہ انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے تیار ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ چاہے مولانا فضل الرحمٰن ہوں یا کسی دوسرے پارٹی کا امیدوار، ڈی آئی خان کا بنیادی مسئلہ بجلی کا ہے، جسے ابھی تک حل نہیں کیا گیا۔
اسی طرح عرفان کے مطابق نکاسی آب کا مسئلہ بھی گھمبیر ہے لیکن گذشتہ حکومت میں علی امین گنڈا پور نے ایک عالمی ادارے کے تعاون سے اس میں تھوڑا بہت کام کیا۔
عرفان نے بتایا: ’فیصل کریم کنڈی کی بات کریں تو وہ گذشتہ 10 سال حکومت سے باہر تھے، تو ان کی حمایت بظاہر اتنی نہیں ہے۔‘
ماضی میں مولانا فضل الرحمٰن کے ڈیرہ اسماعیل خان سے جیتنے کی وجہ کے بارے میں عرفان نے بتایا کہ مدارس میں ان کی حمایت موجود ہے اور وہاں سے انہیں زیادہ ووٹ ملتے ہیں۔
اسی حلقے سے تعلق رکھنے والے رقیب اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ایسا نہیں ہے کہ این اے 44 میں مولانا کا مضبوط ہولڈ ہے بلکہ ماضی میں مختلف سیاسی جماعتیں یہاں سے جیت چکی ہیں۔
رقیب نے بتایا کہ حلقے کے بنیادی مسائل میں پینے کے صاف پانی کی ناپیدی جبکہ امن و امان کی صورت حال ہے، جن کے حل کے لیے ابھی تک خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔
انہوں نے کہا: ’میں جس کو بھی ووٹ دوں گا، امید یہی ہو گی کہ وہ علاقے کے مسائل کو حل کرنے پر توجہ دیں۔ پہلے امیدوار کے منشور دیکھوں گا اور صرف بیانات اور جلسے جلوسوں میں تقاریر پر ووٹ نہیں دوں گا۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔