جب پیسے نہ دینے پر بھکاریوں نے پتھر مارے

مری میں مال روڈ سے پیدل ہوٹل واپسی پر ایک ایسے حملے کا سامنا کرنا پڑا جس میں ہمارا قصور صرف نوٹوں کے رنگ میں فرق کرنا تھا۔

13 فروری، 2007 کو لاہور میں بارش کے دوران ایک بھکاری بھیک مانگ رہا ہے (اے ایف پی)

کالج ٹرپ کا دوسرا دن تھا، رات کو مری میں مال روڈ سے پیدل ہوٹل واپسی پر ایک ایسے حملے کا سامنا کرنا پڑا جس میں ہمارا قصور صرف نوٹوں کے رنگ میں فرق کرنا تھا۔

اسلام آباد اور مری میں ایسے بھکاریوں کی کمی نہیں جو دوسرے شہروں سے خاندان سمیت آئے ہوتے ہیں۔

ایک ہی خاندان کے لوگ بشمول چھوٹے بچے مہارت سے بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں اور اگر انھیں کچھ  نہ دو تو بددعاؤں پر اتر آتے ہیں۔

مال روڈ پر تو جیسے پورا بھکاریوں کے قبضے میں ہے۔ ہوٹل واپسی پر راستے میں ایک دوست نے جو بہت نازک مزاج یا یوں کہہ لیجیے کچھ زیادہ ہی خدا ترس تھی، ایک بچے کو کنگھیاں بیچتا دیکھا تو سیدھا اس کے ہاتھ پر ہزار کا نوٹ دھر دیا۔

اس کا ماننا تھا کہ کم از کم یہ بچہ بھیک تو نہیں مانگ رہا۔ ہم نے بہت روکا کہ یہ عادی ہیں اور یہ سب ان کی ترکیبیں ہیں مگر اس نے ایک نہ سنی اور پھر ہوا وہی جس کا ڈر تھا۔

اس معصوم نظر آنے والے بچے نے اپنے ساتھی بھکاری بچوں کو اشارہ کیا۔ خیر ان کو ہم نے 20،20 کے  نوٹ تھمائے مگر ان کی ضد تھی کہ انھیں نیلے رنگ کا ہی نوٹ چاہیے جو اس لڑکے کو دیا ہے اور کسی رنگ کا نوٹ نہیں لیں ‎گے۔

بہت بحث ہوئی، ہم اپنے راستے چل دیے مگر وہ ہمارے پیچھے ہوٹل تک آ گئے اور جب کچھ نہ بن پایا تو زمین سے پتھر اٹھا کر مارنا شروع کردیے جو ہم میں سے ایک کے سر اور میرے ہاتھ پر لگا۔

مقامی لوگوں نے ان بھکاری لڑکوں کے ساتھ ناجانے کیا کیا ہو گا مگر افسوس اس بات کا تھا کہ یہ بچے ہماری قوم کا مستقبل ہیں۔

وہ کس راستے پر لگے ہیں اور اگر ان کے رویوں سے بچنے کے لیے ہر کوئی ان کو پیسے تھماتا رہے گا تو یہ مستقل اورعادی بھکاری بن جائیں گے۔

پاکستان میں بس دو طبقات ہی زندگی ’جی‘ رہے ہیں، ’ایک ایلیٹ اور دوسرے بھکاری۔‘

آئین پاکستان کی دفعہ 1958 کے مطابق بھیگ مانگنا جرم ہے اور اس کی سزا تقریباً تین سال یا زیادہ کی قید اور جرمانہ ایک سے تین لاکھ روپے ہے لیکن اس سب کے باوجود ہمارے ایلیٹ بھکاری وکیل کی خدمات حاصل کر کے خود کو پولیس تحویل سے آزاد کروا لیتے ہیں۔

ان میں اکثریت ان بھکاریوں کی ہے جنھوں نے اس کو اپنا باقاعدہ پیشہ اور واحد ذریعہ آمدن بنا رکھا ہے اور یہ پیشہ اس حد تک کامیاب ہو گیا تھا کہ پاکستانی بھکاریوں نے سوچا کہ اپنوں کو بہت لوٹ لیا اب انھی پیسوں سے باہر کی سیر بھی کرتے اور لوٹتے ہیں۔

سعودی عرب میں اس سال رمضان میں درجنوں پاکستانی گرفتار اور ڈی پورٹ ہوئے، جنھوں نے عمرے کی آڑ میں اپنے ویزے کا غلط استعمال کرتے ہوئے بھیگ مانگنے کے ساتھ ساتھ جیب کتری بھی کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

متحدہ عرب امارات میں بھی اسی رمضان کے پہلے دو عشروں میں درجنوں پاکستانی مرد اور خواتین بھکاری گرفتار ہوئے۔

انہی بھکاریوں کی وجہ سے عرب امارات نے ویزہ پالیسی بھی سخت کردی ہے۔

سب سے زیادہ حیرت تو اس وقت ہوتی ہے جب سینیٹ کی کمیٹی برائے اوورسیز پاکستانی میں یہ انکشاف ہوتا ہے کہ بیرون ملک گرفتار ہونے والے بھکاریوں میں 90 فیصد پاکستانی ہیں۔

ان عادی بھکاریوں کی وجہ سے بیرون ملک سالوں سے مقیم پاکستانیوں کی بھی زندگی اجیرن ہوئی بغیر کسی قصور کے۔

ایسے لوگوں کو یا تو سیدھے راستے کی تلقین کی جائے یا سخت سزائیں دی جائیں۔

بطور عوام ہمارا کردار سب سے زیادہ اہم ہے کہ ہم ان لوگوں کو دینے کی بجائے سختی کریں۔ اپنا ہاتھ روکیں اور انھیں محنت مزدوری کر کے پیٹ بھرنے کی تلقین کریں۔

وگرنہ اگلے چند سالوں میں مہنگائی کے مارے پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں محنت کرنے والے اور نوکریاں دینے والے کم ہی ہوں گے۔

فیصلہ آپ نے کرنا ہے اگر اپنے بچوں کے مستقبل کو سنوارنا ہے۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ